رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام محبت کرنے والوں کے نام
’’ محبت‘‘اللہ کی نعمت عظمی ہے جسے مل جاتی ہے تو وہ سرفراز ہوجاتا ہے، قرآن مجید میںاللہ سبحانہ وتعالیٰ نے کا تذکرہ فرمایا ہے، تین الفاظ محبت کے لئے قرآن مجید میں بیان کئے گئے ہیں محبت، مودت، الفت ان تینون الفاظ کے لئے قرآنی دلائل موجود ہیں۔
محمدعبد الرحیم خرم عمری جامعی
مہتمم ومؤسس جامعہ اسلامیہ احسن الحدیث
عبا داللہ فاؤنڈیشن۔ فون نمبر:9642699901
’’ محبت‘‘اللہ کی نعمت عظمی ہے جسے مل جاتی ہے تو وہ سرفراز ہوجاتا ہے، قرآن مجید میںاللہ سبحانہ وتعالیٰ نے کا تذکرہ فرمایا ہے، تین الفاظ محبت کے لئے قرآن مجید میں بیان کئے گئے ہیں محبت، مودت، الفت ان تینون الفاظ کے لئے قرآنی دلائل موجود ہیں۔ محبت دل کے پاک جذبے اور اعتدال کی کیفیت کا نام ہے، بندے کو ہر چیز سے محبت ہوتی ہے والدین سے، اولاد سے، رشتے داروں سے دوست و احباب سے، اپنی بنائی ہوئی دنیوی زندگی کے عیش و آرام سے، دولت سے، اس ضمن میں اور بھی بہت سی چیزیں آجاتی ہیں لیکن اہل ایمان کی محبت اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ ہوتی ہے وہ اپنے اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سخت و شدید محبت کرتے ہیں ۔ محبت کی کچھ تفصیلات احادیث کی روشنی میں پیش کی جا رہی ہیں ۔
محبت کا اصول: ہر چیز میں اصول ہوتا ہے اسی طرح محبت کا بھی اصول مقرر کردیا گیا ہے جب تک مسلمان اس اصول پر قائم رہے گا وہ بغض و عداوت، کینہ کپٹ،جیسی تباہ کن بیماریوں سے بچا رہے گااگر وہ اس اصول سے ہٹ جائیگا تو اس کے دل میںخود غرضی و مفاد پرستی آجائیگی،مسلمان کا ہر معاملہ اللہ تعالیٰ کے لئے ہو یہ اصول ہے ورنہ اس کے فرائض، سنن نوافل، اور اہل و عیال سے محبت سوائے خود غرضی کے کچھ نہیں اس کے مہلک نتائج یہ نکلتے ہیں کہ آدمی سود خور،غاصب، خائن، رشوت خور،مطلب پرست بن جاتا ہے۔ اگر اس کا ہر معاملہ اللہ کے لئے ہو تو وہ ہر معاملے میں اللہ سے ڈرتا رہے گا اور اعتدال پر قائم رہے گا ۔ حدیث شریف میں ہے رسول اللہ صلی علیہ وسلم نے فرمایا :’’ تین خصلتیں ایسی ہیں کہ جس میں یہ پیدا ہوجائیں اس نے ایمان کی مٹھاس کو پالیا،پہلا یہ کہ اللہ اور اس کے رسول اس کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب ہوں، دوسرا یہ کہ وہ محض کسی انسان سے اللہ کی رضا کے لئے محبت رکھے، تیسرایہ کہ وہ کفر میں واپس لوٹنے کو ایسا برا جانے جیسا کہ آگ میں ڈالاے جانے کو برا جانتا ہے‘‘۔ (بخاری:16،21 )
اسی طرح ایک اور طویل حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: ’’سات قسم کے لوگ (مسلمان) ہوں گے جن کو اللہ تعالیٰ اپنے سائے میں جگہ دے گا، جس دن (روز قیامت) اس کے سائے کے سوا کوئی سایہ نہ ہوگا۔ (ان میں سے دو ایسے شخص ہوں گے) دو ایسے شخص (مسلمان) ہوں گے جو اللہ کے لئے باہم محبت رکھتے ہیں اور ان کے ملنے اور جدا ہونے کی بنیاد اللہ کے لئے محبت ہے‘‘ (بخاری:660 /1423)اسی طرح اور حدیث شریف میں اللہ تعالیٰ کی خاطر محبت رکھنے والے عرش کے سائے میں رہیں گے حدیث شریف میں ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :’’ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائے گا ’’ میرے جلال کی بنا پر ایک دوسرے سے محبت کرنے والے کہاں ہیں ؟ آج میں انہیں اپنے سائے میں رکھوں گا، آج کے دن جب میرے سائے کے سوااور کوئی سائی نہیں‘‘ (مسلم :6548 )
آدمی جس کے ساتھ محبت رکھتا ہے روز قیامت اسی کے ساتھ ہوگا اگر وہ صالحین سے محبت رکھتا ہو وہ صالحین کے ساتھ ہوگا اگر وہ دنیا پرست، ناچنے گانے والوں اور فحاش لوگوں سے محبت رکھتا ہوگا تو وہ انھیں کے ساتھ ہوگا یہ اصول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ انسان اس کے ساتھ ہے جس کے ساتھ وہ محبت رکھتا ہے‘‘۔ (بخاری: 6168 )
ایک حدیث شریف میں ہے حضرت ابو ہریرہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا :’’ ایک شخص اپنے بھائی سے ملنے کے لئے گیا جو دوسری بستی میں تھا، اللہ تعالیٰ نے اس کے راستے پر ایک فرشتے کو اس کی نگرانی کے لئے مقرر فرمادیا ۔ جب وہ شخص اس فرشتے کے سامنے آیا یو اس نے کہا : کہاں جانا چاہتے ہو ؟ اس نے کہا : میں اپنے بھائی کے پاس جانا چاہتا ہوں جو اس بستی میں ہے، اس نے پوچھا : کیا تمہارا اس پر کوئی احسان ہے جسے مکمل کرنا چاہتے ہو اس نے کہا : نہیں بس مجھے اس کے ساتھ صرف اللہ عزوجل کی خاطر محبت ہے ۔ اس نے کہا : تو میں اللہ ہی کی طرف سے تمہارے پاس بھیجا جانے ولا قاصد ہوں کہ اللہ کو بھی تمہارے ساتھ اسی طرح محبت ہے جس طرح اس کی خاطر تم نے اس( بھائی) سے محبت کی ہے‘‘( مسلم :6549 )
اللہ سے محبت:ہر مسلمان کی محبت اللہ تعالیٰ کے ساتھ شدید ہوتی ہے جہاں اللہ سے محبت میں کمی آجاتی ہے تو انسان کفر و شرک کا ارتکاب کر بیٹھتا ہے ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ اپنی محبت اللہ کے ساتھ خاص رکھے،اللہ تعالیٰ سے محبت رکھنے کے بہت سے فوائد حاحل ہوں جبرئیل اور ملائکہ کے علاوہ آسمانی مخلوقات و اہل زمین بھی اس سے محبت کرنے لگیں گے۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو جبرئیل علیہ السلام سے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ فلاں شخص سے محبت کرتا ہے تم بھی اس سے محبت رکھو چنانچہ جبرئیل علیہ السلام بھی اس سے محبت رکھنے لگتے ہیں، پھر جبرئیل علیہ السلام تمام اہل آسمان کو پکاردیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فلاں شخص سے محبت رکھتا ہے تم سب اس سے محبت رکھو، چنانچہ تمام آسمان والے اس سے محبت رکھنے لگتے ہیں، اس کے بعد روئے زمین والے بھی اس کو مقبول سمجھتے ہیں ‘‘( بخاری:3209 )
مسلمان جس سے محبت کرتا ہے روز قیامت وہ اسی کے ساتھ ہوگا اسی لئے مسلمان کو چاہئے کہ وہ اللہ کے ساتھ اللہ کے رسول کے ساتھ اہل ایمان ہی کے ساتھ اپنی محبت خالص رکھے حدیث شریف میں ہے ایک صابی( ذوالخصویرہ یا ابو موسیٰ) نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قیامت کے بارے میں پوچھا کہ قیامت کب قائم ہوگی ؟ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم قیامت کے لئے تیاری کیا کی ہے ؟ انہوں نے عرض کیا : کچھ بھی نہیں سوائے اس کے کہ میں اللہ اور اس کے رسول سے محبت رکھتا ہوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر تمہارا حشر بھی انہیں کے ساتھ ہوگا جن سے تمہیں محبت ہے ‘‘ انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہمیں کبھی اتنی خوشی کسی بات سے بھی نہیں ہوئی جتنی آپ کی یہ حدیث سن کر ہوئی کہ :’’ تمہارا حشر انہیں کے ساتھ ہوگا جن سے تمہیں محبت ہے ‘‘ انس رضی اللہ عنہ نے کہا :’’ میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اور ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما سے محبت رکھتا ہوں اور اپنی اس محبت کی وجہ سے امید رکھتا ہوں کہ میرا حشر انھیں کے ساتھ ہوگا اگر چہ میں ان جیسے عمل نہ کرسکوں ‘‘( بخاری:3688 )
اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی محبت اس بندے کے ساتھ خاص ہوتی ہے جو شہرت کا طالب نہ ہو،اپنی بالادستی کے لئے امت کو فتنے سے دوچار کرنے والا نہ ہو، گمنام خدمت گزار ہو حدیث شریف میں آتا ہے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو جواب دیتے ہوئے فرمایا : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے:’’ اللہ تعالیٰ اپنے اس بندے سے محبت رکھتا ہے جو متقی ہو، غنی ہو، گم نام (گوشہ نشین) ہو‘‘ (مسلم :7432 )
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک کامل مؤمن نہیں ہوگا جب تک کہ اس کے والد اور اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ اس کے دل میں میری محبت نہ ہو‘‘ (بخاری:15 )
تمام صحابہ کرام کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بے پناہ محبت تھی اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام صحابہ سے بے پناہ محبت تھی اور جن سے اللہ اور اس کے رسول کو محبت کو انہی کو اللہ تعالیٰ مستحکم کرتا ہے اور انھیں قوم ملت کے حق میں باعث سعادت بناتا ہے اور انھیں قوت و طاقت و فتوحات سے ہمکنار کرتا ہے حیدث شریف میں ہے کہ خیبر کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام صحابہ میں یہ اعلان کردیا کہ :’’ میں اسلامی پرچم اس شخص کو دوں گا ۔یا فرمایاکہ۔ کل اسلامی پرچم اس شخص کے ہاتھ میں ہوگا جسے اللہ اور اس کے رسول اپنا محبوب رکھتے ہیں ۔ یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا :’’ جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت رکھتا ہے اور اس شخص کے ہاتھ پر فتح فرمائے گا ۔ پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ آگئے حالانکہ ان کے آنے کی ہمیںکوئی امید نہ تھی( کیونکہ وہ آشوب چشم میں مبتلاء تھے) لوگوں نے کہا کہ یہ علی رضی اللہ عنہ بھی آگئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جھنڈا انھیں کو دیا، اور اللہ نے ان کے ہاتھ پر فتح فرمائی‘‘ (بخاری:2975،3009/ مسلم :6222 )
بعض مؤمن ایسے ہوتے ہیں جوکچھ صغائر وکبائرگناہ میں ملوث ہوجاتے ہیں ان کے یہ گناہ انھیں اسلام سے خارج نہیں کرتے لیکن ان کے دل میں اللہ اور اس کے رسول کے متعلق سخت محبت ہوتی ہے لیکن شیطان وسوسوں کا شکار ہوکر گناہ کر بیٹھتے ہیں ایسا ہی ایک واقعہ حدیث میں مذکور ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک شخص تھا جس کا نام عبد اللہ تھا اور وہ حمار کے نام سے پکارے جاتے تھے، وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہنساتے تھے، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں شراب پینے پر سزاء دی تھی، تو انھیں ایک دن لایا گیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لئے حکم دیا اور انھیں سزاء دی، حاضرین میں سے کسی صاحب نے کہا :اللہ اس پر لعنت کرے ! کتنی مرتبہ کہا جاچکا ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس پر لعنت نہ کرو واللہ میں نے اس کے متعلق یہی جانا کہ یہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت رکھتا ہے ‘‘( 6780 )
ایک حدیث شریف میں ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :’’ میری امت میں میرے ساتھ سب سے زیادہ محبت کرنے والوں میں وہ لوگ ہیں جو میرے بعد ہوں گے، ان میں سے ہر ایک یہ چاہتا ہوگا کہ کاش ! اپنے اہل و عیال اور مال کی قربانی دے کر مجھے دیکھ لے ‘‘۔( مسلم :7145 )
اہل ایمان سے محبت: اہل ایمان سے محبت رکھنا ایمان کی نشانی ہے،خاندانی و علاقائی اعتبار سے اہل ایمان کے بہت سے طبقات ہیں کوئی مہاجر ہے کوئی انصارہے،کوئی خان ہے کوئی پٹھان،کوئی عربی ہے تو کوئی عجمی، لیکن ایمان کے اعتبار سے سب مسلمان ہیں اسی لئے ہر ایک کے ساتھ محبت و الفت ہونی چاہئے، کوئی مسلمان کسی مسلمان سے خاندانی و قبائل کی بنیاد پر نفرت و حقارت کو معاملہ نہ کرے، اہل ایمان میں سب سے زیادہ افضل صحابہ اکرام رضوان اللہ اجمعین کی جماعت ہے جن سے نفرت رکھنا نقص ایمانی کی دلیل ہے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کے بعد صحابہ اکرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی محبت ہمارے ایمان کا حصہ ہے، جیسا کہ حدیث شریف میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ انصار سے محبت رکھنا ایمان کی نشانی ہے اور انصار سے کینہ رکھنا نفاق کی نشانی ہے‘‘( بخاری:17 )
ایک اور حدیث شریف میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ انصار سے صرف مؤمن ہی محبت رکھے گا اور ان سے صرف منافق ہی بغض رکھے گا، پس جو شخص ان سے محبت کرے اس سے اللہ محبت کرے گا اور جو ان سے بغض رکھے گا اس سے اللہ تعالیٰ بھی بغض رکھے گا‘‘ (بخاری: 3783)
اسی طرح کی ایک حدیث ہے حضرت علی رضی اللہ عنہما کے متعلق بیان کی گئی ہے کہ حضرت علی سے بغض رکھنے والا منافق ہوگاحدیث شریف میںہے خود حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ:’’ اس ذات کی قسم جس نے دانے کو پھاڑا اور روح کا تخلیق کیا، نبی امّی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بتا دیا تھا کہ :’’ میرے ساتھ مؤمن کے سوا کوئی محبت نہٰں کرے گا اور منافق کے سوا کوئی بغض نہیں رکھے گا‘‘( مسلم :240 ) کسی بھی صحابی سے مسلمان کو اختلاف نہیں ہونا چاہئے اور نہ کوئی مسلمان صحابہ اکرام پر معترض ہو کیونکہ یہ نفاق ہے۔
اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اسامہ بن زید سے محبت کرنے کی امت کو تلقین فرمائی ہے ایک طویل حدیث شریف میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص مجھ سے محبت کرتا ہے وہ اسامہ سے بھی محبت کرے‘‘ (مسلم :7386 )
جن قبائل و خاندا ن و افراد سے و شخصیات سے اللہ اور اس کے رسول کو محبت ہو، ایمان کا تقاضا ہے کہ ان سے اہل ایمان کو بھی محبت ہو،اگر کوئی ان لوگوں سے بغض و عداوت رکھتا ہے تو یہ اس کے کمزور ایمان کی دلیل ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ تین باتوں کی وجہ سے جنہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے ۔ میں بنو تمیم سے ہمیشہ محبت کرتا ہوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں فرمایاکہ یہ لوگ دجال کے مقابلے میں میری امت میں سب سے زیادہ سخت مخالف ثابت ہوں گے ۔ انہوں نے بیان کیا کہ ایک مرتبہ بنو تمیم کے یہاں سے زکوۃ وصول ہوکر آئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یہ ہماری قوم کی زکوۃ ہے‘‘۔ بنو تمیم کی ایک عورت قید ہوکر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ: ’’اسے آزاد کردو کیونکہ یہ اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے ہے‘‘ (بخاری:2543 ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان کردہ فضائل کے سبب قبیلہ بنو تمیم سے ابو ہریرہ محبت رکھا کرتے تھے۔
دنیوی زندگی میں جب اہل ایمان آپس میں ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں توآخرت میں روحیں بھی ایک دوسرے سے محبت کریں گی جو دنیا میں دوریاں اختیار کئے ہوئے تھے تو روحیں بھی دوریاں اختیار کریں گی جیساکہ حدیث شریف میںہے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمارہے تھے:’’ روحوں کے جھنڈ کے جھنڈ الگ الگ تھے، پھر وہاں جن روحوں میںآپس میں پہچان تھی ان میں یہاں بھی محبت ہوتی ہے اور جو وہاں غیر تھیں یہاں بھی وہ خلاف رہتی ہیں‘‘( بخاری:3336 )
مسلمان کو چاہئے کہ اہل و علم وفضل سے محبت رکھے چاہے ان کو جانیں یا نہ جانیں، چاہے ان سے ملاقات ہو کہ نہ ہو یہ صحابہ کا طریقہ تھا حدیث شریف میں ایک واقعہ منقول ہے کہ:’’ عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کے یہاںعبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا ذکر ہواتو انہوں نے کہا:’’ میں ان سے ہمیشہ محبت رکھوںگاکیو نکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: ( ایک اور روایت میںہے کہ :’’ اس وقت سے ان کی محبت میرے دل میں بیٹھ گئی جب سے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ) کہ چار اشخاص سے قرآن سیکھو، عبد اللہ بن مسعود، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابتداء عبد اللہ بن مسعود سے کی، اور ابو حذیفہ کے مولی سالم، ابی ابن کعب، اور معاذ بن جبل سے‘‘ (رضی اللہ عنہم)( بخاری: 3758/3808 / مسلم :6334 )
اہل ایمان کو باہمی ایک دوسرے سے بہت سخت محبت رکھنا چاہئے یہی محبت انھیں دنیا و آخرت میں کامیاب بنانے والی ہے یہی مسلمان کے عروج کا نسخہ بھی ہے ایک حدیث شریف میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ تم مؤمنوں کو آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ رحمت و محبت کا معاملہ کرنے اور ایک دوسرے کے ساتھ لطف و نرم خوئی میں ایک جسم جیسا پاؤ گے کہ جب اس کا کوئی ٹکڑا بھی تکلیف میں ہوتا ہے تو ساتا جسم تکلیف میں ہوتا ہے ایسا کہ نیند اڑجاتی ہے اور جسم بخار میں مبتلاء ہوجاتا ہے‘‘( بخاری:6011 )
اولاد سے محبت :ہر انسان کو اپنی اولاد سے محبت ہونی چاہئے لیکن یہ محبت اللہ اور اس کے رسول کی محبت متجاوز نہ ہو، ہر انسان اپنی اولاد سے فطرتا محبت رکھتا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اپنی اولاد سے بہت سے محبت تھی ایک وقت کا واقعہ ہے کہ :’’ حضرت حسن رضی اللہ رضی اللہ عنہ دوڑتے ہوئے آئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نے انھیں اپنے سینے سے لگالیا اور بوسہ لیا پھر فرمایا :اے اللہ ! اسے محبوب رکھ اور اس شخص کو بھی محبوب رکھ جو اس سے محبت رکھے‘‘( بخاری:2122 ) اسی طرح ایک اور روایت میں منقول ہے کہ ان کے حق میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں دعا کی تھی: ’’اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ أحبھما فأحبھما‘‘ ’’اے اللہ !مجھے ان سے محبت ہے تو بھی ان سے محبت رکھ ‘‘ (بخاری:3747 / مسلم:6256) اس حدیث سے جہاں بچوں سے محبت کی تلقین ملتی ہے وہیں اس بات کا بھی علم ہوتا ہے کہ جب ایک مؤمن دوسرے مؤمن سے اللہ کے لئے محبت رکھتا ہے تو اللہ بھی ان سے محبت رکھتے ہیں ۔
یہ مکمل واقعہ یوں ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیںکہ میں مدینہ کے بازاروں میں اے ایک بازار میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم واپس ہوئے تو میں آپ کے ساتھ واپس ہوا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بچہ کہاں ہے ؟ یہ آپ نے تین مرتبہ فرمایا : حسن بن علی کو بلاؤ، حسن بن علی رضی اللہ عنہما آرہے تھے اور ان کی گردن میں ( خوشبودار لونگ وغیرہ کا) ہار پڑا تھا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ اس طرح پھیلایا کہ (آپ حسن رضی اللہ عنہ کو گلے سے لگانے کے لئے )اور حسن رضی اللہ عنہ نے بھی اپنا ہاتھ پھیلایا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے لپٹ گئے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ اے اللہ ! میں اس سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت کر اور ان سے بھی محبت کر جو اس سے محبت رکھیں ۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کے بعد کوئی شخص بھی حسن بن علی رضی اللہ عنہ سے زیادہ مجھے پیارا نہیں تھا‘‘ (بخاری:5884 )
اولاد سے محبت تمام والدین کو ہوتی ہے جب اولاد ان سے جدا ہوتی ہے تو والدین کو اس کا بہت ہی غم ہوتا ہے حدیث شریف میں ہے حارثہ بن سراقہ رضی اللہ عنہ بدر کی لڑائی میں شھید ہوگئے، وہ اس وقت نو عمر تھے تو ان کی والدہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئیں اور عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ کو معلوم ہے کہ حارثہ سے مجھے کتنی محبت تھی، (آپ مجھے بتائیں ) اگر وہ جنت میں ہے تو میں صبر کر لوں گی اور صبر پر ثواب کی امید وار رہوں گی اور اگر کوئی اور بات ہے تو آپ دیکھیں گے کہ میں اس کے لئے کیا کرتی ہوں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ افسوس کیا تم پاگل ہوگئی ؟ جنت ایک ہی نہیں ہے، بہت سی جنتیں ہیں اوروہ( حارثہ) جنت الفردوس میں ہے‘‘( 6550 /6567) اس ضمن میں اور بھی تفصیلات ہیں ان شاء اللہ آئندہ قسط میں پیش کی جائیں گی۔
٭٭٭