مین ہول
حمید عادل
ہم ایک عرصے تک Manhole کو Mainhole سمجھتے رہے کہ سڑک کے بیچوں بیچ پڑارہنے والا یہ سوراخ بڑا ہی اہم ہوتا ہے کیونکہ اسی سے ہوکر ہرقسم کا اچھا برا گزرتا ہے اور اگر یہاں رکاوٹ پیدا ہوجائے تو پھر ’’ رکاوٹ کے لیے کھید ہے‘‘ جیسا پامال جملہ بھی کارگر ثابت نہیں ہوسکتا۔
مین ہول ، اس سوراخ کو کہتے ہیں جس میں آدمی آسانی سے داخل توہوسکتا ہے لیکن بہت کم جیالے ہی اس میں اترنے کی جرأت کر پاتے ہیں۔آدمی ہزاروں میل کا فاصلہ طے کر کے چاند پر اُترتا ہے اور اُتر کر اِترا تا پھرتا ہے لیکن ہماری ناقص رائے میں وہ آدمی زیادہ باوقار اور قابل احترام ہے جو اپنی زندگی اور عزت و رتبے کی پرواہ کیے بغیر کسی جانباز سپاہی کی طرح مین ہول میں اتر پڑتا ہے ۔اب یہ الگ بات ہے کہ چاند اورمین ہول دونوں ہی گول ہوتے ہیں لیکن مین ہول میں اترنے والا چاند پر اترنے والے سے برتر ہے کیونکہ چاند سے تو بچہ بچہ محبت کرتا ہے لیکن کون ہے جومین ہول کو گلے لگائے،اس کے اندر اتر کر اس کی گہرائی ناپے، اس کے درد کو محسوس کرے ،اسے اپنی بانہوں میں بھرے!
ایک دور تھا جب شہر حیدرآباد میں صاف و شفاف پانی کے چشمے ابلا کرتے تھے لیکن آج یہاں ابلتے مین ہولس کی بہتات ہے ۔چنانچہ چارمینار ، قلعہ گولکنڈہ اور دیگر تاریخی عمارتوں کے ساتھ ساتھ ابلتے مین ہولس کو سادہ لوح بیرونی سیاح چشمہ صاف کر کرکے دیکھا کرتے ہیں کہ کہیں یہ تاریخی چشمے تو نہیں!شاید محکمہ ٔ بلدیہ اس عیب کو بھی ہنر سمجھنے لگا ہے ،چنانچہ وہ اس قدر لاپرواہ ہوچکا ہے کہ ابلتے مین ہولس کی تعداد میںدن بہ دن غیر معیاری فلموں کی تعداد کی طرح اضافہ ہی ہوتاجارہاہے۔وہ گلی یا محلہ ہی کیا جس میں ایک آدھ مین ابلتا ہوا نظر نہ آجائے۔ چمن بیگ کو تو ڈر ہے کہ کہیں ارباب مجاز ابلتے مین ہولس کو چشمے قرار دے کر ان کے مشاہدے کے لیے باقاعدہ ٹکٹ نہ مقرر کردیں!
ہمارے محلے میں جو مین ہول ہے ، وہ نزلے کا شکارکسی ناک کی طرح مسلسل بہہ کر ایک نئی تاریخ رقم کررہا ہے ۔دلی کئی بار اجڑی اور کئی بار آباد ہوئی لیکن ہمارے محلے کا مین ہول پچھلے ایک سال سے مسلسل اجڑتا رہا ہے ۔ محکمہ ٔ بلدیہ کا قابل عملہ اس کی مرمت کرتا ہے تو لگتاہے جیسے اب یہ کبھی نہیں ابلے گا لیکن کچھ ہی دنوں بلکہ کچھ ہی گھنٹوں بعد وہ اپنی پرانی روش پر آجاتا ہے ۔ہم سوچتے ہیں کہ یہ مین ہول ہے یا لیڈروں کا ذہن ۔ چنانچہ لوگ گناہوں سے اپنا دامن بچائیں یا نہ بچائیں ، یہاں کی گندگی سے ضرور اپنا دامن بچا بچا کر گزرتے ہیں۔ جب بھی ہم خود مین ہول کے قریب پہنچتے ہیں،ہمارا پتلون خود بخود ٹخنوں سے اونچاہوجاتا ہے، سانسیں تھم سی جاتی ہیں اورہم قدموں کو کچھ اس انداز سے اٹھاتے ہیں کہ گویا ہوا میں اڑرہے ہوں۔ایک دفعہ ہمیں تاج محل کا گیت یاد آنے لگا کہ ’’پاؤں چھولینے دو، پھولوں کو عنایت ہوگی … . اور پھر ہمیں اپنے وقتوں کی معروف حسینہ بینا رائے یاد آگئی جس نے ہماری طرح ہی سنبھل سنبھل کر پاؤں اٹھائے تھے۔ ایک دن ہم احتیاط علی محتاط بن کر مین ہول کے ابلتے پانی سے بچتے بچاتے بازار جارہے تھے کہ ایک برق رفتار کار ہمارے قریب سے ایسے گزری کہ دوسرے ہی لمحے ساری گندگی ہمارے کپڑوں پر اچھل گئی۔پتا نہیں کیوں بیشترموٹر نشین حضرات ہم جیسے پیدل حضرات کو خاطر میں نہیں لاتے، شایدوہ سمجھتے ہوں کہ سڑکیں موٹر نشینوں کے لیے بنی ہیں ،پیدل چلنے والوں کے لیے نہیں ۔ ہم دل ہی دل میں موٹر نشین کی بے حسی پر کڑھ رہے تھے کہ ایک زور دار قہقہہ ہماری دیوارِسماعت سے ٹکرایا۔ہم ہونقوں کی طرح اِدھر اُدھر دیکھنے لگے تو آواز آئی ’’ یہاں وہاں کیا دیکھ رہے ہو ؟ میں مین ہول بات کررہا ہوں ۔‘‘ ’’ تم …؟‘‘ہم نے اپنی بیٹھی ہوئی آواز کو اٹھاتے ہوئے سوال داغااور پھر شرما کر وضاحت کر ڈالی ’’ معاف کرنا …ہماری آواز ذرا بیٹھی ہوئی ہے ۔‘‘ ’’ اٹھی ہوئی آواز کوبیٹھی ہوئی نہ کہیں ظل الہیٰ!‘‘ مین ہول کی بات میں وزن تھا،کیونکہ جب جب ہماری آواز بیٹھتی ہے ہم خود کو فلم ’’ مغل اعظم ‘‘کے پرتھوی راج کپور یعنی شہنشاہ ہند جلال الدین محمداکبر تصور کرنے لگتے ہیں ۔ نجانے ہم میں کہاں سے طوفانوں کا رخ موڑنے بلکہ انہیں منہ توڑ جواب دینے کا حوصلہ آجاتا ہے ۔ ہمیں اپنی آواز اتنی پیاری لگنے لگتی ہے کہ ہم راہ چلتے چلتے دیوانہ وار بڑبڑانا شروع کردیتے ہیں تاکہ ہم اپنی بیٹھی ہوئی بارعب آواز سن سکیں ۔ دل میں یہ خیال چپکے چپکے انگڑائیاں لینے لگتا ہے کہ ہماری آواز یوں ہی بیٹھی رہے تاکہ ہم خود کو ظل الہیٰ اور ظل سبحانی تصور کرتے رہیں۔ کیا ہوا اگر ہم نحیف و نزار ہیں، پتلی تو تلوار بھی ہوتی ہے لیکن جب جب وہ میان سے نکلتی ہے تو دشمنوں کے سر قلم کرکے رکھ دیتی ہے اور پھر قلم بھی تو کتنا پتلا ہوتا ہے لیکن وہ اچھے اچھوںکی دال پتلی کردیتا ہے یا پھر ان کی پتلیاں پھرا دیتا ہے ۔ ہم ان ہی خیالات میں غلطاں و پیچاں تھے کہ مین ہول نے اچانک ہم پر سوال دے مارا’’ تمہیں پتا بھی ہے میں بار بار کیوں آباد ہورہا ہوں اور کیوں بار بار اجڑ رہا ہوں ؟‘‘ ہم نے سر ہلا کر لا علمی کا اظہار کیا تو مین ہول چہک اٹھا ’’ میرا کھلم کھلا استحصال ہورہا ہے ، تم نے لوگوں کو بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتے دیکھا ہوگا لیکن کچھ مفاد پرست بہتے مین ہول میں بھی ہاتھ دھولیتے ہیں ۔ وہ چاہتے ہیں کہ میں یوں ہی ابلتا رہوں تاکہ ن کی جیبیں نوٹ اگلتی رہیں۔‘‘ ’’ تم کتنے سمجھدار ہو،کیسی کیسی فلسفیانہ باتیں کررہے ہو! ‘‘ ہم نے معمولی مین ہول کے غیر معمولی خیالات پراپنے خیالات کا اظہار کیا تو اس نے کہا ’’ میں سیانا ہی نہیں ،بہت بڑے جگر کا مالک بھی ہوں۔ دنیا جہاں کی گندگی سے ہر وقت نبردآزما رہتا ہوں لہٰذا میںسمجھتا ہوں کہ میں کسی فلمی ہیرو سے کم نہیں!‘‘ آخری جملہ سن کر ہم زیر لب مسکرااٹھے تو وہ طیش میں آگیا ’’ کیا تم میری باتوں کو مذاق سمجھ رہے ہو؟‘‘’’ نہیں …‘‘ ہم نے مختصر سا جواب دیا۔’’ شایدتم یہ سوچ کرمجھ پر ہنس رہے ہو کہ ایک آلودہ اور تعفن کا مسکن کہلائے جانے والا مین ہول کیسے کوئی ہیرو ہوسکتا ہے ، ہیرو تو زندگیاں بچاتا ہے اور ظالموں کو کیفر کردار تک پہنچاتا ہے تو سنو … میںبھی یہ سب کچھ کرسکتا ہوں بلکہ کرچکا ہوں۔‘‘ ہماری حیرانی کو تاڑ کر مین ہول نے ہم پر طنز کرتے ہوئے کہا ’’ تم کیسے صحافی ہو، شاید اخبارات کا مطالعہ نہیں کرتے ، آج سے کئی سال قبل ایک ضعیف العمر بلکہ ضعیف العقل شخص کے ہاں ایک معصوم سی لڑکی صراط مستقیم کا پیام دینے والی کتاب پڑھنے آیا کرتی تھی۔وہ کم ظرف بھلاکیا اس لڑکی کو راستہ دکھاتا جو خود گمراہ تھا۔چنانچہ اس جنونی درندے نے نہ صرف اس لڑکی کے ساتھ منہ کالا کیا بلکہ اپنی کالی کرتوتوں کو چھپانے کی خاطر نہ صرف اس لڑکی کا قتل کردیا بلکہ بڑی بیدردی سے اس کے جسم کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کرکے پانی میں بہا ڈالے اورسمجھ بیٹھا کہ اس کا یہ گھناونا جرم پردہ خفا میں رہ جائے گا۔میں نے جب پائپ لائن سے بہتے ہوئے کسی معصوم کے گوشت کے لوتھڑوں کو دیکھا تو لرز گیا،غم و غصے کی ایسی کیفیت مجھ پر طاری ہوگئی کہ میں بے ساختہ ابل پڑا۔ چونکہ صدمے کی بدولت میری کارکردگی منجمد ہوکر رہ گئی تھی، اس لیے جب موریوں کے پانی کی نکاسی کی شکایت عام ہوئی تو مین ہول کے ڈھکن کو کھولا گیا اور دنیا جان گئی کہ انسانی جسم کے مختلف اعضا پائپ لائن میں پھنسے ہوئے ہیں ۔اس طرح قانون کے ہاتھ پہلے اس درندہ صفت انسان کے گھر تک پہنچے اور پھر اس درندے تک …‘‘ ہم مین ہول کی باتیں سن کر دنگ رہ گئے اور سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ یہ مین ہول دنیاجہاں کی گندگی اپنے دامن میں رکھنے کے باوجود اپنے کردار میں کتنی شفافیت رکھتاہے۔دریں اثنا مین ہول گویا ہوا’’ میں انہیں بھی قطعی انسان نہیں سمجھتا جو اپنی ذہنی گندگی سے برآمد ہونے والی کسی معصوم زندگی کو گندگی سمجھ کر مین ہول کی نذر کرجاتے ہیں اور یہاں سے اٹھنے والا بچہ جب جوان ہوتا ہے تو پھر وہ زندگی بھر یہی مکھڑا گنگناتا رہ جاتا ہے ’’مجھ کو پیدا کیا سنسنار میں دو لاشوں نے، اور برباد کیا قوم کے عیاشوں نے ، تیرے دامن میں بتا موت سے زیادہ کیا ہے ، زندگی اور بتا تیرا ارادہ کیا ہے ؟ ‘‘ فلم ’’ لاوارث‘‘ میں امتیابھ بچن کا یہ مکالمہ مجھے بے انتہامتاثر کرگیا تھا جو وہ فلم کی مغرور ہیروئن سے کہتا ہے کہ ’’ گندی نالی کا کیڑا وہ ہوتا ہے جو نہ جیتا ہے نہ مرتا ہے ، موت بھی کم بخت اسے نہیں آتی، چھوڑ جاتی ہے تم جیسوںکے طعنے سننے کے لیے ۔‘‘جب گندی نالی کے کیڑے کا ذکر چل پڑا ہے تو مجھے فلم ’’ ہم‘‘ میں امیتابھ ہی کا کہا گیا ایک اور مکالمہ یاد آرہا ہے کہ ’’ اس دنیا میں دو طرح کے کیڑے ہوتے ہیں ، ایک وہ جو کچرے سے اٹھتا ہے اور دوسرا وہ جو پاپ کی گندگی سے اٹھتا ہے ۔‘‘میں سمجھتا ہوں کہ پاپ کی گندگی سے اٹھنے والا کیڑا کچرے سے اٹھنے والے کیڑے سے خطرناک ہوتاہے کیونکہ کچرے کا کیڑا تو کچرے ہی میں خوش ہوتا ہے لیکن پاپ کی گندگی والا کیڑا ساری دنیا کو گندہ کردینے کے درپے ہوتا ہے ۔ مجھے اس وقت بے انتہا مسرت ہوئی تھی جب ایک رسوائے زمانہ موذی نیتا کو ’’گندی نالی کا کیڑا ‘‘ کہا گیا لیکن اس ریمارک کو سن کر گندی نالی کے کیڑے برا مان گئے تھے کہ ہم اتنے ظالم تونہیں کہ ماں کے پیٹ کو چیر کر کسی معصوم زندگی سے کھلواڑ کریں،ہم اتنے بے حس بھی نہیں کہ بے وجہ بے شمار زندگیوں کو جلا کر راکھ کردیں۔‘‘
اور پھر قدرے توقف سے مین ہول گویا ہوا: ’’ نیتاؤں کا ذکر چل پڑا ہے تو مجھے کہنے دو کہ بے شک آزادی کے بعد ہمارے ملک نے ترقی کے نام پر آسمان کی بلندیوں کو چھولیا ہے ، لیکن زمینی حقیقت یہ ہے کہ آج تک موریاں بھی ٹھیک طورپر تیار نہیں کی جاسکیں، حیدرآباد میں تو حضور نظام کی بچھائی ہوئی ڈرنیج لائن آج بھی استعمال ہورہی ہے ،ایسی ترقی پر مجھے خوشی نہیں افسوس ہوتا ہے۔میں ابلتا اس لیے ہوں کہ اپنی ناراضگی کا اظہار کروں، دراصل میںابل کر یہ بتانا چاہتا ہوں کہ میں اس کرپٹ ماحول سے تنگ آچکا ہوں ۔مجھے بے حس انسان اور دم توڑتی انسانیت کو دیکھ کر بڑی کوفت ہوتی ہے۔ یہ کیسا پر آشوب دور ہے کہ ایک آدمی مین ہول کا ڈھکن چراتا ہے اور دوسرا، اسی مین ہول میں گرپڑتا ہے…..
مین ہول بے تکان کہے جارہا تھا،ا س کی باتوں میں سچائی تھی،کسک تھی، تڑپ تھی ۔اس کی باتوں نے ہمیں گم صم سا کردیا تھا اورہمیں اپنے انسان ہونے پر ندامت سی محسوس ہونے لگی تھی۔ ہم سوچنے لگے کہ انسان ’’ بندہ ، گندہ‘‘ کا نعرہ مار کر ہر طرف ہرطرح کی گندگی پھیلا نا اپنا پیدائشی حق تصور کرتا ہے اور ایک یہ مین ہول ہے جس سے ہروقت تعفن اٹھتا ہے ،لیکن اُن معطرجسموں سے بہتر ہے جو خود چلتے پھرتے مین ہول سے کم نہیں !
۰۰۰٭٭٭۰۰۰