سوشیل میڈیامذہب

وقف کی زمین کو فروخت کرنا

بعض لوگوں کا خیال ہے کہ مسلمان کی وقف کی ہوئی چیز کو اگر مسلمان ہی استعمال کرے تو اس کی گنجائش ہونی چاہئے، یہ کس حد تک صحیح ہے؟

سوال:بد قسمتی کی بات ہے کہ مسلمان سرکار کی زمین تو غصب کرتا ہی ہے، بہت سی دفعہ اوقاف کی زمین پر بھی قبضہ کر لیتا ہے، اس کے لئے مختلف تدبیریں اور وسائل کا استعمال کرتے ہیں،

متعلقہ خبریں
مشرکانہ خیالات سے بچنے کی تدبیر
ماہِ رمضان کا تحفہ تقویٰ
چائے ہوجائے!،خواتین زیادہ چائے پیتی ہیں یا مرد؟
دفاتر میں لڑکیوں کو رکھنا فیشن بن گیا
بچوں پر آئی پیڈ کے اثرات

بعض لوگوں کا خیال ہے کہ مسلمان کی وقف کی ہوئی چیز کو اگر مسلمان ہی استعمال کرے تو اس کی گنجائش ہونی چاہئے، یہ کس حد تک صحیح ہے؟ (ابرار احمد، ممبئی)

جواب:جب کوئی زمین وقف کر دی جاتی ہے تو وہ موجودہ مالک کی ملکیت سے نکل کر براہ راست اللہ تعالیٰ کی ملکیت میں داخل ہو جاتی ہے، اب و قف کرنے والے کا یا کسی اور شخص کا اس پر قابض ہو جانا قطعاََ جائز نہیں ہے،

اور وہ اسے کسی کو فروخت نہیں کر سکتا، یہ کہنا کہ وہ مسلمان کی چیز تھی؛ اس لئے مسلمان اس سے فائدہ اٹھاسکتے ہیں، خیانت ، بددیانتی اور اللہ سے بے خوفی ہے، اس بات پر فقہاء کا اتفاق ہے کہ وقف کی ہوئی چیز کسی کو بیچی نہیں جا سکتی:

إذا صح الوقف لم یجز بیعہ ولا تملیکہ، قال ابن الھمام: لم یجز بیعہ ولا تملیکہ وھو باجماع الفقھاء ( فتح القدیر: ۶؍۲۲۰)

یہاں تک کہ اگر وقف کی زمین ویران ہو جائے تب بھی وہ وقف ہی رہے گی، وقف کرنے والے کی یا اس کے وارث کی ملکیت میں واپس نہیں آئے گی: ان الوقف لا یملک ولا یُباع یقتضي أن الوقفیۃ لا تبطل بالخراب ولا تعود الیٰ ملک الواقف ووارثہ (بحر الرائق: ۵؍ ۲۲۳)

a3w
a3w