جیسے جیسے یوکرین میں جنگ آگے بڑھ رہی ہے ویسے ویسے ترکی کے صدر رجب طیب اردغان کا نیا چہرہ سامنے آ رہا ہے۔ بہت سے ماہرین اسے ترکی کا دو طرفہ کھیل قرار دے رہے ہیں کیوں کہ مغربی طاقتوں کا اتحادی ہونے کے ساتھ ساتھ ترکی اس جنگ کے دوران روس کے قریب تر آ گیا ہے۔ ناٹو کا رکن اور یوکرین کا روایتی ساتھی ہونے کی وجہ سے رواں برس فروری میں روس، یوکرین جنگ کے آغاز پر ترکی نے روس مخالف مغربی طاقتوں کے اتحاد کے ساتھ کھڑے ہونے کا فیصلہ کیا تھا۔ یوکرین کے لیے ترکی کی حمایت صرف سیاسی حد تک محدود نہیں تھی بلکہ اس نے یوکرین کی فوجی مدد بھی کی۔ ترکی کی جانب سے یوکرین کو دیے گئے ’ٹی بی ٹو‘ ڈرونز حالیہ دنوں میں روسی افواج کے لیے ایک ڈراؤنا خواب ثابت ہوئے ہیں۔ تاہم ترکی نے مغربی طاقتوں کے اس اقدام کی کبھی حمایت نہیں کی جس کے تحت روس پر معاشی پابندیاں عائد کی گئیں بلکہ صورتحال یہ ہے کہ اس دوران ترکی نے روس کے ساتھ اپنے اقتصادی تعاون کو مزید مضبوط کیا ہے اور رواں ماہ کے آغاز میں ترک صدر رجب طیب اردوغان نے امریکہ اور یوروپی یونین پر ماسکو کے خلاف ’اشتعال انگیزی‘ کی پالیسی پر عمل پیرا ہونے کا الزام لگا کر دنیا کو چونکا دیا۔ اردغان نے اس جنگ کے دوران ’توازن‘ کی پالیسی پر عمل پیرا رہنے کا دعویٰ کیا ہے اور روس یوکرین تنازع میں ثالث کے طور پر اپنے کردار کی توثیق بھی کی ہے۔
سیاسی تجزیہ کار کریم ہاس کے مطابق ’صدر اردغان امریکہ اور مغرب کے ساتھ اپنے تعلقات میں روس کارڈ کا استعمال کرتے ہیں کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ اس معاملے میں ترکی امریکہ اور مغرب کے لیے ایک قابل قدر اتحادی ہے۔ دوسری جانب وہ روس کے ساتھ اپنے تعلقات میں بھی مغرب کے کارڈ کا استعمال کرتے ہیں۔‘بعض تجزیہ کاروں کے مطابق یہ دو جہتی حکمت عملی ترکی کے لیے اہم اقتصادی اور سیاسی فوائد کا باعث بن سکتی ہے۔ سیاسی تجزیہ کار کریم ہاس کا کہنا ہے کہ ’اردغان کو دو چیزیں پسند ہیں: طاقت اور پیسہ۔‘ گزشتہ دو دہائیوں سے ملک پر حکمرانی کرنے والے ترک صدر کی مقبولیت میں گزشتہ سال کمی دیکھی گئی اور اس عوامی مقبولیت میں کمی کی ایک بنیادی وجہ ترکی میں سنگین ہوتا معاشی بحران ہے۔ کریم ہاس کے مطابق ’صدارتی انتخابات سے قبل اردغان کو بیرونی ممالک سے بہت زیادہ اقتصادی اور مالی مدد اور سرمایہ کاری کی ضرورت ہے، تاکہ ملکی معیشت کی بحالی ممکن ہو سکے اور انتخابات میں ان کی کامیابی یقینی بن پائے۔‘دوسری جانب روس ہے جسے ایک ایسے شراکت دار کی ضرورت ہے جو روس پر لگنے والی عالمی پابندیوں کو زیادہ سے زیادہ روک پائے جبکہ روس کو عالمی منڈیوں میں اپنی مصنوعات فروخت کرنے کے لیے ایک ثالث کی بھی ضرورت ہے۔
کریم ہاس کے مطابق ’ترکی اس پورے معاملے کو اپنے لیے ایک سنہرے موقع کے طور پر دیکھ چکا ہے۔ ترکی دیکھ چکا ہے کہ وہ کیسے روس کے لیے تجارتی اور لاجسٹک مرکز بننے کے ساتھ ساتھ مغرب کے ساتھ روس کے اقتصادی تعلقات میں کردار ادا کر سکتا ہے۔عالمی معاشی پابندیوں کی وجہ سے روسی مارکیٹ اور اس کی مصنوعات کو ترک کرنے والی بہت سی مغربی کمپنیوں نے استنبول کو نئے لاجسٹک سنٹر کے طور لینا شروع کیا ہے، ایک ایسا سنٹر جس کی مدد سے وہ روس سے اپنا بزنس جاری رکھ سکیں۔ اور بالکل اسی طرح وہ بہت سے روسی تاجر جو مغربی ممالک کے ساتھ تجارت کرتے ہیں، اپنے لاجسٹک اور تجارتی مراکز کو ترکی منتقل کر رہے ہیں تاکہ عالمی پابندیوں کی زد سے بچے رہیں۔ دوسری طرف ہم ہر روز دیکھتے ہیں کہ کیسے ترکی کی ملکیتی کوئی نہ کوئی کمپنی روسی مارکیٹ میں داخل ہوتی ہے تاکہ ان مغربی کمپنیوں کی جگہ لے لے جو اب روس سے تجارت کرنے سے گریزاں ہے۔‘
روس یوکرین جنگ نے ترکی اور روس کے درمیان دو طرفہ تجارت کو بھی متحرک کیا ہے۔ ترکی کے ادارہ شماریات کے مطابق سنہ 2021 کے ماہ جولائی کے مقابلے جولائی 2022 میں ترکی کی روس کو برآمدات میں 75 فیصد اضافہ ہوا۔ ترکی کی معیشت میں روس کے پیسے کی آمد کی ایک اور مثال ملک کے جنوب میں جاری اکویو نیوکلیئر پلانٹ کا منصوبہ ہے جس کے لیے روس نے ترکی کو 20 ارب امریکی ڈالر منتقل کیے ہیں۔توانائی کے شعبے میں ترکی بھی موجودہ صورتحال سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ ترکی اپنی گیس کی درآمدات کا تقریباً نصف روس سے حاصل کرتا ہے اور صدر پوتن سے حالیہ ملاقات سے قبل صدر اردغان نے کہا تھا کہ وہ روس سے گیس کی قیمتوں میں رعایت پر بات چیت کریں گے۔ ترکی نے پہلے ہی گزشتہ ماہ روسی گیس کی جزوی طور پر روبل میں ادائیگی کرنے اور ملک میں ادائیگی کا نیا نظام متعارف کرانے کا وعدہ کیا تھا۔ یہ نیا نظام روس کے مرکزی بینک نے مغربی بین الاقوامی سوئفٹ کے مقابلے میں تیار کیا ہے۔ ماسکو کے ساتھ رہنے سے ترکی کو سیاحت کے شعبے میں بھی فائدہ ہوتا ہے کیوں کہ یہ بہت سے روسیوں کے لیے چھٹیوں کے دوران وقت گزارنے کا ایک بہترین مقام ہے خاص طور پر ایک ایسے وقت میں جب یوروپی یونین کے ممالک روسی شہریوں کو ویزے دینے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہیں اور اس حوالے سے بہت سی پابندیاں عائد ہیں۔
جرمن انسٹیٹیوٹ برائے بین الاقوامی امور اور سلامتی کی تجزیہ کار ڈاریا اسخنکو کے مطابق روس اور مغرب کے درمیان تصادم سے ترکی کو حاصل ہونے والا ایک اور اہم فائدہ بین الاقوامی سطح پر حاصل ہونے والی توجہ ہے، یعنی اپنی اسٹریٹیجک پوزیشن اور ثالثی کے کردار کی بدولت جغرافیائی سیاسی اہمیت حاصل کرنا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’اس کی دو اچھی مثالیں استنبول میں مارچ میں روسی اور یوکرین کے وفود کے درمیان ہونے والے مذاکرات اور جولائی میں ہونے والا اناج کا معاہدہ ہیں۔‘
کریم ہاس کا خیال ہے کہ ترکی کے ثالثی کے کردار کی بدولت مغرب کو بھی فائدہ پہنچا۔
’امریکہ، یوروپی یونین اور برطانیہ روس کے ساتھ بات چیت کا کم از کم ایک چینل کْھلا رکھنا چاہتے ہیں اور ان کے لیے یہ ضروری ہے کہ مذاکرات استنبول میں ہوں نہ کہ بیلاروس، قازقستان یا خطے کے کسی دوسرے ملک کے ذریعے۔‘ دوسری طرف اردغان روس کے ساتھ اپنے تعلقات کو اپنے روایتی مغربی اتحادیوں کے لیے ویک اپ کال کے طور پر بھی استعمال کرنا چاہتے ہیں۔
’وہ اپنے ملک کے لیے مالی، سفارتی اور سیاسی مدد کے معاملے میں امریکہ اور دیگر یوروپی ممالک کے ساتھ مذاکرات میں اپنے موقف کی توثیق کروانا چاہتے ہیں اور اس کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ مغربی رہنماؤں کے ساتھ تصاویر بنوانے کا سلسلہ جاری رکھیں۔‘ یہ ایسے وقت میں خاص طور پر اہم ہے جب ترکی میں انسانی حقوق کی بگڑتی ہوئی صورتحال یا شام میں کرد ملیشیا کے معاملے پر امریکہ اور اس کے روایتی یوروپی اتحادیوں کے ساتھ انقرہ کے تعلقات سرد مہری کا شکار ہیں۔