مسلم لڑکی کی ہندو لڑکے سے محبت کی شادی، مرنے کے بعد نماز جنازہ کیوں نہیں پڑھائی گئی؟
عینی شاہدین کے مطابق، اہل علاقہ نے جب لڑکی کو مسلم قبرستان میں دفن کرنے پر اعتراض کیا تو گھر والوں نے بتایا کہ لڑکی کی خواہش تھی کہ اُسے مرنے کے بعد دفن کیا جائے۔ مگر حالات ایسے بنے کہ بغیر نمازِ جنازہ کے اُسے خاموشی سے دفنا دیا گیا۔

رائے بریل: اترپردیش کے ضلع راے بریلی سے ایک دل دہلا دینے والی خبر نے سوشل میڈیا سمیت مذہبی اور سماجی حلقوں میں بحث چھیڑ دی ہے۔ ایک مسلم لڑکی نے ہندو مذہب قبول کرتے ہوئے ہندو لڑکے سے شادی کی، مگر شادی کے صرف چند دن بعد ہی اس کا انتقال ہو گیا۔
ذرائع کے مطابق، مذکورہ لڑکی نے ہندو رسم و رواج کے مطابق ایک غیر مسلم نوجوان سے شادی کر لی تھی۔ شادی کے بعد جب اس کی موت ہوگئی تو معاملہ اس وقت سنگین رخ اختیار کر گیا جب علاقے کے کسی بھی امام نے اس کی نمازِ جنازہ پڑھانے سے انکار کر دیا۔ ان کا مؤقف تھا کہ چونکہ لڑکی نے اسلام چھوڑ کر ہندو دھرم قبول کیا، لہٰذا وہ دائرۂ اسلام سے خارج ہو چکی تھی۔
عینی شاہدین کے مطابق، اہل علاقہ نے جب لڑکی کو مسلم قبرستان میں دفن کرنے پر اعتراض کیا تو گھر والوں نے بتایا کہ لڑکی کی خواہش تھی کہ اُسے مرنے کے بعد دفن کیا جائے۔ مگر حالات ایسے بنے کہ بغیر نمازِ جنازہ کے اُسے خاموشی سے دفنا دیا گیا۔
یہ واقعہ محض ایک افسوسناک خبر نہیں، بلکہ معاشرے کے بگڑتے رجحانات کا آئینہ ہے۔ آج کے دور میں سوشل میڈیا، فلموں، اور مادر پدر آزاد ماحول نے ہماری نئی نسل، بالخصوص مسلم بیٹیوں کو ایسے راستوں پر ڈال دیا ہے جہاں عقیدہ، دین، اور اخلاقی اقدار کہیں پیچھے رہ گئے ہیں۔
باحجاب مسلم لڑکیاں، غیر مسلم لڑکوں کے ساتھ پارکوں، سڑکوں اور ہوٹلوں میں بےخوف گھومتی دکھائی دیتی ہیں۔ یہ مناظر صرف افسوسناک ہی نہیں بلکہ معاشرتی المیہ بنتے جا رہے ہیں۔ والدین، گھر کا ماحول، دینی تربیت اور معاشرتی نگرانی — سب کے سب اس بگاڑ کے ذمے دار بن رہے ہیں۔
یہ وقت ہے کہ ہم اپنے گھروں کا رخ کریں۔ اپنی بیٹیوں کو صرف دنیاوی تعلیم ہی نہیں، بلکہ دین، غیرت اور شعور سے بھی آراستہ کریں۔ اسلام صرف مسجد اور رمضان تک محدود نہیں ہونا چاہیے، بلکہ وہ ہمارے گھروں، فیصلوں، اور نسلوں میں جھلکنا چاہیے۔