رضوان احمد طارق
ارضِ فلسطین ایک بار پھر لہو رنگ ہے، غزہ میں اسرائیل کی ظالمانہ اور وحشیانہ کارروائیاں جاری ہیں، لیکن کئی اہم طاقت ور ممالک اسرائیل کی پشت پناہی کررہے ہیں یا خاموش رہ کر اسے شہہ دے رہے ہیں۔ اسلامی ممالک کا تو ذکر ہی کیا، وہ مسئلۂ فلسطین اور اہلِ فلسطین سے اتنے مخلص ہیں کہ سات اکتوبر سے اسرائیل کی وحشیانہ کارروائیاں جاری ہیں ،لیکن او آئی سی کا اس معاملے پر جو پہلا ’’ہنگامی‘‘ اجلاس ہوگا اس کے لیے اٹھارہ اکتوبر کی تاریخ منتخب کی گئی ہے۔
کل تک افغانستان میں روس کے قبضے کے خلاف لڑنے والے مجاہدین کو حریت پسند اور مجاہدین آزادی قرار دے کر ان کی ہر طرح سے امداد کرنے والے مغربی ممالک آج ارضِ فلسطین پر اسرائیل کے ناجائز قبضے کے خلاف لڑنے والوں کو دہشت گرد کہہ رہے ہیں۔ امریکا کے صدر جو بائیڈن کا فرمانا ہے کہ حماس کے دہشت گرد حملےکے خلاف اظہاریک جہتی کے لیے اسرائیل جاؤں گا اور اسرائیل کے دورےکے بعد اردن کا سفر کروں گا جو سنگین انسانی ضروریات سے نمٹنے اور راہ نماؤں سے ملاقاتوں کے لیے ہوگا۔
ان کا فرمانا ہے کہ حماس فلسطینیوں کےحق خود ارادیت کے لیےکھڑی نہیں ہوئی۔ کچھ بنیادی اقدار ہیں جو ہمیں امریکیوں کے طور پر اکٹھا کرنا چاہئیں، ان بنیادی اقدار میں نفرت، نسل پرستی، تعصب اور تشددکےخلاف کھڑاہونا ہے۔جوبائیڈن کا کہنا تھا کہ نفرت کی کارروائیاں ہماری بنیادی اقدار کے خلاف کھڑی ہیں اور امریکا میں نفرت انگیزی کے لیے کوئی جگہ نہیں۔
لیکن کل یہ’’ امریکی بنیادی اقدار‘‘عراق میں تباہی پھیلانے والے نام نہاد ہتھیاروں کی موجودگی کی غیر مصدقہ اطلاع پر کئی ممالک کا اتحاد بناکر چڑھائی کرنے اور اس ملک کو تباہ و برباد کرنے کا راہ میں رکاوٹ نہیں بنی تھیں۔اسی طرح ماضی میں افغان مجاہدین کی تعریفوں کے پُل باندھنے اور انہیں کثیر مالی اور حربی امداد دینے سے پہلے یہ نہیں پوچھا گیا تھاکہ آپ اپنے عوام کے نمائندہ ہیں یا نہیں؟
دوسری جانب فلسطین پر اسرائیلی جارحیت کے بعد سعودی عرب اور اسرائیل کے مابین تعلقات کو معمول پر لانے والا امریکی منصوبہ سرد خانے کی نذر ہوگیاہے اور سعودی عرب نے بات چیت کو غیر معینہ مدت کے لیے معطل کردیا ہے۔ اس حوالے سے ریاض میں اہم عہدے داروں نے تصدیق کی ہےکہ اسرائیل اور فلسطینی گروپ حماس کے درمیان تنازع بڑھنے کے بعد سعودی خارجہ پالیسی کی ترجیحات پر تیزی سے نظر ثانی کی جارہی ہے۔
خِطّے میں رونما ہونے والے اس تازہ تنازعے کے بعد سعودی عرب اور ایران کے مابین تعلقات کی نئی فضا ہم وار ہوئی ہے۔ حالیہ صورت حال پیدا ہونے کے بعد سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے پہلا فون ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کو کیا کیوں کہ ریاض پورے خطے میں تشدد میں اضافے کو روکنے کی کوشش کررہا ہے۔
دونوں ممالک کے ذرائع نے غیرملکی خبررساں ادارے ’’رائٹرز‘‘ کو بتایا ہےکہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات قایم کرنے کے بارے میں امریکی حمایت یافتہ بات چیت میں تاخیر ہوگی۔ اس طمن میں سعودی تجزیہ کارعزیز الغاشیان کا کہنا ہے کہ سعودی عرب اور اسرائیل کے تعلقات معمول پر لانے کا عمل پہلے تنقید کی زد میں تھا لیکن اس تنازعے نے معاملے کو مزیدپے چیدہ بنا دیا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ اب امریکا کی شاطرانہ ڈپلومیسی مشکلات کا شکار ہوگئی ہے۔ اسی لیے حماس کی کارروائی کے فورا بعدپہلے امریک وزیر خارجہ ٹونی بلنکن اور پھر وزیر دفاع آسٹن تل ابیب پہنچے اور اب امریکی صدر اسرائیل جارہے ہیں۔ ان دوروں کا مقصد واضح طورپر اسرائیل کے ساتھ امریکا کے ڈٹ کر کھڑا ہونے کا پیغام دینا ہے اور عرب ممالک کو یہ باور کرانا ہے کہ امریکا اب بھی ان پر اسرائیل کے ساتھ تعلقات قایم کرنےکے ضمن میں دباوڈ التا رہے گا۔
حماس نے شاید اسی خطرے کو بھانپ کر اتنی بھرپور کارروائی کی تھی۔ اس نے سوچا ہوگا کہ اگر بعض اہم اسلامی ممالک نے بھی اسرائیل کے ہاتھ پر بیعت کرلی تو فلسطینی بالکل ہی بے دست و پا ہو جائیں گے۔ انہوں نے اپنی تاریخ کا سب سے بھرپور وار کرکے اسلامی ممالک کو بالخصوص اور عالمی برادری کو بالعموم یہ پیغام دیا ہے کہ مسئلہ فلسطین آج بھی زندہ ہےاور فلسطینی اپنی سرزمین کے لیے خراب ترین حالات میں بھی لڑتے رہیں گے۔
اسی خطرے کے پیش نظر امریکی صدر جو بائیڈن کا ایک انٹرویو کے دوران کہنا تھاکہ حماس کا وجود مٹانا ہو گا ۔صدر جو بائیڈن نے فلسطینی صدر محمود عباس سے بھی ٹیلی فون پر رابطہ کیا اور کہا کہ حماس فلسطینیوں کی حق خود ارادیت کی ترجمانی نہیں کرتی ۔ محمود عباس نے بھی امریکی صدر کی تائید کی تھی۔
ادہر اسرائیل کے وزیر GIDEON SA’AR نے جنگ کے اختتام پر غزہ کو مزید چھوٹا کرنے کی دھمکی دیتے ہوئے کہاہے کہ مشرق اور شمال دونوں جانب سے فلسطینیوں کو اپنا علاقہ چھوڑنا پڑے گا۔ دوسری جانب امریکی قومی سلامتی کےمشیرنے خبردار کیا ہے کہ اسرائیل حماس تنازع بڑے تنازعے میں بدل سکتا ہے اور اس کی وجہ سےلبنان کی سرحد پر نیا محاذ کھلنے اور ایران کی شمولیت کا بھی خدشہ ہے۔
اسرائیل پر حماس کے حملوں کے بعد امریکی صدر جو بائیڈن نے ایک بار پھر فلسطین پر اسرائیلی جارحیت اور بم باری کو اسرائیل کا حق اور فرض قرار دیاہے اور اسرائیل کو امریکا کے اس کے ساتھ ہونے کا یقین دلاتے ہوئے کہا ہے کہ حملوں کا جواب دینا اسرائیل کا حق اور فرض ہے اور امریکا یقینی بنائے گا کہ اسرائیل اپنا دفاع کرسکے۔
یہاں 24 دسمبر 2016 کے دن کا تذکرہ بے محل نہیں ہوگا جب اسرائیل کے وزیراعظم بن یامن نیتن یاہو نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے غربِ اردن میں غیر قانونی بستیوں کے قیام کے خلاف قرارداد کو شرم ناک قرار دیاتھا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا تھا کہ اسرائیل ہونے والے15رکنی سکیورٹی کونسل کے ووٹ کے نتائج کو تسلیم نہیں کرے گا۔ اسرائیلی وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ اسرائیل اقوام متحدہ میں اس شرم ناک اور اسرائیل مخالف قرارداد کو مسترد کرتا ہے اور اس کا پابند نہیں رہے گا۔
خیال رہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے اسرائیل کی جانب سے غربِ اردن میں غیر قانونی بستیوں کے قیام کے خلاف ایک قرارداد منظور کی تھی۔سلامتی کونسل کے 15 رکن ممالک میں سے 14 نے اس قرارداد کی حمایت میں ووٹ ڈالےتھے۔امریکا نے ووٹ ڈالنے سے انکار کر دیا تھا۔ تاہم امریکا نے اس موقعے پر قرارداد کے خلاف ویٹو کا حق بھی استعمال نہیں کیاتھا۔
ماضی میں امریکہ نے ایسی قراردادوں کو ویٹو کر کے اسرائیل کی مدد کی تھی۔ تاہم اوباما انتظامیہ نے روایتی امریکی پالیسی چھوڑ کر اس مرتبہ اس قرارداد کو منظور ہونے دیا تھا۔
یاد رہے کہ یہ قرارداد مصر کی جانب سے پیش کی گئی تھی تاہم امریکی نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مداخلت کے بعد مصر نے اسے موخر کر دیا تھا۔ اس کے بعد سلامتی کونسل کے دیگر ممالک نیوزی لینڈ، سینیگال، وینزویلا، اور ملائیشیا نے اس قرارداد کو دوبارہ پیش کیا اور اسے منظور کروانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔
ادہر اسرائیلی وزیراعظم بن یامن نیتن یاہو نے اس قرارداد کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھاکہ اسرائیل اس میں طے کی گئی شرائط پر عمل نہیں کرے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل امریکا کے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کے ساتھ مل کر اس قرارداد کے منفی اثرات کا مقابلہ کرنے کے لیے پرامید ہے۔
فلسطین کی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ صائب اراکات نے اس قرارداد کو بین الاقوامی قانون کی فتح اور اسرائیل میں شدت پسند عناصر کی شکست قرار دیاتھا۔قرارداد میں اسرائیل سے کہا گیا تھا کہ وہ غربِ اردن اور مشرقی یروشلم میں بستیوں کی تعمیر روک دے۔
غربِ اردن میں اسرائیل کی جانب سے تعمیر کردہ یہودی بستیاں فلسطینیوں اور اسرائیل کے درمیان ایک انتہائی متنازع موضوع ہے جسے خطے میں قیامِ امن کے لیے اہم رکاوٹ سمجھا جاتا ہے۔ یہ پہلا موقعہ نہیں تھاجب اسرائیل کی جانب سے تعمیر کردہ یہودی بستیوں کو غیر قانونی قرار دیا گیا ہو۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے علاوہ، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی، انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس، اور بین الاقوامی ریڈ کراس بھی انھیں غیر قانونی قرار دے چکی ہیں۔
1967 کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد سے اسرائیل نے غربِ اردن اور مشرقی یروشلم میں تقریباً 140 بستیاں تعمیر کی ہیں جن میں پانچ لاکھ کے قریب یہودی باشندے رہتے ہیں۔
اقوام متحدہ میں امریکی سفیر سمینتھا پاول نے اس موقعے پر کہاتھاکہ یہ قرارداد زمینی حقائق کی عکاسی کرتی ہے کہ بستیوں میں اضافے کی رفتار تیز ہو رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بستیوں کا مسئلہ اس قدر بدتر ہو چکا ہے کہ اب یہ دو ریاستی حل کے لیے خطرہ ہے۔ انہوں نے اسرائیلی وزیراعظم بن یامن نیتن یاہو پر تنقید کرتے ہوئے کہاتھا کہ کوئی بھی بستیوں میں اضافے اور دو ریاستی حل، دونوں کو اپنا موقف نہیں رکھ سکتا۔تاہم انہوں نے کہاتھا کہ امریکا نے قرارداد کے حق میں اس لیے ووٹ نہیں ڈالا کہ اس کی توجہ صرف بستیوں پر ہی مرکوز ہے۔
یہ قراردادمنظور ہونے کے بعد 25 دسمبر 2016 کواسرائیلی وزیر اعظم بن یامن نتن یاہو نے کہاتھا کہ اسرائیل اقوام متحدہ کے ساتھ تعلقات پر نظر ثانی کرے گا۔ اسرائیل کی جانب سے یہ بیان اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے غربِ اردن میں غیر قانونی بستیوں کے قیام کے خلاف قرارداد کی منظوری کے بعد آیا تھا۔
اس سے قبل نتن یاہو نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد کو ‘شرمناک قرار دیا تھا۔ ان کا کہنا تھاکہ ‘میں نے وزارت خارجہ کو ہدایت دی ہے کہ وہ ایک ماہ کے اندر اقوام متحدہ کے ساتھ تمام تعلقات پر نظر ثانی کرے، بہ شمول اقوام متحدہ کے مختلف اداروں کے لیے مالی امداد اور اقوام متحدہ کے اسرائیل میں مستقل مندوب کے۔
اس کے بعد 20 اکتوبر 2022 کو اقوام متحدہ کے مقرر کردہ تحقیقاتی کمیشن نے اپنی پہلی رپورٹ میں کہاتھاکہ فلسطینی علاقے پر اسرائیل کا قبضہ اپنی مستقل نوعیت اور اسرائیلی حکومت کی ان علاقوں کے حقیقی الحاق کی پالیسیوں کی بناء پر بین الاقوامی قانون کے تحت ناجائز ہے۔ سہ رکنی کمیشن نے اس معاملے میں عالمی عدالت انصاف(آئی سی جے)سے رجوع کرنے پر زور دیا تھا جو اقوام متحدہ کی اعلیٰ ترین عدالت ہے۔
کمیشن کے ارکان نے خاص طور پر کہا تھاکہ بین الاقوامی انسانی قانون کے تحت دوران جنگ کسی علاقے پر قبضہ ایک عارضی صورت حال ہوتی ہے جو مقبوضہ جگہ کو اس کی ریاستی حیثیت یا خودمختاری سے محروم نہیں کرتی۔
اقوام متحدہ کا بنیادی اصول
کمیشن کی چیئرپرسن نوی پِلے کا کہنا تھا کہ سیکریٹری جنرل اور اقوام متحدہ کے متعدد رکن ممالک کے حالیہ بیانات سے واضح ہوتا ہے کہ کسی ملک کی جانب سے دوسرے ملک کے علاقے کا اپنے ساتھ یک طرفہ طور پر الحاق کرنے کی کوئی بھی کوشش بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتی ہے اور ایسی کوشش ناجائز تصور کی جاتی ہے۔ ایک ہفتہ قبل اسرائیل سمیت اقوام متحدہ کے 143 رکن ممالک نے اسی بات کی تصدیق کے لیے جنرل اسمبلی میں پیش کی جانے والی قرارداد کے حق میں ووٹ دیا تھا۔
ان کا مزید کہنا تھاکہ جب تک اقوام متحدہ کے چارٹر کے اس بنیادی اصول کا مقبوضہ فلسطینی علاقے کی صورتحال سمیت دنیا بھر میں اطلاق نہیں کیا جاتا اس وقت تک یہ اصول بے معنی رہے گا۔
کمیشن نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے کہاتھا کہ وہ اس قبضے کے قانونی اثرات پر آئی سی جے کی ہنگامی مشاورتی رائے کے لیے درخواست دے۔
آبادی کاری کے اقدامات کا جائزہ
کمیشن نے ارکان نے اپنی رپورٹ تیار کرنے کے لیے اسرائیل کی ان پالیسیوں اور اقدامات کا ازسرنو جائزہ لیا جن کے ذریعے اسے اپنا قبضہ برقرار رکھنے اور مقبوضہ فلسطینی علاقے کے حصوں کا اپنے ساتھ الحاق کرنے میں مدد ملتی ہے۔
انہوں نے رپورٹ میں خاص طور پر کہاتھا کہ کیسے اسرائیل نے آبادکاری کے اقدام کو قائم رکھا اور اسے ترقی دی جس میں اسرائیلی حکام کے ایسے بیانات بھی شامل ہیں جن میں بین الاقوامی قانون کے خلاف اس زمین پر مستقل قبضہ رکھنے کے ارادے کا اظہار کیا گیا ہے۔
کمیشن نے اپنی رپورٹ میں یہ نتیجہ اخذ کیاتھا کہ اسرائیل بہ زور طاقت فلسطینی علاقے پر قبضہ کرنے کا اقدام جاری رکھ کر اپنی عالمی ذمے داریوں سے روگردانی کر رہا ہے اور فلسطینیوں کے انفرادی اور اجتماعی حقوق کی پامالی پر اس کا محاسبہ کیا جانا چاہیے۔
پلائے نے کہاتھا کہ ایک کے بعد دوسری اسرائیلی حکومت نے نئی آبادیوں کے قیام یا ان کے قیام میں سہولت دے کر اور اسرائیل کے شہریوں کو براہ راست یا بالواسطہ طریقے سے ان آبادیوں میں منتقل کر کے مغربی کنارے میں اسرائیل کا مستقبل قبضہ یقینی بنانے کی غرض سے ٹھوس اقدامات کیے ہیں۔
زمین سے متعلق ممانعتی پالیسیاں
کمیشن نے مغربی کنارے میں اسرائیل کی جانب سے زمین اور وہاں کے قدرتی وسائل پر قبضہ اور استحصالی اقدامات اور اس کی ممانعتی شہری منصوبہ بندی اور حلقہ بندی کی پالیسیوں کا جائزہ بھی لیاتھا۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ یہ زمین عام طور پر فوجی مقاصد کے لیے قبضے میں لی جاتی ہے لیکن بعد میں اس پر آبادکاری کی غرض سے تعمیرات کی جاتی ہیں۔ کمیشن نے اسرائیلی حکام کے بیانات کا جائزہ لیا جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ فلسطینی تعمیرات کو اسرائیل کی جانب سے آبادکاری میں رکاوٹ کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور انہیں قبضے میں لینے، منہدم کرنے اور وہاں رہنے والے لوگوں کو بے دخل کرنے جیسے اقدامات کی بات کی جاتی ہے۔
مشرقی یروشلم میں بھی یہی کچھ دیکھا گیا اور ایسے اقدامات کا ممانعتی منصوبہ بندی اور حلقہ بندی کے ذریعے فلسطینیوں کے لیے زمین تنگ کرنے میں اہم کردار ہے۔
خاموش نقصان اور صدمہ
رپورٹ میں اسرائیلی حکومت کی ایسی پالیسیوں پر بھی بات کی گئی ہے جنہوں نے فلسطینیوں کی زندگی کے ہر پہلو کو متاثر یا ہے جن میں صاف اور کم قیمت پانی تک رسائی بھی شامل ہے۔
کمیشن کے رکن میلون کوٹھاری کا کہنا تھا کہ معاشی، سماجی اور ثقافتی حقوق کے خاتمے سے بہت سا ‘خاموش نقصان اور نفسیاتی صدمہ جنم لیتا ہے جو فوری طور پر سامنے نہیں آتا۔ مضمحل کر دینے والے ان طریقہ ہائے کار کے بہت سے مختصر اور طویل مدتی نتائج ہیں اور ان سے ہنگامی طور پر نمٹا جانا چاہیے۔کمیشن نے قبضے اور حقیقتی الحاق سے متعلق پالیسیوں کا جائزہ بھی لیا جو فلسطینیوں کے انسانی حقوق کو متاثر کر رہی ہیں اور فلسطین کی خواتین اور بچوں پر بھی اثر ڈال رہی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق جابرانہ ماحول کے باعث فلسطینی اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہیں اور اس ماحول نے فلسطینی معاشرے میں انتشار پھیلایاہےاور حق خود اختیاری کے حصول میں رکاوٹیں ڈالی ہیں۔
عالمی اقدام کی ضرورت
رپورٹ کے آخر میں کہا گیاتھا کہ اسرائیل کی حکومت کی بعض پالیسیاں اور اقدامات بین الاقوامی قانون کے تحت جرم ہیں جن میں اپنی ہی کچھ شہری آبادی کی مقبوضہ علاقے میں منتقلی کا جنگی جرم بھی شامل ہے۔
کمیشن کے رکن کرس سیڈوٹی کا کہنا تھاکہ ہماری رپورٹ میں اسرائیل کی حکومت کے جن اقدامات کا جائزہ لیا گیا وہ غیرقانونی قبضے اور الحاق کی ذیل میں آتے ہیں جس کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔بین الاقوامی نظام اور انفرادی ممالک کو عالمی قانون کے تحت اپنی ذمہ داریوں پر عمل کرنا چاہیے اور ان کی پاسداری کرنی چاہیے۔ یہ کام جنرل اسمبلی کے اسی اجلاس میں شروع ہونا چاہیے جس میں اس معاملے پر عالمی عدالت انصاف سے رجوع کیا جائے۔
یہ تنازع کیوں ہے؟
فلسطینی معاشرہ کئی حصوں میں منقسم ہے۔ اسرائیل کے مقبوضہ مغربی کنارے میں 20 لاکھ فلسطینی آباد ہیں اور وہ 167 مختلف علاقوں میں رہتے ہیں۔ جبکہ تقریباً 20 لاکھ افراد غزہ میں رہتے ہیں۔ 1948 اور 1967 کی جنگوں میں 50 لاکھ افراد بے گھر ہوئے اور وہ علاقے کے مختلف کیمپوں میں مقیم ہیں۔
مغربی کنارے میں محمود عباس کی ایک غیر تسلیم شدہ حکومت ہے جو اسرائیل اور بین الاقوامی مدد پر انحصار کرتی ہے۔ غزہ میں سیاسی عسکری گروپ حماس کی انتظامیہ ہے جس کو قطر، ترکی اور ایران کی حمایت حاصل ہے۔
اسرائیل نے 1967 کی چھ روزہ جنگ میں مغربی کنارے، گولان کی پہاڑیوں اور غزہ پر قبضہ کر لیا تھا۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی طرف سے بار بار مذمتی قراردادوں کے بعد، اسرائیل 2005 میں غزہ سے دست بردار ہو گیاتھا۔اسی دوران اسرائیل نے چار لاکھ 63 ہزار 353 افراد کو قریبی شہروں میں آباد کیا ہے۔ ان میں زیادہ تر مذہبی قوم پرست ہیں جنہوں نے کھیتوں اور آبی وسائل پر قبضہ کر رکھا ہے۔ اسرائیل نے ان علاقوں میں فوج کی موجودگی میں اضافہ کیا اور مشرقی یروشلم میں تین لاکھ افراد کو آباد کیا۔
(سلسلہ صفحہ ۶)
1993 میں اوسلو معاہدے میں یہ طے ہوا تھاکہ مغربی کنارے اور غزہ کے کچھ حصوں میں فلسطین کی اپنی حکومت ہو گی۔ اس کے بعد یہ محسوس کیا گیا کہ دونوں فریق مستقل حل کی طرف بڑھیں گے جس کے مطابق 1948 تک برطانوی حکومت کے زیر نگیں آنے والے فلسطین کے 22 فیصد حصے میں ایک ملک بنے گا جو کہ فلسطین کہلائے گا۔
لیکن اسرائیل کے ناقدین کا کہنا ہے کہ اس ملک میں ساری حکومتیں فلسطین کے مطالبات کے معاملے میں رخنہ ڈالتی ہیں تاکہ اوسلو معاہدے کو بھی ناکام بنا دیا جائے۔ان مطالبات میں1948اور 1967 کی جنگوں میں بے گھر ہونے والوں کو واپسی کا حق، مشرقی یروشلم اور اس کے مقدس مقامات پر ان کا غلبہ، مغرب کنارے اور غزہ کی نوآبادیاتی سرگرمیوں پر روک ایک دفاعی نظام شامل ہیں۔
اسرائیل کے سرکاری نقطہ نظر سے فلسطینیوں کے مطالبات بہت زیادہ ہیں اور حقیقت پسندانہ نہیں ہیں۔ فلسطین کے مختلف دھڑوں کا ایک جیسا سیاسی موقف نہیں ہے اور بہت سی تنظیمیں دہشت گردی کا سہارا لیتی ہیں۔
دوسری طرف اوسلو معاہدے کا مقصد غیر واضح تھا اور اسرائیل کے امریکی حامیوں نے مزید رکاوٹیں پیدا کیں۔ فلسطین کبھی بھی ملک نہیں بن سکا۔ ادھر اسرائیل نے’ ’زمینی حقائق‘‘ کہہ کر مقبوضہ علاقوں کو نوآبادیات میں تبدیل کرنے کی کوشش کی۔اس کا رشتہ بائبل میں لکھی اس بات سے جوڑا گيا کہ خدا کے وعدے کے مطابق یہودیوں کو اس سرزمین پر آباد ہونے کا حق حاصل ہے۔
ایسے میں ایک طرف جہاں دو ملک بنانے کا خیال ناممکن معلوم ہوتا ہے اسرائیل اب یہودی اکثریت والے ملک میں تبدیل ہوتا جا رہا ہے۔ اس کے 92 لاکھ 27 ہزار 700 افراد میں سے 74 فیصد یہودی ہیں، اس کے علاوہ 19 لاکھ عرب اور تقریباً ساڑھے چار لاکھ غیر عرب عیسائی ہیں۔اس کے ساتھ ہی مغربی کنارے میں بسنے والے قریب 20 لاکھ فلسطینیوں پر بھی اسرائیل کا کنٹرول ہے۔
2020 میں بن یامن نتن یاہو نے اعلان کیا کہ وہ مغربی کنارے کے ایک تہائی حصے کو ملک میں ضم کر لیں گے۔ فی الوقت فلسطینی علاقوں کی سلامتی اسرائیل اور امریکا کے تعاون سے فلسطین اتھارٹی کے پاس ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ آج اسرائیل کتنا ہی جدید یا طاقت ورملک کیوں نہ ہو، اس کی بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی، فلسطینی سرزمین پر قبضے اور لوگوں کے خلاف تشدد کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔