
مولانا سید احمد ومیض ندوی
اس کائنات و آب گل میں الله تعالی نے حضرت انسان کو اشرف المخلوقات بناکر پیدا کیا ہے پھر اس پر ان گنت نعمتوں کی بارش برسائی ہے ، انسانوں کو عطا ہونے والی خدائی نعمتیں حد شمار سے باہر ہیں۔ بعض نعمتیں اس قدر اہم ہیں کہ ان کے بغیر انسانی زندگی کی بقا مشکل ہے؛لیکن اس دنیا میں کسی انسان کو ملنے والی سب سے بڑی نعمت ایمان ہے۔ اگر کسی بندے سے ساری مادی نعمتیں چھن جائیں اور صرف ایمان باقی رہے تو ایسا انسان بہت کچھ کھونے کے باوجود کامیاب و بامراد ہے۔ اس کے برخلاف کسی کے پاس مال و دولت شہرت و عزت حکومت و اقتدار ،آل و اولاد اور خوش حالی و فارغ البالی سب کچھ ہو لیکن وہ ایمان سے محروم ہو تو وہ سب کچھ ہونے کے باوجود خالی ہاتھ بے مراد اور محروم القسمت ہے ۔ دنیا کی کوئی نعمت ایمان کا مقابلہ نہیں کرسکتی ، ایمان کے بغیر آدمی ہمیشہ کے لیے جنت سے محروم اور جہنم کا حق دار بن جاتا ہے ، ایمان ہی جنت کا زینہ ہے ،ایمان کے بغیر انسان کا بڑا سا بڑا نیک عمل خدا تعالی کے یہاں کوئی وقعت نہیں رکھتا ۔ قبولیت اعمال کی بنیاد ایمان ہے ۔
ایمان کی اہمیت کا اندازہ لگأنے کے لیے بس اتنا جان لینا کافی ہے کہ دنیا میں کم و بیش ایک لاکھ انبیاء کرام کی آمد ایمان کی دعوت کے لیے ہوئی، ہر نبی نے اپنی قوم کو ایمان کی دعوت دی ۔ ایمان کی خاطر انبیاء کرام کو قسم کی قسم کی اذیتوں کو برداشت کرنا پڑا۔ ایمان کی دعوت کے راستے میں حضرات انبیاء کرام پر مظالم اور ستم سہتے رہے بلکہ کچھ پیغمبروں کو شہید بھی کیا گیا۔ ایمان کی دعوت سارے ابنیاء کرام کی مشترکہ دعوت ہے۔ ہر نبی اپنی قوم سے کہتا یا قوم اعبدوالله مالکم من الہ غیرہ۔ ائے میری قوم الله کی عبادت کرو اس کے علاوہ کوئی تمہارا معبود نہیں۔ ساری آسمانی کتابوں میں توحید و ایمان کو اساس کی حیثیت حاصل تھی۔ ایمان جیسی دولت سے محروم ہونا انسان کی سب سے بڑی محرومی ہے۔
ارتداد کی سنگینی :ایمان سے محرومی کی دو شکلیں ہیں ۔ ایک یہ کہ آدمی روز اول سے ایمان سے محروم ہو بایں طور کہ وہ مشرک خاندان میں پیدا اور مشرکانہ رسوم و رواج میں اس کی نشو ونما ہوئی ہو۔جیسے ہندو مت ‘بدھ مت‘ عیسائیت‘ یہودیت‘ جین مت‘ مجوسی اور دیگر مذاہب کے پیروکار ہیں۔ دوسرے یہ کہ کوئی اہلِ حق مسلم گھرانے میں پیدا ہو لیکن وہ اسلام سے پھر کر کوئی دوسرا مذہب اختیار کرے اسے ارتداد کہتے ہیں۔ ارتداد کے لفظی معنی پھر جانے اور لوٹ جانے کے ہیں ۔ شریعت کی اصطلاح میں ایمان و اسلام سے پھرجانے کو ارتداد کہتے ہیں۔ پھر ارتداد کی بھی دو شکلیں ہیں ایک یہ کہ مسلمان اسلام چھوڑ کر ہندومت یا عیسائی مذہب یا دیگر باطل مذاہب اختیار کرے۔ دوسرے یہ کہ واضح طور پر توحید و رسالت اور اسلامی عقائد کا انکار تو نہ کرے البتہ ایسے اعمال یا نظریات اپنائے جو توحید و رسالت اور قرآن کے انکار کے برابر ہوں۔ یہ ذہنی ارتداد کہلاتا ہے جو ہوتا تو ارتداد ہی لیکن اس میں مبتلا شخص خود کو مسلمان ہی سمجھتا ہے ۔
ارتداد بدترین جرم ہے:بعض اعتبار سے یہ اصل کفر سے بھی بڑھا ہوا ہے۔ خاندانی کافر اس لیے کافر ہے کہ وہ اسلام اور ایمان کی حقیقت سے نا آشنا ہے، لاعلمی کے سبب کفر میں جی رہا ہے لیکن ایک خاندانی مسلمان مرتد ہوتا ہے تو یہ سب کچھ جان کر خدا سے بغاوت کرتا ہے، مرتد کے تعلق سے ارشاد ربانی ہے تم میں سے جو شخص اپنے دین سے پھر جائے پھر کفر کی حالت میں مرجائے تو ایسے لوگوں کے سب نیک اعمال دنیا و آخرت میں برباد ہوجاتے ہیں اور ایسے لوگ دوزخی ہیں ‘ دوزخ میں ہمیشہ رہیں گے۔ (البقرہ:217)
کفر و ایمان میں اصل اعتبار خاتمے کا ہے۔ زندگی بھر ایک بندہ صاحب ایمان رہا عین موت سے قبل کلمہ کفر کہہ دیا یا توحید و ایمان کا انکار کردیا اور اسی حال میں اس کی روح پرواز ہوگئی تو یہ ہمیشہ کا دوزخی ہوگا اس کے برخلاف ایک شخص نے پوری زندگی کفر میں گزاری لیکن موت سے قبل اسے ایمان کی توفیق مل گئی اور حالت ایمان میں دنیا سے چلا گیا تو وہ ہمیشہ کے لیے نارجہنم سے محفوظ ہوگا۔ چوں کہ خاتمہ اصل ہے اس لیے الله کے نیک بندے ہمیشہ کفر وارتداد سے ڈرتے تھے ۔ حضرت حسن بصریؒ فرماتے تھے کہ گزشتہ زمانے میں کبھی کوئی ایمان والا ایسا گزرا ہے اور نہ آج موجود ہے جو اپنے بارے میں نفاق سے نہ ڈرتا ہو ‘جو آدمی نفاق سے نہ ڈرے وہ ایمان والا نہیں ہوسکتا۔ (فتح الباری)حتی کہ حضرات انبیاء بھی اپنی اولاد کے تعلق سے بے فکر اور مطمئن نہیں رہتے تھے ۔ قرآن مجید میں حضرت یعقوب علیہ السلام کی اپنی اولاد کو کی گئی وصیت محفوظ ہے جس میں انہوں نے انتقال سے قبل اپنی اولاد سے پوچھا کہ میرے بیٹو ! تم میرے بعد کس خدا کی عبادت کرو گے ؟ حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے حق میں دعا کرتے ہوئے فرمایا توفنی مسلما والحقنی بالصالحین (یوسف :101)مجھے اسلام کی حالت میں موت دینا اور مجھے نیک لوگوں کے ساتھ شامل کرنا خود امام الانبیاء کثرت سے دعا فرماتے تھے یا مقلب القلوب ثبت قلبی علی دینک (ترمذی کتاب الدعوات)اے دلوں کے پھیرنے والے میرے دل کو اپنے دین پر مضبوطی کے ساتھ جمادے نیز آپ کی ایک دعا یوں آئی ہے اے الله!مجھے ایسا ایمان و یقین عطا فرما جس کے بعد کفر نہ ہو (ترمذی کتاب الدعوات)حضراتِ انبیاء کرام کا اس قسم کی دعائیں مانگنا در اصل امت کو تعلیم دینے کے لیے تھا ،حضرات صحابہ کرام بھی اپنے ایمان کے لیے فکر مند رہتے تھے ۔ امام بخاری ؒ نے ایک ترجمۃ الباب قائم کیا ہے جس میں انہوں نے ابن ابو ملیکہ کا قول نقل کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ میں تیس صحابہ سے ملاقات کرچکا ہوں جو سب کے سب اپنے بارے میں نفاق سے ڈرتے تھے ۔ حضرت ابو درداءؓ کسی مرنے والے کو دیکھتے تھے کہ وہ اچھی حالت میں مرا ہے تو فرماتے تھے ایسی موت تمہیں مبارک ہو کاش میں تمہاری جگہ ہوتا‘ ان کی بیوی کے دریافت کرنے پر انہوں نے فرمایا :اے بے وقوف بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ صبح کے وقت آدمی مسلمان ہوتا ہے اور شام تک منافق ہوجاتا ہے ام درداءؓ نے پوچھا کہ ایسا کیسے ہوتا ہے؟ ابو درداء ؓ نے جواب دیا کہ آدمی کا ایمان سلب ہوجاتا ہے اور اس کو پتہ بھی نہیں ہوتا ۔(صفۃ النفاق للفریابی)یہی حال تابعین کا تھا ۔سفیان ثوری ؒ انتقال کے وقت رونے لگے دریافت کرنے پر فرمایا میں اس بات سے ڈر رہا ہوں کہ کہیں مرنے سے پہلے میرا ایمان سلب نہ کرلیا جائے ۔ (الزواجر)
کفر کی طاقتوں کا بنیادی مقصد:قرآن و سنت میں یہ بات واضح طور پر بتائی گئی ہے کہ ہر زمانے میں کفر کی طاقتوں کا بنیادی مقصد مسلمانوں کو مرتد بنانا رہا ہے ۔ ارشاد ربانی ہے :اور یہ کافر تم سے ہمیشہ لڑتے رہیں گے یہاں تک کہ اگر ان کا بس چلے تو تم کو تمہارے دین سے پھیر دیں گے۔ (البقرۃ:217)ایک اور جگہ ارشاد ربانی ہے ودو لو تکفرون کما کفروا فتکونون سوآء (النساء:89)ان کی خواہش ہے کہ تم بھی کافر بن جاؤ جیسا کہ یہ کافر ہیں۔اہلِ کتاب یہود و نصاری بھی مسلمانوں کو مرتد بنانےکی دلی تمنا رکھتے ہیں ۔قرآن مجید میں ارشاد ہے :اہلِ کتاب میں اکثر و بیشتر لوگ اس بات کی خواہش رکھتے ہیں کہ تم کو تمہارے ایمان لانے کے بعد کفر کی طرف لوٹادیں ‘ حسد کی وجہ سے جو ان کے دلوں میں ہیں۔ (البقرہ109)اس وقت یہود و ہنود اور عیسائیوں کے مثلث کا مشترکہ مقصد مسلمانوں کو ان کے دین سے پھیرنا ہے ، ملک میں بھگوا لو ٹریپ کی جو لہر چل رہی ہے اس کا نشانہ صرف اور صرف مسلمان لڑکیاں ہیں جنہیں ایمان سے پھیرنے اور مرتد بنانے کے لیے فرقہ پرست جماعتیں ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے ۔مخلوط نظام تعلیم میں بین مذاہب شادیوں کے اکا دکا واقعات عام بات ہے مگر حالیہ عرصے میں تواتر کے ساتھ مسلم لڑکیوں کے مرتد ہونے کےجو واقعات پیش آرہے ہیں ان میں بھگوا لو ٹریپ کی مہم کا بڑا دخل ہے جو ملک بھر میں انتہائی منصوبہ بند طریقے سے چلائی جارہی ہے اور جس کے اثرات مسلم لڑکیوں کے ارتداد کی شکل میں ظاہر ہورہے ہیں ۔
سینکڑوں دلخراش واقعات ہیں جو آئے دن اخبارات اور سوشل میڈیا کی زینت بن رہے ہیں حالیہ عرصے میں مظفر پور ضلع بہار کے شکرہ علاقے کی ایک مسلم لڑکی سے اس کے مبینہ عاشق گووند سونی نے جھوٹی شادی کی اس کے ساتھ تین ماہ تک جنسی تعلق قائم رکھا آخر فیملی کا حوالہ دے کر اس مسلم لڑکی کو چھوڑ دیا ،لڑکی نے بتایا کہ وہ اور ملزم ایک پرائیویٹ کمپنی میں کام کرتے تھے ،ملزم نے محبت کا جھانسہ دے کر اس سے شادی کی آخر جنسی استحصال کرکے چھوڑ دیا ۔ حیدرآباد کی ایک لڑکی کے پہلے شوہر نے بچے پیدا کرکے دربدر ٹھوکر کھانے کے لیے چھوڑ دیا تھا اسی اثناء میں اس کے ایک نوجوان سے ناجائز تعلقات قائم ہوگئے وہ شادی کے لیے تیار ہوا مگر شرط یہ رکھی کہ شادی مندر میں ہوگی۔مسلم لڑکی نے شرط منظور کرلی اور اسلام کو خیر باد کرکے ہندو مذہب اختیار کرلیا اور اپنا نام مریادا اگروال رکھ لیا ۔ لکھنؤ کی ساکن ایک مسلم لڑکی نے سریش یادو نامی غیر مسلم سے شادی رچائی مذہب تبدیل کرکے اپنا نام سونی رکھا چند دن نوجوان اس کے ساتھ رہا وہ ایک بچے کی ماں بن گئی آخر کار اس نے اس مسلمان لڑکی سے جان چھڑالی ۔مدھیہ پردیش کی رضوانہ نامی لڑکی کو پیار و محبت کے دام تزویر میں پھانس کر سدھارتھ نے شادی کی ‘شادی کے بعد رضوانہ پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جانے لگے ایک دن سدھارتھ نے آگ بگولہ ہوکر رضوانہ کو گلا دبوچ کر مار ڈالا ۔ یہ چند نمونے ہیں انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق پچھلے تین سال میں چالیس ہزار سے زائد مسلم بچیوں نے غیروں سے شادیاں رچائی ہیں (روزنامہ ہندوستان 25؍مئی 2023ء)
ارتداد کے اسباب :بھگوا لو ٹریپ کی کامیابی اور مسلم لڑکیوں کے ارتداد کے بڑھتے واقعات کے پسِ پردہ کارفرما من جملہ اسباب کے ایک سبب بھگوا تنظیموں کی منصوبہ بندی اور ان کی منظم کاوشیں ہیں ، ان تنظیموں کے پاس فنڈنگ کی کمی نہیں ہے لاکھوں روپیوں کا لالچ دے کر غیر مسلم نوجوانوں کو بھاری تعداد میں اس مقصد کے لیے استعمال کیا جارہا ہے ‘ مرکز میں چوں کہ سنگھ پریوار برسراقتدار ہے اس لیے انہیں حکومتی محکموں کی جانب سے گرفت کا خدشہ بھی نہیں ہوتا ۔صورتحال یہ ہے کہ متعدد صوبوں میں لو جہاد مخالف قانون کے نفاذ میں واضح جانب داری برتی جارہی ہے اگر غیر مسلم لڑکی عشق کے چکر میں مسلمان لڑکے سے شادی کرتی ہے تو قانون فوری حرکت میں آتا ہے فرقہ پرست جماعتیں میدان میں کود جاتی ہیں اور پولیس کارروائی میں غیر معمولی مستعدی دکھاتی ہے پکڑ دھکڑ شروع کرتی ہے ،گودی میڈیا آسمان سر پر اٹھا لیتا ہے‘ ٹی وی چینلوں پر زور و شور کے ساتھ ڈیبیٹ شروع ہوجاتے ہیں لیکن مسلم لڑکی غیر مسلم سے عشق کے چکر میں جب شادی رچاتی ہے تو ہر طرف سناٹا چھا جاتا ہے کوئی مقامی میڈیا بھی اف تک نہیں کہتا۔ اس صورتحال کا انکار نہیں کیا جاسکتا لیکن یہ صرف سکے کا ایک رخ ہے سکے کا دوسرا رخ یہ ہے کہ بھگوا لو ٹریپ کی کامیابی میں کلیدی کردار خود مسلم خاندان اور مسلم لڑکیوں کی موجودہ صورتحال ادا کررہی ہے ‘ ارتداد کے بڑھتے واقعات کی ذمہ داری بھگوا تنظیموں سے زیادہ خود مسلمانوں پر عائد ہوتی ہے۔
ارتداد کے بڑھتے سیلاب کے چند اسباب درج ذیل ہیں:
۱۔خواتین کی بڑھتی ہوئی آزادی :اسلام عورتوں کے تحفظ کے لیے انہیں آزادانہ بے لگام اختلاط سے منع کرتا ہے ، خواتین کا تحفظ اسی میں ہے کہ ان کی بے لگام آزادی پر قدغن لگایا جائے جن ملکوں میں مغرب کے نقش قدم پر خواتین کو آزاد چھوڑ دیا گیا وہاں خاندانی زندگی نا پید ہوتی جارہی ہے ‘ کنواری ماؤں کی تعداد میں ہوش ربا اضافہ دیکھا جارہا ہے اور ناجائز بچوں کی کثرت ایک چیلنج بن کر ابھر رہی ہے ‘ آزادی نسواں کے پُر فریب چکر سے گرل فرینڈ اور بوائے فرینڈ کلچر کو بڑھاوا مل رہا ہے ‘ مسلم لڑکیوں کے موجودہ ارتداد کا اہم سبب یہ بے لگام آزادی ہے ‘تعلیم نسواں اور آزادی نسواں کے نام پر دشمنوں نے بڑی چالاکی سے مسلم خواتین اور لڑکیوں کو گھروں سے باہر نکالا ۔ اس وقت ذرائع ابلاغ کے سہارے مخلوط محفلوں کی خبریں اور کہانیاں الکٹرانک میڈیا پر پیش کیے جانے والے پروگراموں میں جنسی آزادی و حیا باختگی جلتی پر تیل کا کام کررہی ہے ۔
۲۔ مخلوط نظام تعلیم: دورِ حاضر کا مخلوط نظام تعلیم ارتداد کا بنیادی سبب ہے ‘ اس وقت عصری اسکولوں اور کالجوں میں جو مخلوط نظام تعلیم رائج ہے وہ دین و ایمان کے لیے سم قاتل ہے ‘ شرم و حیاء اسلام کی بنیادی تعلیم ہے ۔ اسلام قریب البلوغ لڑکے اور لڑکیوں کے اختلاط کی قطعی اجازت نہیں دیتا ، اسلام میں نہ مشترک کلچر کی گنجائش ہے اور نہ ہی مخلوط تعلیم کی ‘ اسلام تعلیم ِ نسواں کا منکر نہیں ہے لیکن اس کے لیے عفت و پاک دامنی اور شرم و حیاء کے تحفظ کی ضامن پابندیاں عائد کرتا ہے ‘ اکثر وہ مسلم بچیاں بھگوا لو ٹریپ کا شکار ہورہی ہیں جو مخلوط نظام تعلیم سے وابستہ ہیں ‘ مخلوط ماحول سے فائدہ اٹھاکر کالج کے غیر مسلم ساتھی انہیں جھوٹی محبت کے جال میں پھانس رہے ہیں ‘ کالجوں میں کینٹین کلچر ہوٹل بازی تفریح کے نام پر ون ڈے پکنک ،شاپنگ صنف مخالف کو پھانسنے کے لیے مہنگے تحفے اچھے قیمتی اسمارٹ فون ‘آئی پیڈ ‘لیپ ٹاپ ‘ پہلے گھمانا پھرانا فاسٹ فوڈ کھلانا ‘ بائک پر سیر اور گھر کے قریب سے پک اپ اور گھر سے تھوڑی دور ڈراپ کردینا ‘شیک ہینڈ پھر بوس و کنار اور بغل گیر ہونا ‘اسکوٹر دلاکر معشوقہ کا ای ایم آئی بھر نا فون نمبر حاصل کرکے مسلم لڑکیوں کو جھوٹے عشق میں پھانسنے کا ریکیٹ ‘مسلم لڑکیوں کا اعلی تعلیم کے لیے تنہا بستیوں میں کمرے لے کر رہنا یا پھر پرائیویٹ ہاسپٹل میں رہائش اختیار کرنا نوکری کے لیے بھاگ دوڑ اور مردوں کے شانہ بشانہ مسابقت ‘اسمارٹ فون منہ پھٹ مذاق‘ نڈر اور بے باکی کا مظاہرہ کرنا یہ اور اس جیسے بہت سے ایسے طریقے ہیں جو مخلوط نظام تعلیم کی کوکھ سے جنم لے رہے ہیں اور مسلم لڑکیوں کو بھگوا لو ٹریپ کا شکار بنارہے ہیں ۔
مخلوط ملازمتیں: مخلوط ملازمتوں کا سلسلہ نہ صرف بین مذہبی شادیوں کو خوب رواج دے رہا ہے بلکہ مسلمان لڑکیوں کو کفر و اتداد کے دہانے پر بھی پہونچارہا ہے۔ اعلی تعلیم اور پروفیشنل کورسس کرنے والی بچیوں کا اصرار ہوتا ہے کہ وہ اپنی تعلیم سے کمائیں۔ اسلام میں معاشی ذمہ داری شوہر اور مردوں پر ڈالی گئی ہے۔ اور عورت کا دائرہ کار گھر کی حد تک رکھا گیا ہے تاکہ صنفِ نازک مخلوط ملازمتوں کی کوکھ سے جنم لینے والے مفاسد سے محفوظ رہے۔ افسوس اس بات پر ہے کہ مسلمانوں میں بہت سے رائل فیملی سے تعلق رکھنے والے والدین بھی اپنی جوان بچیوں کو کال سنٹر اور بیرونی کمپنیوں کی نائٹ شفٹ والی مخلوط ملازمتیں کروارہے ہیں۔ بعض لڑکیاں گھریلو مشکلات کے باعث ملازمتوں کے لیے مجبور ہوتی ہیں۔ معاشی مسائل سے دو چار والدین کے روز روز کے آپس کے جھگڑے‘ قرض کی ادائیگی بھائیوں کی بے روزگاری اور آوارگی ‘ غیر ذمہ دارانہ رویہ نشہ کی لت والد کا مہنگائی کے بوجھ تلے دبے رہنا گھر میں بیماریوں کا ڈیرا ایک آدھ بہن کا سسرال سے جھگڑ کر گھر آکے بیٹھ جانا یہ وہ اسباب ہیں جن کے لیے تعلیم یافتہ غیر شادی شدہ مسلم لڑکیوں کے لیے مخلوط ملازمت ناگزیر ہوجاتی ہے۔ مخلوط ملازمت میں غیروں کے ساتھ اختلاط یقینی ہے گھنٹوں ان کے ساتھ رہنا پڑتا ہے بہت سے موقعوں پر باس کے ساتھ تنہائی کی نوبت آتی ہے پہلے خواتین کو نائٹ ڈیوٹی سے مستثنی رکھانا جاتا تھا اب اسے ختم کردیا گیا رات دیر تک کال سنٹروں میں لڑکے لڑکیوں کی مشترکہ ڈیوٹی ہوتی ہے۔ (سلسلہ صفحہ ۷)
کال سنٹروں میں ملازم مسلم لڑکیاں کسی بھی وقت بھگوا لو ٹریپ کی شکار بن سکتی ہیں۔ امت مسلمہ کے افراد کو چاہیے کہ وہ اپنی دختروں پر ملازمت کا بوجھ نہ ڈالیں اس کے لیے بہتر ہے کہ اپنے اخراجات میں کمی لائیں ‘ قناعت کی زندگی کو ترجیح دیں ۔
بے پردگی: پردہ اور حجاب خدا و رسول کا حکم ہے‘بڑی تاکید کے ساتھ اس کی تلقین کی گئی ہے یہ نسوانیت کا محافظ اور شرم و حیا کا ضامن ہے۔ بالعموم کسی بھی معاشرہ میں خرابیوں کا آغاز بے پردگی سے ہوتا ہے ۔ مسلمان بچیاں ابتداء ہی سے پردہ کو لازم کرلیں تو کسی قسم کے مفاسد نہیں پیدا ہوتے ۔ بے پردگی ہی سے بے حیائی عام ہوتی ہے۔ باپردہ لڑکیوں کی جانب کوئی آنکھ اٹھاکر بھی نہیں دیکھتا۔ غیروں سے اختلاط کی نوبت تب ہی آتی ہے جب چہرہ سے حجاب ہٹ جاتا ہے۔ فحاشی اور عریانیت کا بازار بے پردگی سے گرم ہوتا ہے۔ بہت سی مسلم بچیاں کالجوں کو جاتی ہیں اوپر برقع اور اندر جینز ہوتا ہے۔
سوشل میڈیا اور موبائل کا بے جا استعمال:ارتداد اور غیر مسلموں سے شادی کی اس وبا میں سب سے مؤثر کردار موبائل کا بے ٹوک استعمال اور سوشل میڈیا سے غیر معمولی انہماک ادا کررہا ہے۔ عام طور پر مسلمان لڑکیوں سے رابطہ موبائل نمبر اور سوشل میڈیا کے توسط سے ہورہا ہے۔ انٹرنیٹ کا استعمال اس قدر عام ہے کہ 2018ء کی سروے رپورٹ کے مطابق 20فیصد نابالغ انٹرنیٹ کے عادی ہیں یوٹیوب فیس بک ٹک ٹاک اوریوٹیوب کے ویڈیوز گندے کارٹون فحش فلمیں بے شرمی کے مکالمے سب کچھ عام ہوچکا ہے۔ سوشل میڈیا کا رواج ہر چھوٹے بڑے میں پھیل چکا ہےجبکہ ماہرین کے مطابق نو عمروں کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال نقصان سے خالی نہیں‘ حالیہ عرصہ میں اخبارات میں امریکہ کی بعض ریاستوں کے تعلق سے یہ خبر آئی تھی کہ وہاں 13 سال سے کم عمر بچوں پر سوشل میڈیا کے استعمال پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔ جس کے تحت 18 سال سے کم عمر بچوں کو سوشل میڈیا پر اکاؤنٹ بنانے کے لیے اپنے سرپرست سے اجازت درکار ہوگی۔ والدین کا اپنی بچیوں کے ہاتھ موبائل تھمانا اور اس پر کڑی نظر نہ رکھنا در اصل انہیں ارتداد کی آگ میں جھونکنا ہے۔
غربت و افلاس: ارتداد کا ایک سبب غربت اور معاشی لاچاری بھی ہے۔ غریب گھرانے کی بچیاں بھگوا لو ٹریپ کا زیادہ شکار ہورہی ہیں،سوشل میڈیا پر ایک سماجی کارکن نے ممبئی کی صورت حال کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ عموماً تین طرح کے لوگ ہیں جن کی لڑکیاں غیروں میں جارہی ہیں ایک جاہل غریب نشہ باز‘ فٹ پاتھ پر رہنے والے جن کو دین دھرم سے کوئی مطلب نہیں رہا پہلے بھی ان کی لڑکی لڑکوں کی شادیاں انہیں کی طرح لوگوں میں ہوتی رہی ہیں بلکہ بغیر شادی کے بھی لڑکا لڑکی ساتھ رہنے لگتے ہیں۔ دوسرے وہ خاندان ہیں جب ان کو پتہ چلتا ہے تو وہ پریشان ہوتے ہیں لڑکی کو سمجھانے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں مگر لڑکیاں باغی ہوجاتی ہیں مجبوراً ماں باپ لڑکی کو اس کے حال پر چھوڑ کر قطع تعلق کرلیتے ہیں تیسرے وہ خاندان ہیں جو مارڈن یا لبرل کہلاتے ہیں ان کی لڑکیاں تو بغیر شادی کے بھی برسوں تک غیروں کے ساتھ لیو ان ریلیشن شپ میں رہتی ہیں جب حمل وغیرہ ہوجاتا اور انہیں بچہ پیدا کرنا مقصود ہوتا ہے تب شادی کرلیتی ہیں ۔
جہیز اور گھوڑے جوڑے کی لعنت:ارتداد کے واقعات کا ایک اہم سبب مسلم معاشرے میں جڑ پکڑرہی جہیز کی رسم ہے جس کی وجہ سے غریب گھرانے کی بچیاں غیروں سے شادی رچا رہی ہیں بھگوا لو ٹریپ میں باقاعدہ غیر مسلم جوان اعلان کرتے ہیں کہ ہم بغیر جہیز اور مطالبہ کے شادی کے لیے تیارہیں۔ حال ہی میں ایک مسلمان لڑکی مرتد ہوئی تو کسی نے اس کے مرتد ہونے کی وجہ پوچھی تو اس نے کہا میرے ایک مسلمان سے رشتہ کے وقت مجھے دیکھنے آئی مسلمان عورتوں میں سے اکثر عورتیں بہت زیادہ جہیز کی مانگ کرتیں اور میرے رنگ پر طعنے مارتیں ایک عورت نے تو حدکردی تھی اس نے کہا کہ آپ ذرا چل کر دکھاؤ میں چائے لیکر آئی تو وہ کہنے لگی کہ تمہارے چلنے کے انداز سے معلوم ہوا کہ تمہارا کنوارا پن ختم ہوگیا۔ جہیز کے بھکاری ہمیشہ منھ کھولے بیٹھے رہتے ہیں۔ متوسط گھرانے کی ہزاروں بچیاں جہیز کے سبب نکاح کرنے سے قاصر ہیں۔
گھریلو دینی تربیت کا فقدان: یہ موجودہ ارتدادی لہر کا سب سے بنیادی سبب ہے کم عمری سے بچیوں کو خدا و رسول اور دین و ایمان کے تعلق سے تربیت نہ ہونے کی وجہ سے ہماری بچیاں مخلوط ماحول کے سیلاب میں بہتی جارہی ہیں والدین روزِ اول سے اپنی اولاد کی دینی تربیت کا بھر پور خیال رکھیں تو بچیاں بے دینی کے ماحول میں رہ کر بھی اپنے دین و ایمان کی حفاظت کرسکتی ہیں۔ والدین کے پاس اولاد کی تربیت کے لیے فرصت ہی نہیں باپ روزگار میں مصروف رہتے ہیں اور ماں کو ٹی وی اور موبائل سے فرصت نہیں ملتی ۔
مسلم لڑکیوں میں اسلام کے متعلق شکوک و شبہات کی آبیاری: یہ بھی ایک وجہ ہے مسلم بچیوں کے ارتداد کی ،کالجوں اور اسکولوں میں جو مسلمان بچیاں غیروںکے ساتھ تعلیم حاصل کررہی ہیں وہ انہیں بڑی چالاکی سے اسلام کے بارے میں غلط فہمیاں پیدا کرتے ہیں مثلاً تین طلاق‘ تعدد ازدواج وغیرو سے متعلق ان کا ذہن خراب کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تم ہندو مذہب قبول کرلو گی اور کسی ہندو نوجوان سے شادی کرلوگی تو تم پر طلاق کی تلوار نہیں لٹکے گی نہ ہی تمہیں اپنے شوہر کے تعلق سے دوسری شادی کا خدشہ لگارہے گا ۔ وہ مسلم بچیوں کو آزاد فضاؤں میں سانس لینے کا پُر فریب خواب دکھاتے ہیں اور اسلام کے نام پر خود ساختہ گھری ہوئی زندگی کا خوفناک تصور پیش کرکے اسلام سے متنفر کرنے کی کوشش کرتے ہیں اسی طرح دینی مزاج کے مسلم لڑکوں کے لباس اور حلیہ کو بد نما بد شکل شدت پسند اور دقیانوسی بناکر پیش کرتے ہیں تا کہ مسلم لڑکیاں مسلمان لڑکوں سے متنفر ہوجائیں اور غیر مسلم لڑکوں سے شادی پر راضی ہوجائیں۔
دین سے نا واقفیت اور اسلامی تعلیمات سے بے گانگی:یہ بنیادی سبب ہے، ارتداد کی راہ پر پڑنے والی اکثر مسلم لڑکیاں دین سے نا واقف ہوتی ہیں انہیں پتہ ہی نہیں ہوتا کہ دین اسلام ہی حق دین ہے اسی میں دنیا و آخرت کی کامیابی ہے نیز اسلام چھوڑنے پر آخرت میں کیا سزا ہے اس کا بھی پتہ نہیں ہوتا ۔ وہ اسلام کے نہایت اہم عقیدوں سے تک نا بلد ہوتی ہیں ان کا مذہب سے تعلق موروثی ہوتا ہے۔ نماز‘ روزہ‘ زکوۃ‘ حج وغیرہ ارکانِ اسلام کی تک انہیں جانکاری نہیں ہوتی۔
مسلم لڑکیوں کا اعلی تعلیم میں سبقت لے جانا: یہ بھی ایک وجہ ہے کہ بعض مسلم لڑکیاں تعلیم میں لڑکوں پر سبقت لے جاتی ہیں انہیں ان کی تعلیمی لیاقت کے حامل مسلم لڑکے دستیاب نہیں ہوتے چنانچہ وہ کم لیاقت والے مسلم لڑکوں کو ترجیح دینے کے بجائے مطلوبہ لیاقت والے غیر مسلم لڑکوں کو ترجیح دیتی ہیں ۔
اسلام دشمن فرقہ پرستوں کی جانب سے مسلم لڑکیوں کو آزاد فضاؤں میں سانس لینے کا خواب دکھاکر انہیں اسلام کے نام پر خود ساختہ محصور زندگی کو خوفناک بناکر پیش کیا جاتا ہے۔ نیز مسلم لڑکیوں کی نگاہوں میں دینی مزاج کے مسلم لڑکوں کے لباس وحلیہ کو بد نما بد شکل تنگ نظر شدت پسند اور دقیانوسی بناکر پیش کیا جاتا ہے ۔ تاکہ مسلم لڑکیاں دین پسند مسلم لڑکوں سے متنفر ہوجائیں۔
غیر مسلموں سے یارانہ اور تعلقات: آج کل ترقی کے نام پر فرینڈ شپ کلچر اور غیر مسلموں کے ساتھ دوستی کو ایک فیشن سمجھا جانے لگا ہے جبکہ اسلامی نقطہ نظر سے ایمان والوں کا یارانہ ایمان والوں سے ہونا چاہیے۔ غیر مسلموں سے گھریلو روابط کی ایک حد تک ہی گنجائش ہے بعض مسلمانوں کے غیر مسلموں سے روابط اس حد تک ہیں کہ اپنی بچیوں اور بیویوں کو تک ان سے حجاب نہیں کرواتے ۔ حتی کہ غیر مسلم نوجوانوں کی ان کے یہاں بلا روک ٹوک آمد و رفت کا سلسلہ رہتا ہے۔ بالآخر یہ یارانہ ارتداد کا سبب بن جاتا ہے۔
حرص و لالچ: بعض ناعاقبت اندیش مسلمان لڑکیاں مال و دولت کی حرص میں ایمان کا سودا کرلیتی ہیں بہت سی غربت کی ماری لڑکیاں مال و دولت اور خوشحال زندگی کا خواب دیکھ کر غیروں سے شادی رچاتی ہیں۔
فلمی اور سیاسی شخصیات کی بین مذہبی شادیاں: آج کل ہر لڑکی کے ہاتھ میں اینڈ رائیڈ موبائل ہوتا ہے جس میں ہر قسم کی خرافات کا مشاہدہ کیا جاتا ہے۔ ایسی فلمیں بھی دیکھی جاتی ہیں جن کے اسکرپٹ میں مسلم و غیر مسلم کے درمیان شادیاں ہوتی ہیں۔ بعض لڑکیاں ایسی شادیوں سے متأثر ہوکر ارتداد کی راہ اپناتی ہیں۔
ہندو اور انگریزی تقریبات کا اہتمام:اس وقت غیر اسلامی کلچر کا فروغ اور غیر مسلموںاور یہود و نصاری کے تہوار و تقریبات کا مسلم معاشرہ میں غیر معمولی عمل دخل دیکھا جارہا ہے۔ اسکولوں میں ایک طرف ہندوانہ تہواروں کا اہتمام ہے تو دوسری طرف مغربی تہذیب سے جڑے ہر عمل کو اہتمام سے رائج کیا جارہا ہے۔ ہمارے کم سن بچے برتھ ڈے اور ویلنٹائن ڈے سے بخوبی واقف ہوتے ہیں بہت سی ہندوانہ تقریبات میں حصہ لیتے ہیں جس سے غیر مسلم لڑکوں سے قربت پڑھتی ہے۔ جس سے فائدہ اٹھاکر انہیں عشق و محبت کی جال میں پھانسا جاتا ہے۔
یہ اور اس قسم کے متعدد اسباب ہیں جو بین مذہبی شادیوں اور بسا اوقات مسلم لڑکیوں کے ارتداد کا سبب بن رہے ہیں۔ ذیل میں علاج اور حل کی مختلف شکلیں درج کی جاتی ہیں:
1۔سب سے بنیادی کام گھریلو تربیت کا ہے۔ بچپن سے بچوں کی تربیت کا خصوصی اہتمام ضروری ہے۔ گھریلو تربیت کے لیے خود والدین کا دیندار ہونا ضروری ہے دینی تربیت در اصل اپنی اولاد کو آگ سے بچانے کا کام ہے۔ یہ والدین کی اہم ترین ذمہ داری ہے ۔گھریلو دینی تربیت میں ایمان و عقائد کی تعلیم کے ساتھ اسلامی سلوک و کردار‘ زندگی کی عادت ڈالنا شامل ہے۔ دینی تربیت ہماری نسل کو اس قدر مضبوط بنادیتی ہے کہ اس کے بعد مخلوط ماحول بھی اس پر اثر انداز نہیں ہوتا۔
2-دوسرا ضروری کام بچیوں کو عمر کے ابتدائی مرحلے ہی سے دین سے واقف کرانا ہے ۔دین سے ناواقفیت ارتداد کے بڑھتے واقعات کی اہم وجہ ہے ۔بچپن سے والدین اپنے بچوں کو ایمان کی اہمیت اور اس کے اخروی انعامات سے واقف کروانے کا اہتمام کریں ۔
3 تیسرا اہم اقدام بچیوں کو مخلوط کالجوں سے بچانے کا ہے ۔ارتداد کے بڑھتے واقعات کا اہم سبب کو ایجوکیشن ہے اکثر کالج کے مخلوط ماحول سے یہ فتنہ اٹھ رہاہے ۔اس کے لئے اہل ثروت مسلمان غیر مخلوط کالجوں کا قیام عمل میں لائیں تاکہ مسلمان بچیاں ارتداد سے محفوظ رہ سکیں ۔
4- والدین بچیوں کے آزادانہ موبائل استعمال پر روک لگائیں یہ اگر چہ مشکل ہے لیکن بچیوں کا ایمان عزیز ہے تو ہمیں یہ سخت قدم اٹھانا ہوگا ۔
5-شام کے اوقات میں غیر مسلم ٹیوشنس سنٹروں سے اپنی بچیوں کی حفاظت کی جائے ۔
6-مسلم معاشروں میں نکاح کو آسان بنانے کی مہم چلائی جائے ۔اس کے لئے جھیز گھوڑے جوڑے کا خاتمہ ضروری ہے نیز مسرفانہ شادیوں کا مکمل بایکاٹ کیا جائے ۔ دینداری کی بنیاد پر رشتوں کا انتخاب کیا جائے ۔
7-بلوغ کے بعد اولاد کے نکاح میں کسی طرح کی تاخیر نہ کی جائے ۔شادی میں تاخیر بھی ارتداد کی بڑی وجہ ہے ۔
8-بے پردگی اختلاط کی بڑی وجہ ہے یہیں سے برائ کے دروازے کھلتے ہیں بچیوں کو پردے اور اسلامی لباس کا پابند بنائیں ۔
9-ساری خرابیوں کی جڑ بے دینی اور دین بیزاری ہے اس کے لئے والدین علماء اور مشائخ اور دانشوروں کو چاہیے کہ وہ مسلم معاشروں میں دینی بیداری کے لئے مہم چلائیں ۔
10-مسلمان والدین اپنی بچیوں کو بقدر ضرورت عصری تعلیم دے کر انھیں دینی مدارس میں داخلہ دلوائیں ۔ تاکہ ہماری بچیاں دینی تعلیم سے آراستہ ہو جائیں اور کالجوں کے مخلوط ماحول سے بچ سکیں ۔
11-بچوں کے دلوں میں روزاول سے خوف خدا پیدا کیا جائے ۔تاکہ وہ خودکو ہر قسم کے گناہوں سے بچاسکیں ۔