مضامین

بابری مسجد کی شہادت کے 30 سال

محمد محبوب

آج سے ٹھیک 30 سال قبل ملک کے مختلف علاقوں سے ایودھیا پہنچنے والے انتہاپسند ہندو کارسیوکوں نے بابری مسجد کو شہید کردیا تھا۔ ہندوستان کی تاریخ کا یہ وہ سیاہ دن تھا جب ایک طبقہ کی عبادت گاہ کو دن کے اُجالے میں شہید کردیا گیا اور حکومت بے بس تھی۔ 6 دسمبر اس لیے بھی یاد رکھا جا ئے گا کہ اس دن نہ صرف بابر کی بنائی ہو ئی بابری مسجد کو ڈھا یا گیا تھا بلکہ اس دن سیکولرزم اور جمہوریت کی مضبوط عمارتوں کو بھی ڈھا دیا گیا تھا۔ بابری مسجد کی شہادت کی ان تین دہا ئیوں کے دوران کئی سیاسی جماعتوں نے بابری مسجد اور رام مندر کے نام پر اپنی روٹیاں سینک لیں۔ فرقہ وارانہ فسادات ہوئے، سینکڑوں ہلاکتیں ہوئیں۔ ایودھیا کے معنی جنگ سے پاک مقام ہے لیکن ایودھیا کا نام سنتے ہی ہمارے ذہنوں میں بابری مسجد کی شہادت کا وہ المناک دن یاد آجا تا ہے۔ تاہم آج با بری مسجد کی شہادت کی برسی کی مناسبت سے زیر نظر مضمون رقم کیا گیا ہے۔
با بری مسجد کا تاریخی پس منظر:
1528 ء میں مغلیہ سلطنت کے بانی وفر مانروا بابر کی ہدایت پر سپہ سالار میرباقی نے ایودھیا میں ایک مسجد تعمیر کی اور بابر کے نام پر ہی اس مسجد کا نام بابری مسجد رکھا۔جبکہ ہندوؤں کا الزام ہے کہ ہندوستان کو فتح کرنے کے بعد بابر نے ایودھیا میں رام کی جائے پیدائش کے مقام پر مسجد تعمیر کی تھی جہاں قبل ازیں مندر تھا۔اکبر کے دور میں انگر یز ہندوستان میں وارد ہو نا شروع ہوئے اور آہستہ آہستہ مغلیہ سلطنت کے خاتمہ کا سبب بنے اور ہندوستان پر قبضہ جمالیے۔ انگر یزوں اور ہندوستانیوں کے درمیان آزادی کی جو پہلی جنگ ہوئی وہ 1857 کو ہوئی جسے غدر کا نام دیا گیا۔ ہندوستان کی آزادی کے لیے انگر یزوں اور ہندوستانیوں کے درمیان ہوئی یہ پہلی باضابطہ جنگ تھی۔ جس میں ہندوستانیوں کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ اس جنگ تک بھی ایودھیا میں بابری مسجد کا کوئی تنازعہ نہیں تھا۔جنگ کے بعد انگریزوں نے پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو کی پالیسی کے تحت ہندوؤں میں یہ شوشہ چھوڑا کہ رام کی پیدائش بابری مسجد کے احاطہ بلکہ چبوترے کے پاس ہی ہوئی تھی۔ یہ شوشہ ایساتھا کہ جس نے جنگل میں آگ لگا نے کا کام کیا اور ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان مسجد اور مندر کا تنازعہ شروع ہوا جو بڑ ھتے بڑھتے مذہبی تشدد کی شکل اختیار کرگیا۔ 1858 ء میں بابری مسجد اراضی کی ملکیت پر دونوں فریقوں کے درمیان تشدد ہوا تو برطانوی حکومت نے مداخلت کر تے ہو ئے مسجد کاا ندرونی حصہ مسلمانوں کے لیے اور بیرونی حصہ ہندوؤں کے لیے مختص کر دیا۔1885 میں مسجد سے متصل رام چبو ترے پرا یک سائبان بنانے کی اجازت دینے کے لیے مہنت رگھو یر داس نے فیض آباد ضلعی کو رٹ میں پٹیشن داخل کی، لیکن عدالت نے اسے خارج کر دیا۔1949ء میں مسجد کی درمیانی گنبد کے نیچے مورتیوں کی موجودگی پر مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان حملے ہوئے اور دونوں کی ملکیت کے دعوؤں پر مبنی 2.77 ایکڑ اراضی کو متنازعہ قرار دے کر حکومت نے اسے مقفل کر دیا۔ 1950 ء میں بابری مسجد کی درمیانی گنبد کے نیچے رکھی گئی مورتیوں کی پوجا کر نے اور انہیں اندر کے حصے میں ہی مو جود رکھنے کی اجازت دینے کے لیے فیض آ باد سیول کورٹ میں درخواست داخل کی گئی۔1961ء میں بابری مسجد کی اراضی واپس دینے اور مورتیوں کو نکال باہر کر نے کے لیے اُ تر پر دیش سنی وقف بو رڈ نے کو رٹ میں درخواست داخل کی۔1986 ء میں مسجد کا قفل کھولنے اور ہندوؤں کو مورتیوں کی پوجا کر نے کے ضلعی جج نے احکامات صادر کیے۔اس کے بعد بی جے پی نے اس مسئلہ کو سیاسی رنگ دے دیا اور بی جے پی کو ایک ایسا موضوع ہاتھ لگ گیا جس نے اسے اقتدار کی کرسی تک پہنچادیا۔ بابری مسجد سے متصل اراضی پر رام مندر کی تعمیر کے لیے وشوا ہندو پر یشد نے سنگ بنیاد رکھا اور مسجد کو دوسرے مقام پر منتقل کر نے کے لیے وشواہندو پر یشد کے قائد نندن اگروال نے الہ آ باد کورٹ میں پٹیشن داخل کی۔ قبل ازیں ایودھیا کی اراضی ملکیت کے معاملہ میں عدالت میں چار درخواستیں داخل کی گئی تھیں۔تاہم درخواستوں کو الہ آباد ہائیکو رٹ نے خصو صی بنچ کے حوالے کیا۔6 ڈسمبر 1992کو ملک کے مختلف حصوں سے آئے کا ر سیوکوں نے بابری مسجد کو شہید کر دیا۔ اس وقت بھی دونوں فرقوں کے درمیان زبر دست تشدد ہوا۔ جس میں 2000 سے زائد جانیں تلف ہوئیں۔2001 ء میں با بری مسجد کی شہادت کے اہم ملزمان ایل کے اڈوانی،کلیان سنگھ کے بشمول 13 افراد پر لگے الزامات کو عدالت نے خارج کر دیا۔2002 گودھرا کے مقام پر ٹر ین کی بوگی میں آ گ لگی، اس میں 58 کار سیوک سفر کر رہے تھے جو جل کر مرگئے۔اس کے بعد گجرات میں زبردست فساد بر پا ہوا۔ 30 ستمبر 2010 کو الہ آ باد ہائیکورٹ نے آستھا کی بنیاد پر یہ فیصلہ سنایا کہ با بری مسجد کی 2.77 ایکڑ متنازعہ اراضی کو تین مساوی حصوں میں تقسیم کیا جائے۔ایک حصہ سنی وقف بو رڈ، دوسرا نر مو ہی اکھاڑا اور تیسرا رام للا کو دیا جائے۔2011 ء میں ایودھیا کی متنازعہ اراضی پر الہ آ باد ہائیکورٹ کے 30 ستمبر 2010 کے ٖ فیصلے پر سپر یم کو رٹ نے حکم التواء صادرکردیا۔2017 ء میں عدالت عظمی نے فریقین کو عدالت کے باہر آ پسی مصالحت کے ذ ریعہ معاملہ حل کر لینے کا مشورہ دیا۔یکم ا گسٹ 2019 کو ثالثی کمیٹی نے اپنی رپورٹ پیش کی۔2 ا گسٹ 2019 کو ایودھیا مسئلہ کے حل کے لیے ثالثی کمیٹی کی کوشیش ناکام ہوئیں۔6/ ا گسٹ 2019 ایودھیا متنازعہ اراضی پر سپر یم کورٹ میں یومیہ سماعت کا آ غاز ہوا۔16 اکٹوبر کو 40 دنوں کی سماعت کے بعد عدالت عظمی نے فیصلہ محفوظ کرلیا۔
تاہم ان 40 دنوں کی سماعت کے دوران ہندوؤں کے وکلاء کے دلائل اس طرح تھے کہ ”ایودھیاء میں رام مندر کم و بیش 11 ویں صدی میں وکرم آ دتیہ بادشاہ نے بنا یا ہوگا، لیکن 17 ویں صدی میں مغلیہ سلطنت کے با دشاہ بابر یااورنگ زیب نے اسے منہدم کردیا ہوگا۔والمیکی اور رامائنم،جیسی قدیم کتابوں میں 400 ق۔ م اور 600۔670 ق۔م کے دوران مختلف سیاح بشمول فا ہیان نے اپنے سفر ناموں میں لکھا کہ وہاں پو جا ہوتی تھی۔بابر نے اپنی سوانح بابر نامہ میں لکھا کہ وہ سرائے ندی پار کر کے ہندوستان میں داخل ہو اتھا، لیکن بابر نے ایود ھیا میں مسجد کی مو جودگی کی بات نہیں لکھی۔بابری مسجد اسلامی تعلیمات کے خلاف جگہ ہے۔مسلمان کسی بھی جگہ نماز پڑ ھ سکتے ہیں لیکن ہندوؤں کے لیے ایو دھیا رام کا جنم استھان ہے اور اس جگہ سے ان کی آ ستھا جڑی ہو ئی ہے۔1857 تا 1934 کے درمیان مسلمانوں نے مسجد میں نماز جمعہ پڑ ھی ہوگی، لیکن اس کے بعد مسجد میں نماز ادا کر نے کا کو ئی ثبوت نہیں ہے۔ اس کے برخلاف ہندو ہمیشہ اس جگہ پو جا وپر ار تھنا کر تے تھے اور پو جا کر نے کے لیے مورتی کا ہو نا ضروری نہیں بلکہ عقیدہ اہمیت رکھتا ہے۔متنازعہ مقام پر ایک مندر تھا جسے منہدم کیا گیا۔ یہ انکشاف محکمہ آ ثار قدیمہ کی کھدوائیوں میں بھی ہوا۔ جبکہ مسلم فر یقین کے وکلاء کی جانب سے پیش کئے گئے دلائل میں کہا گیا کہ ”والمیکی، اورراماینم تصانیف میں ایودھیا ہی رام کی جائے پیدائش ہو نے کے واضح ثبو ت نہیں ملتے۔ مسجد کو بابر کی جانب سے فنڈ کی اجرائی اور اس کے بعد کے نوا بوں کی جانب سے بھی فنڈس کی اجرائی کا انگر یز حکو مت نے بھی انکشاف و اعتراف کیا ہے۔ متنازعہ مقام پر 1528ء میں مسجد ہونے اور 1825,1934 کے دوران اس عباد ت گاہ پر حملے ہونے کا ریکا رڈ میں انکشاف ہے۔1949 ء میں ملکیت کے مقدمہ کا کیس درج ہونا ہی مسجد ہونے کا ثبوت ہے۔1885ء میں داخل کیے گئے دستاویزات بھی مسجد ہو نے کا منہ بولتا ثبوت ہیں اور 1949 دسمبر تک وہاں عیدین کی نمازیں بھی ادا کی جاتی تھیں۔“ مسلم فریقین،سنی وقف بورڈ، جمعیۃ العلماء اور مسلم پر سنل لا بو رڈ کے وکیل مسٹر راجو دھون نے دو ٹوک انداز میں کہا تھا کہ تمام دلائل مسجد ہونے کا ثبو ت دیتے ہیں۔ چنانچہ معزز عدالت شواہدکی بنیاد پر متنا زعہ اراضی مسلمانوں کے حوالے کر تے ہو ئے دوبارہ مسجد کی تعمیر کی اجازت دے۔“
بابری مسجد مقدمہ ہندوستان کی تاریخ کادوسرا طو یل تر ین مقد مہ تھا۔ کیشو نندا بھارتی بمقابلہ کیرالا ریاست کے مقدمہ کی سماعت مسلسل68 دن جاری تھی جو 31اکٹوبر 1972ء کو شروع ہوکر 23 مارچ1973 کو ختم ہوئی تھی اور آ دھار کارڈکی آ ئینی حیثیت کو چیلنج کر نے والی درخواست کی سماعت 38 دن جاری تھی۔تاہم بابری مسجد کا مقدمہ اب تک کا دوسراطویل تر ین مقدمہ بن چکا ہے، جس کی سماعت مسلسل 40 دنوں تک کی گئی۔ سابق چیف جسٹس رنجن گو گوئی، جسٹس ایس اے بوبڈے، جسٹس ڈی وائی چندر چوڈ،جسٹس اشوک بھوشن اور جسٹس عبدالنظیر پر مشتمل پانچ رکنی بنچ نے 40 دنوں تک بابری مسجد مقدمہ کی سماعت کی۔سپر یم کو رٹ کے اس وقت چیف جسٹس رنجن گوگو ئی‘ 17 نومبر2019 کو وظیفہ پر سبکدوش ہو رہے تھے۔ لہٰذا وہ وظیفہ پر سبکدوش ہو نے سے قبل اس طویل ترین مقدمہ کا فیصلہ صادر کر نا چاہتے تھے۔30 ستمبر کو الہ آ باد ہائیکورٹ نے اپنے فیصلے میں بابری مسجد کی متنازعہ 2.77 ایکڑ اراضی کو تین مساوی حصوں نر مو ہی اکھاڑا، رام جنم بھومی اور بابری مسجد کے فریقین میں تقسیم کر نے کا فیصلہ صادر کیا تھا۔تاہم کوئی بھی فر یق اس فیصلے سے مطمئن نہ ہوا اور سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھایا۔ اس فیصلے کے خلاف سپریم کو رٹ میں جملہ 14 اپیلیں داخل کی گئیں۔ 6/ اگست 2019 سے سپریم کورٹ میں روزانہ کی اساس پر اس مقدمہ کی سماعت کا آغاز کیا گیا تھا۔ عدالت نے متاثرکن اور جذباتی دلائل سننے کے بعد سماعت کی تکمیل کی اور ایک ماہ کے بعد فیصلہ صادر کیا جو مسلمانوں کے لیے افسوسناک اور حیرت انگیز تھا۔
بہرحال بابری مسجد رام جنم بھومی تنازعہ جو ہندوستان میں ایک عرصہ سے سیاسی جماعتوں کے لیے اپنی بقاء کا ایک اہم موضوع بنا ہو تھا،اپنے منطقی انجام کو پہنچ گیا۔ ہندوستان میں موجودہ حکومت کے تیور دیکھتے ہوئے سب یہ اندازہ لگا رہے تھے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ کچھ بھی ہو مندر کے حق میں زمین دے دی جائے گی اور ایسا ہی ہوا۔ مسلمانوں نے عدالت کا فیصلہ سنا تو اس پر اپنی ناراضگی ظاہر کی لیکن صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ مسلمانوں کا ایمان ہے کہ زمین کے کسی بھی حصہ میں جب ایک مر تبہ مسجد تعمیر کی جاتی ہے تو وہ قیامت تک مسجد ہی رہے گی وہ اپنے ایمان کے اس تقاضے سے کبھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ عدالت عظمی کا فیصلہ تو قع کے برخلاف تھا۔ بابری مسجد شہید ہوگئی اور پوری زمین رام مندر ٹرسٹ کو دے دی گئی اور ٹرسٹ کے ذریعہ رام مندر کے تعمیراتی کام جنگی خطوط پر جاری ہیں۔ اطلاعات کے مطابق سال 2024 جنوری میں ممکن ہے کہ رام مندر کے تعمیراتی کام مکمل ہوں گے۔مسلم پر سنل لا بورڈ، جمعیت العلماء، سنی وقف بورڈ، مر حوم ہاشم انصاری و ان کے صاحب زادے اور اس مقدمہ میں تعاون کر نے والے تمام وکلاء بالخصوص ڈاکٹر راجیو دھون، ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجاز مقبول،ایڈوکیٹ اکرتی چوبے،ایڈوکیٹ قرۃ العین حیدر، ایڈوکیٹ شاہد ندیم،ایڈوکیٹ گوتم پر بھا کر،ایڈو کیٹ کنور دیتیا، ایڈوکیٹ سدھی پادیا،ایڈوکیٹ واصف الرحمن خان کے علاوہ تمام تنظیمیں‘ محدود وسائل اور دھمکیوں کی پرواہ کیے بغیر اس مقدمہ کی کامیاب پیروی کرتے ہوئے اس مصرعہ کی عملی تفسیر بن گئے تھے کہ؎
مقابلہ تو دلِ ناتواں نے خوب کیا
٭٭٭