طنز و مزاحمضامین

بلدیہ

ایم اے حفیظ کوڑنگلی

شہر میں یہ خبر سرخیوں میں رہی کہ ”ایک بلدی ملازم گٹرمیں گرکر شدید زخمی۔حالت نازک“۔ محکمہ نے اس حادثہ کو ماننے سے صاف انکار کردیا۔ دلیل یہ کہ بلدی ملازمین شہر کے گٹروں کی گہرائی،نالوں کی لمبائی، مین ہول کی چوڑائی اور کچروں کے انبار کی اونچائی سے بخوبی واقف ہوتے ہیں اور وہ بڑی احتیاط ہنرمندی وچالاکی سے راستہ طے کرتے ہیں۔اس قسم کا واقعہ وقوع پذیر ہونے کے قطعی امکانات نہیں ہیں۔ اسی بناء پر وہ بلدی ملازم نہیں ہوسکتا۔ کچھ بھی ہوکوئی مانے نہ مانے جب سے یہ محکمہ وجود میں آیا ہے، اپنی بے حسی، غیر ذمہ داری، سردمہری کی وجہ سے بدنام ہے۔جیسے یہ اشتہار۔ ”اگر آپ کے گھر کے سامنے پیچھے یابازو کوڑاکرکٹ، مٹی کا ڈھیر، ڈرینچ کا آلودہ پانی بہہ رہا ہو یا آپ کے نل سے گندہ پانی آرہا ہے توفوراً اس نمبر پرفون کریں اورساتھ ہی کوئی دوسرا گھر بھی تلاش کرلیں کیوں کہ ہمیں آپ کی شکایت کے ازالہ کے لیے کافی وقت درکار ہوگا۔ ہم نہیں چاہتے اس کی وجہ سے آپ کی زندگی خطرے میں پڑجائے……“
یہ محکمہ ”Self Service Department“بھی بن گیا ہے۔
”ایک صاحب کے گھرکے سامنے ایک گدھا مرا ہواپڑا تھا۔ انہوں نے میونسپل آفس کو فون کیا کہ اسے یہاں سے ہٹالیا جائے۔
جواب آیا۔”اسے وہیں دفن کردو۔“ وہ شخص کچھ دیرسوچتا رہا پھر کہنے لگا“ جناب میں دفن کردیتا، لیکن اخلاقاً خیال آیا کہ ان کے خاندان والوں کو اس کی اطلاع دے دوں۔“
زندگی میں قدم، قلم اورقسم بہت سوچ سمجھ کر اٹھانا چاہیے۔ بغیر سوچے سمجھے اٹھایاہواقدم گھڑی بھر میں آپ کو موسیٰ ندی کے راستے جنت یا دوزخ پہنچاسکتا ہے۔
یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ ان رکاوٹوں کی وجہ سے لوگوں کی صلاحتیں وقیمتی وقت برباد ہورہا ہے۔
ایک شخص ڈاکٹر کے پاس گیا اورکہنے لگا، میراوزن بڑھ گیا ہے۔”ڈاکٹر نے اسے روز 10 کلومیٹر پیدل چلنے کا مشورہ دیا۔
ایک ہفتہ کے بعدوہی شخص ڈاکٹر کو فون کیا۔ ”ڈاکٹر صاحب!میں نے آپ کے حسب ِ مشورہ اسی دن سے پیدل چلنے کی شروعات کی ہے اوراب وزن بھی کم ہوگیا ہے، لیکن شہر کی غیر مسطح کھودی ہوئی سٹرکیں، ابلتے مین ہول گہری نالیوں کی وجہ سے ہفتہ بھر میں صرف20کلومیٹرچل کر شمس آباد پہنچا ہوں۔ کیا میں ادھر سے بنگلورنکل جاؤں؟
ان رکاوٹوں سے انسانی صحت پربھی برا اثر پڑتا ہے۔ ہمارے ایک دوست جوچند دن قبل انتہائی ہشاش بشاش چاق وچوبند نظرآرہے تھے اب سینہ آگے نکالے کولہے کو پیچھے کھسکائے ہوئے دونوں پیرگھڑی کے دوکانٹوں کی طرح ایک دوسرے سے پرے، عجیب سی چال چل رہے تھے۔ کہنے لگے اس کی ذمہ دار بلدیہ ہے، صرف محکمہ بلدیہ بارش کے بعد رات کے وقت کنوں سے پیچھا چھڑانے جو بے تحاشہ بھاگا گڑھے کی گہرائی کا اندازہ نہ لگاسکا اور اپنا توازن کھوبیٹھا اور بازو گٹر میں گرگیا۔“
کبھی سوچتا ہوں میں یہاں مقیم کیوں ہوں؟ گیدڑ کی موت آتی ہے تو شہر کی طرف بھاگتا ہے۔ اس مثل میں شہر کے نام کی وضاحت نہیں ہے لیکن ضرور وہ اپنا شہر ہی ہوگا۔“
وہ گیدڑوں کے تعلق سے ہے؟ ہم نے چٹکی لی۔
ہماری زندگی کیا جانوروں سے بہتر ہے؟
ہم نے ٹوکا۔ اس کے ذمہ دار آپ خود ہیں۔ اس شہر میں طوفانی بارش کے بعد رات کے وقت گھر سے باہر نکلنا موت کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔
وہ آدم خور خوفناک و غضبناک کتے رات تمام گھر کے سامنے بھونکتے ہیں، نیند کے دشمن۔ اور دن میں یہ خونخوار جان لیوا گڑھے۔ جائیں تو کہاں جائیں۔ کتوں کو پکڑنے کی بجائے بغیر ہیلمٹ راہگیروں کو پکڑا جارہا ہے۔
ہم نے کہا کہ وہ تو جانور ہیں۔ تعلیم یافتہ سمجھدار انسان بھی دوسرے انسان کو کاٹ کھانے دوڑرہا ہے۔ ایک چھڑی ہاتھ میں رکھیے۔ کتوں اور گڑھوں کو دیکھتے ہوئے راستہ چلیے۔
ان سٹرکوں کے نشیب وفراز اُچھل کود نے ہمارے کئی دوستوں کی ریڑھ کی ہڈیوں کے جوڑجوڑکوتوڑمروڑ کے رکھ دیا ہے۔ جب بھی گاڑی کبھی گڑھے میں اچھلتی ہے تو وہ بلدیہ والوں کو منہ بھرکے کوستے ہیں۔
کم سے کم ان گڑھوں اور اُبلتے مین ہول کے سامنے ایک عدد کو Warning Boardلگانا چاہیے جس میں گڑھے کا حجم، گہرائی، پانی کا داخلی بہاؤ اوراخراج کی تفصیلات درج ہوں تاکہ اس کے مطابق اسے عبور کرنے کی منصوبہ بندی کرسکیں۔ ورنہ اتنی بڑی آبادی میں دوچار جانیں تلف بھی ہوئیں توکیا؟ اپنے ملک میں انسانی جانوں کے علاوہ کون سی چیزارزاں ہے۔
بہرحال مظلوم وستم رسیدہ شہریوں کے عزم و استقلال ومستقل مزاجی کی تعریف کرنی چاہیے جواتنی رکاوٹوں وتکلیفوں کابے جگری سے مقابلہ کرتے ہوئے شہر سے اپنی وفاداری و خیرخواہی نبھارہے ہیں۔
علامہ اقبال ؔ ؒ کے شکوہ کا جواب توملا۔ لیکن ہمارا شکوہ صرف شکوہ ہی رہ گیا۔
گٹر توگٹر ہیں نالے بھی نہ چھوڑے ہم نے
بحر ظلمات میں دوڑادیے گھوڑے ہم نے