طنز و مزاحمضامین

کنجوس مکھی چوس

زکریا سلطان

کنجوس کی کوئی عزت نہیں کرتا، اس کے برعکس مخیر اور فراخدل کی سب ہی تعظیم کرتے اور اسے قدر و منزلت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ہم بچپن سے کنجوس مکھی چوس کے الفاظ سنتے آئے ہیں اور کنجوس یا بخیل سے لوگوں کو نظر بچاتے اور نظر چراتے دیکھا ہے یعنی کنجوس کو لوگ اچھا نہیں سمجھتے اور اسے ٹیڑھی نظر سے دیکھتے ہیں کیوں کہ اس کی ذہنیت اور چال ہی ٹیڑھی ہوتی ہے، نیت میں بھی کھوٹ ہوتی ہے، وہ چاہتا ہے کہ چمڑی جائے پر دمڑی نہ جائے۔پہلے ہمیں کنجوس مکھی چوس کا مطلب معلوم نہیں تھا پھر ہوش و حواس سنبھالنے کے بعد کسی نے بتایا کہ ایک شخص آخری درجہ کا بخیل تھا، کھانا کھاتے بیٹھا تھا کہ کڑھی کے کٹورے میں مکھی گر گئی جس پر اسے بہت ملال ہوا کہ مکھی کے پروں اور جسم پر کڑھی کے لگنے سے اس کا کافی نقصان اور خسارہ ہوا ہے، اس نے فوری کٹورے سے مکھی نکالی اور اسے دباکر چوسا اور پھر مکھی کو کوڑے دان کے حوالے کرکے اطمینان کی سانس لی کہ اب خسارے کی پابجائی ہوگئی ہے۔ اس وقت سے وہ اور اس کی قماش کے سب ہی بخیل ”کنجوس مکھی چوس“ کے نام سے مشہور ہوگئے اور ان پر ایک مخصوص ٹھپّہ لگ گیا جو آج تک جاری ہے۔ بخل سے دین اسلام نے بھی منع کیا ہے اور خیر کے تمام کاموں میں دل کھول کر مال خرچ کرنے کی تاکید کی ہے جس پر بہت اجر و ثواب کی بشارت بھی دی گئی ہے، یہی وجہ ہے کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والوں کی لوگوں کے دلوں میں عزت ہوتی ہے اور وہ ان کا احترام کرتے ہیں، جنت کے مزے تو ان کے لیے ہیں ہی جہاں وہ اپنے خرچ کردہ مال میں بہت زیادہ خیر و برکت،نفع اور فراوانی پائیں گے۔ رہی بات مکھی چوسوں کی تو وہ بے چارے ہمیشہ اس فکر میں رہتے ہیں کہ کس طرح مال کو روک کر اور پکڑ کر رکھا جائے، وہ مال سے چمٹے رہتے ہیں اور گن گن کر رکھتے ہیں ہمیشہ فکر و پریشانی میں مبتلا اور مال کے خرچ ہوجانے پر غمگین اور اداس ہوجاتے ہیں، ان کی کوشش ہوتی ہے کسی نہ کسی طرح مال میں اضافہ کیا جائے اور اسے سینت سینت کر رکھا جائے، حلال و حرام جائز و نا جائز کی قید سے وہ آزاد ہوکر بس مال بڑھانے اور جمع کرنے کی فکر میں لگے رہتے ہیں یہاں تک کہ قانون کی بھی پروا ہ نہیں کرتے جس کے نتیجہ میں کبھی قانون کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں، ناکام اور بدنام بھی ہوجاتے ہیں، کیو ں کہ برے کام کا برا نتیجہ ہی نکلتا ہے.
ماضی کے ہندی فلموں میں کچھ نہ کچھ بلکہ بہت کچھ نصیحت، عوام کے لیے ایک پیغام، دل بہلائی، صاف ستھری صحتمند کہانی، دل لگی اور دل کو چھولینے والے نغمے ہوا کرتے تھے جس کا ماحول و معاشرہ پر ایک اچھا اثر پڑتا تھا مثلاً ایک مشہور گانا تھا غریبوں کی سنو وہ تماری سنے گا، تم ایک پیسہ دوگے وہ دس لاکھ دے گا، اور سجن رے جھوٹ مت بولو خدا کے پاس جانا ہے نہ ہاتھی ہے نہ گھوڑا ہے وہاں پیدل ہی جانا ہے وغیرہ اس کے بعد پھر ایک ایسا دور آیا جس میں ہم تم ایک کمرے میں بند ہوں اور چابی کھو جائے جیسی باتیں ہونے لگیں۔ وہاں تک تو بات ٹھیک تھی پھر ہوا یہ کہ چھچھورے پن کا آغاز ہوا جس میں ”آتی کیا کھنڈالا“ اور فلاں۔۔۔۔کے نیچے کیا ہے فلاں کے اوپر کیا ہے؟ امکا ڈھمکا شروع ہوکر نوجوانوں میں مخرب اخلاق باتیں پھیلائی جانے لگیں جنہیں سن کر اور دیکھ کر افسوس، رنج و ملال ہوتا ہے کہ ہائے ہماری تہذیب کا جنازہ نکل رہا ہے اور ہم بے بس ہیں۔ماضی کا ایک اور مشہور نغمہ تھا میرے دیش کی دھرتی سونا اگلے، اگلے ہیرے موتی، میرے دیش کی دھرتی۔سنہری ریاست تلنگانہ کے راجیو گاندھی انٹر نیشنل ایر پورٹ پردھڑا دھڑ پکڑے جانے والے سونے کی اسمگلنگ کے واقعات پڑھ کراکثر ہم یہی گانا گنگناتے ہیں۔ ایک دن ہم خاموشی سے واٹس ایپ دیکھ رہے تھے پھر اچانک ایک زوردار قہقہہ کے ساتھ اچھل پڑے اور گانے لگے ”میرے دیش کی دھرتی سونا اگلے، اگلے ہیرے موتی، میرے دیش کی دھرتی“ گھر میں سب لوگ پریشان کہ یہ کیا ہوا؟ ابھی ابھی تو اچھے تھے!!! جی! ہوا یہ تھاکہ واٹس ایپ پر ایک ویڈیو فلم چلنے لگی اور نیوزریڈر نے جو نیوز پڑھی وہ اس طرح تھی کہ ”ایک بڑی خبر آرہی ہے کیرالا سے جہاں پر سرکاری ہسپتال میں ڈاکٹر کو بواسیر کا آپریشن کرتے سمے مریض کے گُودا سے سونے کا ٹکڑا ملا، پہلے تو ڈاکٹر نے اسے مَل سمجھا، پَر ٹرے پر گرتے ہی کھن کی آواز سے لگا کہ کوئی ٹھوس چیزہے، پیٹ کے درد سے پریشان شخص کوبیہوشی کی حالت میں ہسپتال لایا گیا تھا، ہوش میں آتے ہی اس نے ڈاکٹر سے سونے کے بارے میں پوچھاجسے وہ ایک عرب ملک سے چھپا کر لایا تھا، ڈاکٹر نے کہا میں سونا نہیں دوں گا! چاہے تم آپریشن کی فیس نہ دو اور ساتھ میں چار بوتل گلوکوس بھی مفت میں چڑھوالو، اس کے بعد سونے کے بٹوارے کو لے کر ڈاکٹر، وارڈ بوائے اور مریض کے بیچ جم کر مار پیٹ ہوئی اور فی الحال تینوں اسی ہسپتال میں بھرتی ہیں اور پولیس معاملہ کی جانچ کر رہی ہے“ یہ ہے قصہ کنجوس مکھی چوس کا جو سونے کی اسمگلنگ کے ذریعہ اپنے مال میں اضافہ کرنا چاہتا تھا مگر یہاں بات بگڑگئی۔چمڑی جائے پر دمڑی نہ جائے والی کہاوت اس پر پوری طرح صادق آتی ہے۔ اسی لیے کہتے ہیں برے کام کا برا نتیجہ۔ کیوں بھئی چاچا؟ ہاں بھتیجا!!!
٭٭٭