مضامین

مشرقِ وسطیٰ میں تیل کی نئی سیاست

منور مرزا

تیل کی بڑھتی قیمتوں سے پیدا ہونے والے بحران کی شدت اور اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس نے امریکی صدر، جوبائیڈن کو مشرق وسطیٰ کے ممالک کے سامنے ہاتھ پھیلانے پر مجبور کردیا، حالاں کہ افغان سر زمین سے واپسی پر امریکہ کا کہنا تھا کہ اب اس علاقے سے اس کی دل چسپی ختم ہوچکی اور وہ انڈو چائنا جا رہا ہے۔
صدر جوبائیڈن نے اپنے حالیہ دورے میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، اردن اور اسرائیل کا دورہ کیا۔یہ بھی درست ہے کہ دورے میں عرب، امریکہ تعلقات،شہزادہ محمد بن سلمان اور جوبائیڈن کے درمیان تلخی کے بعد کے معاملات، عرب۔اسرائیل تعلقات میں تیزی، فلسطین کا مسئلہ، عرب، اسرائیل، ہندوستان اور امریکہ کا نیا اتحاد، جسے ” I2U2“ کہا جاتا ہے، ایران کی نیوکلیئر ڈیل اور یمن جنگ مذاکرات کا حصہ رہے، لیکن جس معاملے نے مرکزی اہمیت اختیار کی، وہ تیل کی بڑھتی قیمتیں تھیں، جس نے دنیا کو ہیجان میں مبتلا کر رکھا ہے۔
غریب ممالک کا تو ذکر ہی کیا، امیر اور طاقت ور ممالک بھی اس کے سبب شدید دباﺅ میں ہیں اور عوام مہنگائی کی لپیٹ میں۔ صدر جوبائیڈن کی کوشش تھی کہ وہ سعودی عرب اور یو اے ای کو تیل کی سپلائی میں اضافے پر راضی کریں۔یہ اضافہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ یوکرین جنگ سے روسی تیل کی اہمیت میں جو اضافہ ہوا اور اس کی مانگ بڑھی، اس کا تدارک ناگزیر ہے۔اس کی ایک جھلک تو اسی وقت دیکھی گئی جب جوبائیڈن کے مشرق وسطیٰ کے دورے کا اعلان ہوا۔ تیل کی قیمتیں 130ڈالر فی بیرل سے95 ڈالر تک کم ہوگئیں۔
بائیڈن کی کوشش رہی کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات تیل کی سپلائی میں اتنا اضافہ کر دیں کہ روسی تیل کی ضرورت کم ہوجائے اور قیمتیں نیچے آ کر مستحکم ہوجائیں، جس سے روس پر مالی دباﺅ بڑھے اوراس کی پریشانیوں میں اضافہ ہو، جو پہلے ہی مغربی پابندیوں کی وجہ سے ناقابل برداشت ہوتی جا رہی ہیں۔یہ پالیسی روس کے لیے اسی قسم کی تکلیف کا باعث ہوسکتی ہے، جیسا کہ 1997 ئ میں تیل کی قیمتیں گرنے سے روس کی معیشت ڈیفالٹ پر مجبور ہوئی۔
اس کی تیل اور گیس پر چلنے والی اکانومی یہ جھٹکا برداشت نہ کرسکی۔افغانستان سے واپسی کے بعد امریکہ کے صدر اور سرکاری حلقوں کی طرف سے کہا جارہا تھا کہ امریکہ کے لیے عرب دنیا کی اہمیت ختم ہوگئی اور تیل کی اجارہ داری بھی قصہ پارینہ ہوچکی، لیکن اب لگتا ہے کہ شاید یہ اعلان جلد بازی میں کیا گیا تھا۔یوکرین کی جنگ نے حالات یک سر بدل دیے اور صدر بائیڈن اپنے عرب حلیفوں کو یہ باور کروانے نکل کھڑے ہوئے کہ وہ اب بھی امریکہ کے لیے اتنے ہی اہم ہیں، جتنے پہلے کبھی ہوا کرتے تھے۔اور تیل آج بھی دنیا کے لیے اتنی ہی اہمیت کا حامل ہے، جتنا دوسری عالمی جنگ کے بعد کے عشروں میں تھا، جب ایک نئی ترقی یافتہ دنیا کی بنیادیں رکھی جارہی تھیں۔تیل کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے بخوبی جانتے ہیں کہ اس سیاہ سونے سے ماضی میں بھی ممالک کو جوڑنے، توڑنے کا کام لیا جاتا رہا ہے اور اسے ہتھیار کے طور پر بھی استعمال کیا گیا۔ ان دنوں اس کی قیمت گراوٹ کی طرف ہے اور100ڈالر کے اردگرد ہے۔اس میں دو عناصر اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ اول تیل پیدا کرنے والے ممالک اپنی سپلائی بڑھادیں اور مارکیٹ میں تیل مانگ سے زیادہ ہوجائے، جسے گلٹ کی صورت حال کہا جاتا ہے۔جب کہ دوسرا عنصر تیل کا استعمال ہے۔ اگر یہ کم ہوجائے تو فروخت کرنے والوں کو مارکیٹ میں خریدار نہ ملیں۔ ایک اور صورت کساد بازاری کی بھی ہوسکتی ہے، جس میں تیل کی کھپت کم ہوجائے۔گلٹ کی صورت حال سال بھر قبل دیکھی گئی، جب ایک وقت ایسا آیا کہ تیل کی قیمتیں منفی میں چلی گئیں۔ ترقی یافتہ ممالک، خاص طور پر یوروپی ممالک اور امریکہ کی کوشش ہے کہ وہ اپنے عوام کو تیل کے استعمال میں کمی پر قائل کریں۔اس کے لیے سب سے بڑا فیکٹر تو اس کی بڑھتی ہوئی قیمتیں ہیں، جنہوں نے دیگر اشیاءکی قیمتوں کو بھی اپنے ساتھ بلندی کی طرف کھینچ لیا ہے۔برطانیہ میں دو پاو¿نڈ فی بیرل تیل ہے۔
یہی حال امریکہ بلکہ خود عرب ممالک میں بھی ہے۔ لوگوں کے گھریلو بجٹ میں سو فی صد اضافہ ہوا ہے، جس کی اصل وجہ تیل کی قیمتیں ہیں، جب کہ اشیائے خورو نوش کا عنصر بھی شامل ہے۔1974ء کی عرب، اسرائیل جنگ میں عربوں کو شکست ہوئی، تو سعودی عرب کے فرماں روا، شاہ فیصل نے تیل کی سپلائی کم کردی،”جسے Oil Embargo “کہا گیا۔اس نے امریکہ اور مغربی ممالک میں کہرام برپا کردیا۔تیل کا یہ ہتھیار اس قدر کام یاب رہا کہ یوروپی اور امریکی عوام سردیوں میں ٹھٹھر کر رہ گئے کہ گھر گرم کرنے کے لیے تیل نہیں تھا اور پھر دنیا نے کیمپ ڈیوڈ اور عرب، فلسطین، اسرائیل مذاکرات ہوتے دیکھے۔
فلسطینی ریاست وجود میں آئی۔ مشرق وسطیٰ کی گرما گرم سیاست میں کچھ افاقہ ہوا۔اسی تیل کی سیاست کو گزشتہ صدی کے آخر میں روس کو اقتصادی طور پر دیوالیہ کرنے کے لیے استعمال کیا گیا، جس کے بجٹ کا انحصار تیل اور گیس پر ہے۔گو صدر پوٹن نے بہت احتیاط سے کام لیا اور یوکرین پر حملے سے پہلے اپنے خزانے میں 600 بلین سے زاید ڈالرز محفوظ کیے، لیکن یہ کب تک چلیں گے، اسی لیے وہ مارکیٹ سے تیس فی صد کم پر تیل فروخت کرنے پر مجبور ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر تیل کی قیمتیں90 ڈالر یا اس سے کم ہوتی ہیں، تو کیا ان کے لیے تیس فی صد کم پر تیل فروخت کرنا ممکن ہوگا۔ اگر جو بائیڈن نے سعودی عرب کو تیل کی سپلائی کم کرنے پر راضی کر لیا، تو روس کے لیے مشکلات بہت بڑھ جائیں گی، کیوں کہ اسے اس کمی کو پورا کرنے کے لیے اشیائے خورو نوش، خاص طور پر گندم کو بھی کم قیمت پر مارکیٹ میں لانا پڑے گا۔
جو بائیڈن کا مشرق وسطیٰ کا دورہ تیل کی سیاست میں کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک کس حد تک روس کے خلاف تیل کے ہتھیار کے استعمال پر راضی ہوں گے۔ایک تو ان کے روس سے بہتر تعلقات ہیں، پھر روس اوپیک پلس کا رکن ہے۔تیسرے اوباما دور میں جس طرح امریکی حکومت نے مشرقِ وسطیٰ سے جانے کا شور مچایا، وہ انہیں کیسے اس امر پر اعتماد دے گا کہ اوباما دور کے نائب صدر، جو اب امریکی صدر ہیں، ان سے وفا کریں گے۔
جو بائیڈن کے لیے یہ مشکل سفارت ہے۔ انہوں نے اقتدار میں آنے کے بعد انسانی حقوق کے معاملے پر ولی عہد محمد بن سلمان سے جو رویہ اپنایا، وہ مذاکرات میں مشکلات کا باعث ہوسکتا ہے۔گو، صدر اردغان سعودی عرب کا دورہ کرچکے ہیں اور ولی عہد ترکی کا، لیکن ولی عہد اپنے کارڈ بہت احتیاط سے کھیلیں گے۔ شہزادہ محمد بن سلمان سعودی عرب کو جدید دنیا کے قریب لانے کی کوشش کر رہے ہیں،جسے قدامت پسند طبقہ آسانی سے ہضم نہیں کرے گا۔امریکہ اور مغربی ممالک کو صبر سے کام لینا ہوگا۔تبدیلی اور وہ بھی معاشرتی تبدیلی، ایک دن میں نہیں آتی۔ ولی عہد اپنی اصلاحات آگے بڑھانے کے لیے اپنے اقتدار کی ضمانت چاہیں گے۔نیز، ایران سے نیوکلیئر ڈیل میں اپنی شرائط منوانا بھی ان کے لیے اہم ہوگا۔ ابھی نیوکلیئر ڈیل طے ہونے کے مراحل میں ہے، گو اس بار سعودی عرب نے ایران سے براہ راست بھی رابطہ رکھا ہے۔
مشرق وسطیٰ میں سفارت و سیاست کا نیا دور شروع ہوچکا ہے۔امریکہ کی یہاں دل چسپی کم ہونے کے بعد عربوں نے اسرائیل سے تعلقات قائم کیے۔ یہ ٹرمپ کا دور تھا، جس میں اسرائیل اور عرب ممالک کے درمیان کئی معاہدے ہوئے۔غالباً اس کا ایک اثر یہ بھی ہوا کہ ترکی کے اردغان، جو اسرائیل سے تعلقات تقریباً ختم کرچکے تھے اور دشمنی کی حد تک جارہے تھے، دوبارہ سفارتی تعلقات قائم کرنے پر مجبور ہوئے۔اب ترکی اور اسرائیل ایک دوسرے کے دوست ہیں۔ شاید اردغان نے یہ بھی دیکھا کہ جب خود عرب ممالک بلکہ فلسطینی حکومت تک اسرائیل سے مذاکرات پر آمادہ ہے، تو ترکی کیوں اسرائیل سے دشمنی مول لے۔ ویسے بھی عالمی سیاست میں کوئی مستقل دوست ہوتا ہے نہ دشمن، اہم قومی مفادات ہوتے ہیں، جنہیں عقل مند قومیں جذبات سے بالاتر ہو کر استعمال کرتی ہیں اور اپنے عوام کو فائدے پہنچاتی ہیں۔ایران بھی، جو اسرائیل کا سب سے بڑا دشمن تھا، اس حقیقت کو بھانپتے ہوئے سعودی عرب سے نہ صرف مذاکرات کر رہاہے بلکہ شاید جو بائیڈن کے دورے کے بعد کوئی معاہدہ بھی سامنے آجائے، جس کے بعد نیوکلیئر ڈیل کی بحالی ممکن ہوجائے گی۔اس طرح مشرق وسطیٰ میں سعودی، ایران مقابلہ اختتام کو پہنچے گا۔
اسرائیل کے مشرق وسطیٰ میں داخلے بلکہ عرب سیاست میں سفارتی تعلقات کے ذریعے داخلے کی وجہ سے بڑی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ جو بائیڈن پہلی مرتبہ اسرائیل سے براہ راست ریاض پہنچے۔ امریکہ کی زیر سرپرستی مشرق وسطیٰ میں ایک نیا اتحاد جنم لے چکا ہے،جسے I2U2 کا نام دیا گیا ہے۔اس گروپ کے قیام کا خیال ایک سال قبل آیا تھا،جس کا مقصد فوڈ سیکورٹی اور بین الاقوامی تعاون بتایا گیا۔ اردغان نے گزشتہ مہینوں میں امریکہ، ناٹو، یوروپ، اسرائیل اور سعودی عرب سے تعلقات بحال کیے۔واضح رہے، عالمی تعلقات میں قومی مفادات کو اندرونی سیاست کے لیے داﺅ پر لگانے جیسا جذباتی فعل عوام کو بہت مہنگا پڑ سکتا ہے۔کیوبا، ارجنٹائن کے انقلابی رہنماﺅں نے شہرت تو حاصل کرلی، لیکن عوام کو قلاش کردیا، جو آج بھیک مانگ رہے ہیں۔مصر، شام ، عراق، لیبیا، یمن اور دوسرے ممالک ایسے ہی انقلابی لیڈروں کی وجہ سے آج تباہ حال ہیں۔چین جیسا طاقت ور ملک بھی روس کے فوجی اقدام کی حمایت کا تصور نہیں کرسکا۔وہ مستقل امریکہ، یوروپ، جنوب مشرقی ایشیا اور مشرق وسطیٰ کو انگیج کر رہا ہے کہ یہ اس کے مال کی منڈیاں ہیں اور امن کے لیے بھی ضروری۔ ہندوستان کو اپنے تمام انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے باوجود یہ ممالک اور بڑی طاقتوں کے ساتھ چلنے کی پالیسی کے فوائد مل رہے ہیں۔روس سے اس نے کم قیمت کا تیل خریدا لیکن کسی بھی مغربی اور امریکی اتحاد سے دور نہیں ہوا۔وہ روس کی مجبوری بنا ہوا ہے نہ کہ روس اس کی۔
صدر بائیڈن نے اپنے دورے میں اسرائیل میں دو دن قیام کیا، انہوں نے غزہ کا بھی دورہ کیا اور فلسطین کے صدر محمود عباس سے ملے۔امریکہ کی خواہش ہے کہ عرب، اسرائیل اور فلسطین کو ایک میز پر بٹھا کر اس مسئلے کا کوئی حل تلاش کرے۔ اس سلسلے میں فلسطین، اسرائیل کے براہ راست مذاکرات کے کئی دور ہوچکے ہیں، جو آج کل معطل ہیں۔صدر بائیڈن نے اس اجلاس میں بھی شرکت کی، جس میں خلیج کے ممالک کے علاوہ عراق ،سوڈان،مصر اور نائجیریا کے سربراہ شریک ہوئے۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ عرب،افریقی مسلم ممالک اور اسرائیل کو ایک جگہ جمع کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ان افریقی ممالک کے اسرائیل سے سفارتی تو نہیں، البتہ تجارتی تعلقات ضرور ہیں،جب کہ کچھ تو مشترکہ فوجی مشقیں بھی کرتے ہیں۔ بہرحال مشرق وسطیٰ اور انڈوچائنا بدل رہا ہے۔ تمام ممالک اپنے آپ کو اس کے مطابق ایڈجسٹ کر رہے ہیں۔٭٭٭