طنز و مزاحمضامین

میں نہیں، وہ ہو تم

نصرت فاطمہ

آج ہم آپ کے(بیک وقت) دیرینہ رفیق اور دائمی دشمن کی قید کو لے کر کچھ کہنا چاہتے ہیں۔ شکر الحمد للہ کہ رمضان المبارک جاری ہے اور جملہ شیاطین پابند سلاسل بھی ہوچکے۔
اور کئی خامیوں اور غلطیوں کے پتلے ہم، ہمیں بھلا شیطان کی کیا ضرورت؟
اس احساس اور سوال کے ساتھ یہ مبارک ماہ گزرا چلا جا رہا ہے اور کہیں قید میں سزا کاٹ رہا شیطان سرگوشی سی کرتا ہے کہ ”میں نہیں، وہ ہو تم“ تب ہم اک پل کے لیے گھبرا سے جاتے ہیں۔ پھر دوسرے پل خود کو تسلی دے لیتے ہیں کہ وہم تو انسانی فطرت ہی ٹھہرا۔ لاحول ولا قوۃ الا باللہ پڑھ کر خود کو مطمئن کرلیتے ہیں۔ یہ ضمیر کی پکار ہی ہوتی ہے۔ شاید جو انسان کو جگا کر انسان بنانا چاہتی ہے، لیکن انسان تو ”سونے“ کا اتنا لالچی اور شائق ہے کہ ضمیر کو بھی سلا بیٹھتا ہے۔
ویسے سو کر روزہ گزارنے والے ایک بات کے شکر گزار ضرور رہتے ہوں گے کہ اتنا وقت سو کر گزار دیا، جاگتے رہتے تو پتا نہیں کتنی غلطیاں کر بیٹھتے۔ اچھا ہے کہ سو کر گناہوں سے بچے رہے، مگر یہ تو خود کو تسلی دینے والی بات ہوئی.۔ہم تو ان حضرات سے یہی کہنا چاہیں گے کہ زیادہ سونے سے نہ صرف آپ کا چہرہ مبارک بھاری ہوگا بلکہ عین ممکن ہے کہ بدن مبارک پر بھی اس کے ”بھاری“ اثرات مرتب ہوں گے۔ ہوسکتا ہے کہ عید تک آپ پہچانے ہی نہ جائیں! خود بھاری ہونے کے بجائے اپنا نامہ اعمال بھاری کرنے کی کوشش کیجئے۔ اس لیے اچھا یہی ہے کہ چاق و چو بند رہیے اور عبادات وقت پر انجام دیجئے اور ہاں یاد رہے کہ شیطان کے مقفل ہونے کے بعد اب جو کچھ آپ کریں گے تو جان لیجئے وہی آپ کی حقیقت ہے اور شیطان آپ کے نفس کو کس حد تک مسخ کر چکا ہے! پچھلے گیارہ ماہ کے وار کا اندمال اور اگلے گیارہ ماہ کی مشق یہی مہینہ ہے! روزے کا مقصد صرف خود بھوکا رہنا نہیں بلکہ نفس کو بھی اس کی من مانی سے بھوکا رکھ کر تربیت کرنا ہے! کہ جب ہم رب کے حکم کے زیرِ اثر حلال اشیاء (کھانا، پینا وغیرہ) سے پرہیز کر سکتے ہیں تو یقینا ہم ربّ کی حرام کردہ اشیاء سے بھی دور رہ سکتے ہیں! سو، بہتری کی کوشش کرتے ہیں، ان شاء اللہ!
رمضان المبارک میں کسی سے ملو تو روزے کیسے جارہے ہیں کے سوال کے بعد الحمد للہ کا جواب ملتا ہے اور پھراکثرافراد وقت کی کمی اور نیند کی کمی کی شکایت کرتے نظر آتے ہیں۔ اور ایک ادنیٰ سے انسان ہونے کے ناطے ہم بھی اسی کمی کا شکار ہیں اور جو لسٹ بنائی گئی تھی رمضان المبارک میں انجام دیے جانے والے بے شمار کاموں کی، اس حساب سے ہم کافی پیچھے چل رہے ہیں۔ وجوہات وہی انسانی فطرت… اور وہی ہم… ویسے ہم گھر کے کاموں کی نہیں، خود کو سدھارنے والے کاموں کی بات کررہے ہیں۔ (ان شا اللہ العزیز اس میں بھی کامیابی کی امید تو ہے۔) خواتین رمضان المبارک کی آمد اور اس کی تیاری کو لے کر کافی پر جوش ہوتی ہیں۔ کچن کی ازسر نو صفائی سے لے کر گھر کی ہر چیز کو دھو ڈالتی ہیں۔ (بچوں اور شوہر سمیت)
تو میری پیاری خواتین! آپ جو کررہی ہیں بہت خوب کررہی ہیں۔ یقیناً اب آپ عید کی تیاریاں کررہی ہوں گی۔ ان تیاریوں کو لے کرکچھ باتیں ہم آپ سے کہنا چاہتے ہیں۔ یہ ہم نے بھی کہیں پڑھا تھا اور یہ باتیں ہمیں بالکل درست لگیں۔
٭فالتو چیزیں،خراب ہو جانے والی چیزیں سنبھال سنبھال کر نہ رکھیں۔یہ اصول رکھیں کہ اتنی چیزیں ہونی چاہیے کہ صرف ضرورت کی چیزیں ہوں جو سامنے ہوں۔
٭چیزوں کو بہت اسٹور کرکے نہ رکھیں۔
مثلا اپنے فریزر، ڈیپ فریزر وغیرہ کا جائزہ لیجئے۔
٭اپنی الماریوں، کپڑوں، جوتوں، جیولری، بیگز وغیرہ کودیکھئے کہ ہم ضرورت سے بھی زیادہ خریدتے جا رہے ہیں۔ اسی طرح دینے کی عادت اپنائیں۔ضرورت کی چیزیں دیتے جائیں۔ صرف ضرورت کی چیزیں ہم رکھناشروع کردیں تو ہماری الماریاں اور گھر ہلکے پھلکے ہوجائیں۔
٭کیا آپ نے اتنا سامان اکٹھا کر لیا ہے کہ اس کا خیال رکھنے میں، مثلاً صفائی وغیرہ آپ کا زائد وقت، صحت،پیسہ لگ رہا ہے؟
تو جان لیجئے کہ سامان،ڈیکوریشن پیسز، فرنیچر اور کپڑے وغیرہ ہی اس کے ذمہ دار ہیں۔
٭اپنے گھر پر نظر ڈالیے۔ کیا یہ گھر ہے یا مکان؟ گھر وہ نہیں ہوتا جہاں پر سب مل کر بیٹھ نہ سکیں، ایک دوسرے کی طبیعت،مسائل کا علم ہی نہ ہو۔ اپنے گھر کو مکان نہ بننے دیں۔ایسا بنائیں کہ اگر گھر کے کسی فرد کی ہائے،کھانسی کسی بھی اور مسئلے کا پتہ چلے تو سب کو فکرہو اور سب خیال رکھنے والے ہوں۔ گھروں کو صرف اچھے فرنیچر ڈیکوریشن پیسز سے نہ سجائیے۔ بلکہ ایک دوسرے کے ساتھ اچھے رویوں، ایک دوسرے کی کیئر سے گھر سجتے ہیں۔
٭یاد رکھیے کہ یہ گھر کا سازو سامان آپ کی خدمت کے لیے ہے۔آپ اس کے خدمت گزار نہ بن جائیے۔
٭مہمان کی عزت کیجئے،کھلائیے، پلائیے لیکن تکلفات اور اسراف سے بچیے۔ سادگی اپنائیے۔
٭زندگی کی ضرورتوں کو زندگی کا مقصد نہ بنالیجئے۔ سوچیے کہ ہم زندگی کن کاموں میں گزار رہے ہیں۔ کس گھر کے لیے خود کو تھکا رہے ہیں جہاں چند دن رہنا ہے۔
٭یا اس گھر کے لیے جہاں ہمیشہ رہنا ہے۔