فیض جاری ہے تمہارا حضرتِ بندہ نوازؒ
اللہ تعالیٰ نے نبوت کا دروازہ خاتم النبیین سید الاولین والآخرین کی آمد پر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند کردیا تاہم نبوت کے فیض کو ولایت کی شکل میں جاری فرمادیا۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد نہ تو کوئی نبی آیا نہ آئے گا اور نہ آسکتا ہے البتہ ولایت کی دولت سے مالامال نیک بندگانِ خدا اولیاء اللہ کے نام سے ہر زمانہ میں رہے ہیں ۔
ڈاکٹر سید شاہ مرتضیٰ علی صوفی حیدرؔپادشاہ قادری
معتمد سید الصوفیہ اکیڈمی ‘پرنسپل ایس ‘ایم ‘وی کالج حیدرآباد
اللہ تعالیٰ نے نبوت کا دروازہ خاتم النبیین سید الاولین والآخرین کی آمد پر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند کردیا تاہم نبوت کے فیض کو ولایت کی شکل میں جاری فرمادیا۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد نہ تو کوئی نبی آیا نہ آئے گا اور نہ آسکتا ہے البتہ ولایت کی دولت سے مالامال نیک بندگانِ خدا اولیاء اللہ کے نام سے ہر زمانہ میں رہے ہیں ۔یوں توسارے ہی اولیاء اللہ اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ صرف کرتے ہوے اسلام کی نشر واشاعت میں اپنا عظیم کردار ادا کر دیتے ہیں تاہم اُن میں کچھ ایسی نفوس قدسیہ بھی گذری ہیں جن سے زمانے نہ صرف اُن کی زندگی میں استفادہ کیا بلکہ بعد از وفات بھی اُن کے علمی وروحانی فیوض وبرکات سے ایک عالَم سیراب وفیضیاب ہورہا ہے ۔
ان ہی مقدس شخصیتوں میں ایک نمایاں اور ممتاز نام عالم اسلام کی عبقری شان وشوکت کی حامل، خدمات جلیلہ انجام دینے والی علمی وروحانی شخصیت خواجہ بزرگ سلطان دکن حضرت سید محمد حسینی گیسودراز بندہ نواز ؒؒکی ہے جن کی برکات روحانی سے بلا لحاظ مذہب و ملت،مسلک و عقیدہ، خواص و عوام پچھلی تقریباسات سو(۷۰۰) سال سے مستفید و مستفیض ہوتے رہے ہیں ۔ جن کا مزار پُر انوار موجودہ ہندوستان کی جنوبی ریاست کرناٹک کے مشہور و معروف مقام گلبرگہ (جس کو کالابرگی کہا جارہا ہے)میں مرجع خلائق خاص وعام ہے۔
آپ کی ولادت بتاریخ ۴؍ رجب المرجب ۷۲۱ھ محلہ شیخ پور دلی میں ہوئی ۔مادئہ تاریخ ولادت:’’رہنمائے عالی قدر‘‘ہے ۔ آپ کا نام سید محمد حسینی ،کنیت :ابوالفتح ہے اورصدر الدین ،الولی الاکبر ، سلطان دکن ، بندہ نواز ، خواجہ گیسو دراز کے القاب سے مشہور ہیں۔ آپ کے والد گرامی حضرت سید یوسف حسینی عرف سید راجہ ؒ حضرت نظام الدین اولیاء ؒ کے مریدوں میں شمار ہوتے ہیںاور معروف اولیاء اللہ میں گذرے ہیں جن کا مزار شریف دولت آباد(مہاراشٹرا)میںموجود ہے جس کے احاطہ ہی میں سلطنت گولکندہ کے آخری قطب شاہی بادشاہ ابوالحسن تانا شاہ کی قبر بھی ہے ۔
حضرت بندہ نواز ؒ کا نسبی سلسلہ حضرت امام زید مظلومؓ بن حضرت امام زین العابدین ؓکے ذریعہ(۲۱)واسطوں سے ،اور شجرئہ طریقت بھی (۲۱)واسطوں ہی سے حضور اکرم ﷺ تک پہنچتا ہے۔جب آپ کی عمر شریف چار (۴) برس کی تھی تو سلطان تغلق کے دور میں آپ اپنے والد گرامی کے ساتھ جنوبی ہند کے علاقہ دولت آباد (جو اُس وقت دیوگیر کہلاتا تھا) تشریف لائے۔ سات برس کی عمر میں ہی آپ حافظ قرآن ہوگئے تھے ۔دس (۱۰) برس کے ہوے تو والد گرامی کا ماہ شوال ۷۳۱ھ میں وصال ہوگیا ۔جب عمرشریف پندرہ برس کی ہوئی تو والدہ ماجدہ کے ساتھ سنہ ۷۳۶ھ میں دلی واپس چلے گئے اور اسی سال حضرت نصیر الدین محمود چراغ دہلیؒ سے بیعت کی اور ذکر واذکاراور اشغال،مجاہدات وریاضات اور مراقبات میں مصروف رہتے ہوئے پیر کی صحبت سے بہرہ ور ہوتے رہے ۱۸؍ رمضان ۷۵۷ھ حضرت پیر نصیر الدین چراغ دہلوی نے وصال حق فرمایا قبل ازیں جب جانشینی کے معروضہ کے ساتھ مریدین نے کئی خلفاء کے ناموں پر مشتمل فہرست پیش کی تو اس میں حضرت چراغ دہلویؒ نے حضرت سید محمد حسینی ؒ کا نام منتخب فرماکر خلافت وامانت سے سرفراز فرمایا اس طرح آپ خلیفۂ اعظم کے طور پر خدمت دین میں مصروف ہوگئے ۔
حضرت بندہ نواز ؒ سنہ ۸۰۱ھ میں دہلی سے گوالیار ، بروڈہ ، دولت آباد اور الند سے ہوتے ہوئے گلبرگہ شریف پہنچے تب بہمنی بادشاہت کادورتھا اس وقت سے آپ نے گلبرگہ کو ہی اپنے قیام کیلئے بادشاہ وقت سلطان فیروز شاہ کے اصرار پرپسند فرمایا صاحب سیر محمدی لکھتے ہیں ’’آپ کے گلبرگہ تشریف لانے پر سلطان فیروز شاہ لشکر کے ساتھ استقبال کے لئے شہر سے باہر آیا۔ راستہ میں قدمبوس ہو احضرت سے اس نے اصرار کیا کہ گلبرگہ ہی میں آپ قیام فرمائیں۔حضرتؒ نے تھوڑی دیر مراقبہ فرمایا اور فرمایا کہ میں چاہتا ہوں کہ تمہاری بات قبول کرلوں ۔
لیکن تمہاری عمر بہت کم باقی رہ گئی ہے اگر میں گلبرگہ میں رہوںگا اور تم نہ ہوگے تو پھر کیا راحت ملے گی ؟سلطان فیروز شاہ نے اسی وقت عرض کیا کہ اگر میری عمر کم رہ گئی ہے تو حضرتؒ اس پر قادِر ہیں کہ اللہ تعالیٰ سے دعاء فرمائیںکہ میری عمر بڑھ جائے ۔آپ نے ارشاد فرمایا ہاں !دعاء کرسکتا ہوں آج رات کو دعا ء میں مشغول رہوں گا۔کل آ ؤ جواب دوں گا۔سلطان فیروز واپس گیا۔دوسرے دن حاضر ہوا قدمبوسی کی حضرت ؒ کے سامنے بیٹھا ۔آپ نے ارشاد فرمایا۔رات میں نے تیری عمر زیادہ ہونے کی دعاء کی فرمان صادر ہوا کہ ’’ہم نے زیادہ کردی۔جب تک تم زندہ رہوگے وہ بادشاہ بھی زندہ رہے گا۔‘‘
واقعی ایسا ہی ظہور میں آیا۔کہ حضرت مخدومؒ کے وصال اور بادشاہ کی موت میں چند روز کا فرق ہے۔چنانچہ جب آپ ؒ کی عمر شریف ایک سو پانچ سال چار ماہ بارہ دن کی ہوئی دوشنبہ کے دن نماز اشراق وچاشت کے درمیان ہزاروں لاکھوں کو روحانی فیوض وبرکات سے اپنی ظاہری حیات میں فیضیاب کرنے کے بعد سولہ (۱۶)ذیقعدہ ۸۲۵ھ میں اپنے خالق حقیقی سے وصال فرمایا‘‘آپ کا مادہ تاریخ وصال: کسی نے ’مخدوم دین ودنیا‘سے سنہ وصال کاخوب استخراج کیا ہے اور بعد از وصال بندہ نوازؒ روحانی فیضان سے مخلوق خدا کو مالامال کرنے کا سلسلہ ہنوز جاری ہے
آپ کے ایک مشہور لقب’’ گیسو دراز‘‘ کے بارے میں حضرت شاہ عبد الحقؒ محدث دہلوی اپنی مشہور کتاب ’’ اخبار الاخیار‘‘ میں لکھتے ہیںکہ شیخ نصیر الدیں چراغ دہلوی کی پالکی جس طرح دوسرے مرید اُٹھاتے اُ سی طرح حضرت بندہ نواز بھی اُٹھایا کرتے تھے ایک دن آپ اپنے شیخ کی پالکی اُٹھانے لگے تو اُس کے ایک حصہ میں آپ کے بال اُلجھ گئے اگرنکالتے تو دیر لگتی اور اس سے شیخ کے کبیدہ خاطر ہونے کا خطرہ محسوس کرتے تھے اس لئے شیخ کے عشق ومحبت میں اسی کیفیت سے چلتے رہے بہت فاصلہ طئے کرجانے کے بعد جب شیخ کو معلوم ہوا تو وہ بہت خوش ہوے اور آپ کی اِس سچی محبت اور پکی عقیدت پر آفرین کی اور یہ شعر پڑھا:
ہر کہ مرید سید گیسو دراز شد
واللہ خلاف نیست کہ او عشقباز شد
(ترجمہ: جو کوئی سید گیسو دراز کا مرید ہوگیا قسم خدا کی کہ وہ تو عشقباز [محبت الٰہی میں مست]ہی ہوگیا ) اسی طرف اشارہ کرتے ہوے حیدرآبادکے حالیہ دورکی ایک عظیم شخصیت اور صوفی باصفاوالدی ومرشدی‘مربی ومولائی مصباح المفسرین وقارالصوفیہ حضرت اعظم المشائخ صوفی اعظم پیر ؒ اپنے اشعار میں فرماتے ہیں؎
تقوے پہ ناز ہے نہ عبادت پہ ناز ہے
بندہ نوازؒ آپ کی نسبت پہ ناز ہے
پیر چراغ دہلویؒ نے کی عطا سند
خواجہ کا جو مرید ہے وہ عِشقباز ہے
سابق سجادہ نشین تقدس مآب حضرت سید شاہ محمد محمد الحسینی ؒ (موجودہ سجادہ نشین حضرت ڈاکٹر سید شاہ خسرو حسینی کے والد ماجد )جو مسلم پرسنل لا بورڈ کے نہ صرف تاسیسی رکن معزز تھے بلکہ بورڈ کے نائب صدر کے طور پر بھی آپ کی بڑی خدمات رہی ہیں فرماتے تھے کہ مولانا سید ابوالحسن علی ندوی صاحب سے جب کبھی ملاقات ہوتی تو وہ اس مذکورہ فارسی شعر کو سناکر ہی حضرت تقدس مآب ؒکا استقبال کیا کرتے تھے ۔
حضرت بندہ نواز ؒ کی طرف سے رب تبارک وتعالی کی عبادت وریاضت کے بارے میں حضرت پیر نصیرالدین چراغ دہلوی ؒکے ایک ارشاد پر مبنی حضرت محمد علی سامانی کی مشہور کتاب سیر محمدی سے ایک اقتباس پیش ہے کہ جس میں بندہ نواز ؒکے ذوق عبادت و شوق ریاضت پر پیر ومرشد کا تحسین فرمانا ظاہر ہوتا ہے لکھتے ہیں ’’ بالکل یکسو ہوکر جب آپ(حضرت سید محمد حسینیؒ) نے علم باطن کی تعلیم حاصل کرنی شروع کی تو مکاشفات وتجلیات پر اپنے واقعات وواردات اپنے پیر کی خدمت میں پیش فرمایاکرتے تھے حضرت پیرچراغ دہلوی فرمایاکرتے تھے کہ (۷۰)ستر سال بعد ایک لڑکے نے پھر مجھ میں شوریدگی پیدا کردی اور پہلے زمانے کے واقعات مجھے یاد دلادئے ‘‘
قبل ازیں حضرت بندہ نواز ؒ نے جب جب اپنے پیرؒ کی خدمت میںحصول علوم ظاہری روک کر علوم باطنی حاصل کرنے کی درخواست کی تو حضرت پیر ؒ فرمایا کرتے :’’ ہدایہ ،رسالہ شمسیہ ، کشاف ،مفتاح پڑھ لو تم سے ابھی ایک کام لینا ہے ‘‘ اس سے حضرت پیر نصیر چراغ دہلویؒ کا منشاء معلوم ہوتا ہے کہ آپ اپنے اس ہونے والے جانشین سے تصنیف و تالیف کا کام بھی لینا چاہتے ہیں اور آپ نے اپنے شیخ کی اس آرزو کو کچھ اس انداز سے نبھایا کہ محققین کی رائے کے مطابق سلسلہ چشتیہ کے اکابر بزرگوں میں ایک حضرت بندہ نواز ؒ ہی ایسے بزرگ ہیں جنھوں نے بندگان خدا کی رہبری ورہنمائی کے لئے فیض صحبت کے ساتھ ساتھ علمی وقلمی فیضان سے بھی خوب نوازا اور آپ صاحب تصانیف کثیرہ ہونے کی وجہ سے پورے سلسلہ چشتیہ میں امتیازی شان کے حامل ہیں۔
چنانچہ آپ نے عربی وفارسی اور مقامی(دکنی) زبانوں میں مختلف علوم وفنون پر زائد از سو کتابیں تصنیف ،تالیف ، کئی کتابوں کی شروحات اور تراجم پر مشتمل عظیم علمی سرمایہ امت کے حوالے کیا آپ کی عمر شریف ایک سو پانچ (۱۰۵) سال ہوئی اور محققین نے آپ کی چھوٹی بڑی تصانیف، رسائل وغیرہ کی تعداد بھی آپ کی عمر شریف کے عدد کی تعداد میں ہونا بتایا ہے اور بعضوں نے(۱۲۰) بھی لکھی ہے۔آپ کی ان کتابوں میں سے زیر نظر مضمون میں صرف دو کتابوںکے ذکر پر اکتفاء کیا جاتاہے جوآپ کے وصال کے زائد از چھ سو (۶۰۰) سال بعد موجودہ دور میں طبع ہوکر اہل علم کی آنکھوں کو خیرہ کررہی ہیں جس میں سے عربی کی دو مشہور کتابیں(۱)معارف العوارف (۲) تفسیر الملتقط کا مختصراً تعارف کیا جاتا ہے( ۱ ) معارف العوارف :یہ عالم اسلام کی ایک مشہور کتاب عوارف المعارف مولفہ شیخ الشیوخ حضرت شیخ شہاب الدین عمر سہروردی ؒ کی عربی شرح ہے ۔
پچھلے چھ سو سال سے جو تشنہ طباعت تھی اس کو موجودہ سجادہ نشین حضرت ڈاکٹر سید خسرو حسینی صاحب کی اجازت سے پروفیسر محمد مصطفی شریف صاحب سابق صدر شعبہ عربی جامعہ عثمانیہ کی تحقیق وتخریج کے ساتھ مشہور زمانہ ادارہ دائرۃ المعارف العثمانیہ سے بزبان عربی تاحال دو جلدیں طبع ہوچکی ہیں تیسری جلد کا انتظار ہے (۲) تفسیر الملتقط :یہ قرآن مجید کی چنندہ اور منتخبہ آیات کی عارفانہ وصوفیانہ تشریحات پرمشتمل عربی تفسیر ہے جو مخطوطہ کی شکل میںلندن کی ایک لائبرری کی زینت بنی ہوئی تھی اس کو پڑوسی ملک پاکستان میں رہنے والے ایک عالمی شہرت یافتہ خطاط مولانا سید انور حسین شاہ نفیس الحسینی ؒ (جو اولاد بندہ نواز سے تھے ) نے اس مخطوطہ کی فوٹو لی اور اسے من وعن طبع کرواکر اسی حالت میں دنیا کے مختلف علاقوں میں پھیلادیا جس سے دنیا کو تقریبا چھ سو (۶۰۰) سال بعد پہلی مرتبہ اس نادر عربی تفسیر کو فوٹو کاپی کی شکل میں دیکھنے کا موقع ملا اس عاجز راقم الحروف کو بھی بارگاہ بندہ نواز کے پائیںمیں واقع کتب خانہ میں اس کتاب کو تقریباً پندرہ تابیس سال قبل اپنے ریسرچ ورک کے دوران دیکھنے کی سعادت نصیب ہوئی تھی۔
بعد ازاں اس کو تصحیح و تحقیق کے لیے دائرۃ المعارف العثمانیہ کے حوالہ کیا گیا تو وہاں سے عربی کی جلد اول اعلی پیمانے پر طبع ہوچکی ہے بعدازاں تقریبا ً( ۲۵۰ ) صفحات پر مشتمل اس کا اردو ترجمہ جلد اول کی شکل میںطبع کیا گیا مزید جلدوں کا انتظار ہے جس کے زائد ازدو ہزار صفحات پر مکمل ہونے کا امکان ہے یہ تفسیر سجادہ نشین بارگاہ بندہ نواز حضرت ڈاکٹر سید شاہ گیسو دراز حسینی صاحب کے بیان کے مطابق دس تا بارہ جلدوں میں منظر عام پر آنے کا امکان ہے تاہم اس کی عربی عبارت کو اردو زبان کا جامہ پہنانے کی لئے حضرت سجادہ نشین صاحب کی نظر انتخاب حیدرآباد کی ایک جانی مانی علمی شخصیت استاذمحترم حضرت مولانا پروفیسرحافظ ڈاکٹر سید بدیع الدین صابری صاحب صدر شعبہ عربی عثمانیہ یونیورسٹی پر پڑی اور تفسیر الملتقط کی اردو ترجمہ کے ساتھ پہلی جلد سورۃ فاتحہ وسورۃ البقرہ وسورۃ آل عمران پر مشتمل دوہزار سترہ(۲۰۱۷ئ) میں حضرت سجادہ نشین صاحب قبلہ کی نگرنی میں آل انڈیا سید محمد گیسو دراز ریسرچ اکیڈمی گلبرگہ کے زیر اہتمام شایان شان انداز میں بہترین پیپر پر شاندار طباعت کے ساتھ شایع ہو چکی ہے ان دو کتابوں کے منظر عام پر لانے کے سلسلہ میں سارے اہل علم کی طرف سے ڈاکٹر سید خسروحسینی صاحب قابل مبارکباد ہیں ۔
حضرت بندہ نواز گیسودرازؒ کا علمی فیضان عصری تعلیم کے میدان میں لڑکے اور لڑکیوں کے لئے سکولس کالجس (جس میں ڈگری کالج ‘ انجینیرنگ کالج و میڈیکل کالج بھی شامل ہیں) ونیز دینی واسلامی تعلیم کے میدان میں دارالعلوم دینیہ بندہ نوازؒ کی صورت میں جاری وساری ہے جہاں سے سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں تشنگان علم سیراب ہوے اور ہورہے ہیں۔
(اخذ واستفادہ از: سیر محمدی مولفہ مولانا محمد علی سامانیؒ ، اخبار الاخیار مولفہ حضرت شاہ عبد الحق محدث دہلوی ؒ ، معارف العوارف مطبوعہ دائرۃ المعارف العثمانیہ ، تفسیر الملتقط (ترجمہ اردو)، لمعات الاسرار سیرت بندہ نوازؒ ،حالات بندہ نواز ؒ مطبوعہ مجلس صفہ صوفیہ، نگارشات ابوالہدا مرتبہ محمد معراج الدین صاحب)
٭٭٭