کیمبرج یونیورسٹی میں راہول گاندھی کا لیکچر
محمد ہاشم القاسمی
کانگریس پارٹی کے سینئر لیڈر راہول گاندھی اِن دنوں برطانیہ میں دنیا کی مشہور یونیورسٹی کیمبرج کے دورے پر ہیں، کیمبرج جج بزنس اسکول میں کیمبرج ایم بی اے کے طلباء سے کیمبرج یونیورسٹی کے پرو وائس چانسلر اور کیمبرج جج بزنس اسکول میں حکمت عملی اور پالیسی کے پروفیسر کمال منیر نے راہول گاندھی کا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ ”راہول گاندھی کا تعلق عالمی رہنماﺅں میں ہوتا ہے، اور ان کا سلسلہ ایسے خاندان سے ہے جنہوں نے ہندوستان کی بے حد خدمت کی ہے۔ جواہر لعل نہرو جو آزاد ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم تھے، ان کی بیٹی اندرا گاندھی کے پوتے راہول گاندھی ہیں۔ جواہر لعل نہرو کیمبرج کے سابق طالب علم بھی تھے اور جن کے بعد انڈین بزنس اینڈ انٹر پرائز میں کیمبرج جج چیئر کا نام دیا گیا ہے، اندرا گاندھی جن کے راہول گاندھی پوتے ہیں وہ ملک کی تیسری وزیر اعظم تھیں۔ راہول گاندھی کے والد راجیو گاندھی جو کیمبرج کے سابق طالب بھی علم تھے اور ہندوستان کے وزیر اعظم بھی تھے، ان کے بیٹے ہیں راہول گاندھی۔ اس کے بعد ایک پروفیسر کے انداز میں راہول گاندھی 28 فروری کے لیکچر میں جس کا عنوان تھا "اکیسویں صدی میں سننے کو سیکھنے کا فن” انہوں نے کہا کہ” جب سننے کے فن پر عمل مسلسل اور تندہی سے کیا جائے تو یہ بہت طاقتور ہوتا ہے، انہوں نے کہا کہ دنیا بھر کے لوگوں کو21 ویں صدی میں نئے خدشات کو ہمدردی سے سننے کا راستہ تلاش کرنے کی ضرورت ہے، جو کہ پیداوار کی وجہ سے جمہوری ممالک سے دور اور چین کی طرف منتقل ہونے سے تبدیل ہوگئی ہے۔ انہوں نے ایم بی اے کے طالب علموں کو بتایا کہ ”ہم صرف ایک ایسے سیارے کے متحمل نہیں ہو سکتے، جو جمہوری نظام کے تحت پیدا نہ ہو، لہٰذا ہمیں اس بارے میں نئی سوچ کی ضرورت ہے، کہ آپ جبر کے ماحول کے مقابلے میں ایک جمہوری ماحول کیسے پیدا کرتے ہیں، اور اس بارے میں مذاکرات ضروری ہیں، انہوں نے کہا کہ بھارت اور امریکہ سمیت جمہوری ممالک میں حالیہ دہائیوں میں مینو فیکچرنگ میں کمی ہوئی ہے، جس کی وجہ سے پیداوار چین میں منتقل ہوگئی ہے۔ اس کی وجہ سے بڑے پیمانے پر عدم مساوات اور اس سے منسلک عوام میں غصہ پیدا ہوا ہے، جس پر فوری توجہ اور بات چیت کی ضرورت ہے۔
راہول گاندھی نے ایم بی اے طلبہ کے سامنے تفصیل سے اپنی بھارت جوڈو یاترا کا خاکہ پیش کیا۔4,081 کلومیٹر کا پیدل سفر جس کی قیادت انہوں نے 7 ستمبر 2022 سے 30 جنوری 2023 تک 14 بھارتی ریاستوں میں کی، جس کا مقصد بھارت میں تعصب، بے روزگاری اور بڑھتی ہوئی نفرت اور عدم مساوات کی طرف عوامی توجہ مبذول کرانا تھا۔
کیمبرج یونیورسٹی پر ایک نظر ڈال لیں۔ برطانیہ کی قدیم کیمبرج یونیورسٹی دریائے ’ کیم‘ کے کنارے واقع ہے، جس کی مناسبت سے اسے کیمبرج یعنی دریائے کیم کے پ±ل کے نام سے موسوم کیا گیا۔ دنیا بھر میں مشہور یہ یونیورسٹی 1231ء میں بادشاہ ہنری سوئم کی منظوری سے قائم ہوئی۔ انگریزی زبان میں تعلیم دینے والی قدیم ترین یونیورسٹیوں میں دوسرے نمبر پر اور تاحال صحیح حالت میں رہنے والی قدیم یونیورسٹیوں میں چوتھے نمبر پر ہے۔ آکسفورڈ اور کیمبرج یونیورسٹیوں میں کئی قدریں مشترک ہونے کی بناء پر ”آکسبرج“ کی اصطلاح سامنے آتی ہے۔ 1854ءتک کیمبرج اور آکسفورڈ یونیورسٹی کے دروازے عیسائیوں کے پروٹسٹنٹ فرقے (جوچرچ آف انگلینڈ کے 39 اصولوں پر ایمان نہ لاتے ہوں) سے تعلق رکھنے والے افراد کے لیے بند تھے۔ 1871ء تک ان دونوں یونیورسٹیوں میں اس فرقے کے کسی فرد کو کسی قسم کا امتیاز یا وظیفہ تعلیم بھی نہیں مل سکتا تھا۔کیمبرج یونیورسٹی میں طویل عرصے تک لڑکیوں کا داخلہ بھی ممنوع رہا۔ 1869ء میں یہاں لڑکیوں کا پہلا کالج قائم ہوا اور وقت گزرنے کے ساتھ اب یونیورسٹی میں تین ایسے کالج ہیں جہاں صرف لڑکیوں کو داخلہ دیا جاتا ہے، اس یونیورسٹی کے الحاق میں 31 کالج اور 100 سے زائد تدریسی شعبے ہیں۔ "کیمبرج یونیورسٹی پریس” دنیا کا قدیم ترین اشاعتی ادارہ اور دوسرا بڑا یونیورسٹی پریس ہے۔ یہاں 8 ثقافتی اور سائنسی میوزیم ہیں، جن میں فٹزولیم میوزیم اور بوٹینک گارڈن سب سے زیادہ معروف ہیں۔ کیمبرج کی لائبریریوں میں تقریاََ ڈیڑھ کروڑ کتابیں موجود ہیں، صرف کیمبرج یونیورسٹی لائبریری میں ہی 80 لاکھ کتابیں ہیں۔ 31 جولائی 2016ء کوختم ہونے والے مالی سال میں یونیورسٹی کی کل آمدنی 1.64 بلین پاﺅنڈ تھی، جس میں 462 ملین پاﺅنڈ صرف ریسرچ گرانٹس اور کنٹراکٹس کی مد میں حاصل ہوئے تھے۔ مرکزی یونیورسٹی اورتمام کالجز کی کل آمدنی 6.3 بلین پاﺅنڈ تھی ، جو امریکہ کے علاوہ دنیا بھر کی کسی بھی یونیورسٹی کی سب سے زیادہ حاصل کردہ آمدنی تھی۔ ستمبر 2017ء میں کیمبرج یونیورسٹی دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں کی درجہ بندی میں دوسرے نمبر پر تھی۔ اس یونیورسٹی سے ہزاروں نامور شخصیات نے فیض حاصل کیا جن میں 116 نوبل انعام یافتہ، 10 فیلڈ میڈلسٹ، 6 ٹرننگ ایوارڈ یافتہ اور 15 برطانوی وزرائے اعظم شامل ہیں۔ مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے جیّد اسکالرز نے بھی یہاں قدم رنجہ فرمایا، جن میں سرآئزک نیوٹن کا نام بھی آتا ہے جنھوں نے اپنی زندگی کے کئی تجربات اسی درسگاہ کے ٹرینٹی کالج میں کیے۔ سائنسی طریقہ میں بہتر ی لانے والے سر فرانسز بیکون صرف 12 سال کی عمر میں یہاں داخل ہوئے، جن کے کام کو جون ڈی اور بروک ٹیلر نے آگے بڑھایا۔ معروف ماہر حیاتیات چارلس ڈارون نے بھی کیمبرج یونیورسٹی میں داخلہ لینے کی کوشش کی مگر وہ ناکام رہے۔ یہاں تعلیم حاصل کرنے والے 15 برطانوی وزرائے اعظم میں رابرٹ وال پول بھی شامل ہیں، جنہیں برطانیہ کا پہلا وزیر اعظم گردانا جاتاہے۔ اس کے علاوہ 30 ممالک بشمول بھارت، آئرلینڈ، زیمبیا، جنوبی کوریا، یوگنڈا، ٹرینیڈاڈ اینڈ ٹوباگو، برما، پاکستان، جنوبی افریقہ، نیوزی لینڈ، پولینڈ، آسٹریلیا، فرانس، سنگا پور، تھائی لینڈ، ملائشیا اور اردن کے سربراہانِ مملکت یا وزرائے اعظم یہاں کے دریائے علم سے سیراب ہو چکے ہیں۔ شاہی شخصیات کی بات کی جائے تو برطانیہ کے ایڈورڈ ہفتم اور جارج ششم، یوگوسلاویہ کے پیٹر دوم، کوئن آ ف ڈنمارک مارگریٹ دوم، اور اسپین کی ملکہ صوفیہ بھی شامل ہیں۔ عظیم سائنسدان اسٹیفن ولیم ہاکنگ نے کیمبرج سے تعلیم حاصل کی تھی، گزشتہ سال جب ہاکنگ کے ڈاکٹریٹ کے مشہور مقالے کو یونیورسٹی کی ویب سائٹ پر ڈالا گیا تو اسے پڑھنے والوں کے رش کے باعث ویب سائٹ بیٹھ گئی۔کیمبرج یونیورسٹی نے پہلی بار پروفیسر ہاکنگ کا مشہور مقالہ ”پراپرٹیز آف ایکسپانڈنگ یونیورسل“(مسلسل پھیلنے والی کائناتوں کی خصوصیات) اپنی ویب سائٹ پر جاری کیا تھا، جس پر انہیں 1966ء میں پی ایچ ڈی کی ڈگری دی گئی تھی۔ یونیورسٹی کے مطابق پروفیسر ہاکنگ کا یہ مقالہ یونیورسٹی کی لائبریری میں سب سے زیادہ طلب کیا جاتا تھا اور اس کی مانگ کو پورا کرنے کے لیے پروفیسر ہاکنگ کی اجازت سے یہ مقالہ آن لائن جاری کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ مقالہ اپ لوڈ ہوتے ہی لگ بھگ 60 ہزار افراد نے اسے پڑھنے کی کوشش کی، جس کے باعث کیمبرج یونیورسٹی کی ویب سائٹ فوراً بیٹھ گئی اور بحالی کے بعد بھی لوگوں کے مسلسل رش کے باعث سارا دن یونیورسٹی کی ویب سائٹ بار بار بند ہوتی رہی۔اپنے اس مقالے میں اسٹیفن ہاکنگ نے کائنات کے آغاز اور اس کے مسلسل بڑھنے اور پھیلنے سے متعلق اپنا نظریہ پیش کیا تھا، جو آج بھی کافی مشہور ہے۔ اپنے مقالے کے آن لائن اجراء کے موقع پر پروفیسر ہاکنگ نے کہا تھا کہ انہیں امید ہے کہ دنیا بھر میں ان کے اس مقالے کو پڑھنے والے افراد اپنے قدموں کو دیکھنے کے بجائے اوپر نظریں اٹھائیں گے اور آسمان پر دمکتے ستاروں کو دیکھیں گے اور اس وسیع کائنات میں اپنے مقام پر غور و فکر کریں گے۔“
راہول گاندھی برطانیہ کے دورے پر بالکل نئے اور اسمارٹ ل±ک میں نظر آئے۔ بال کو تراش لیا ہے اور ان کی داڑھی چھوٹی ہوگئی ہے، راہول گاندھی کے نئے روپ کو لوگ پسند کر رہے ہیں۔ اس نئے روپ میں وہ کافی پرکشش نظر آرہے ہیں۔ تصویروں میں راہول گاندھی ٹائی اور کوٹ پینٹ پہنے ہوئے ایک نئے انداز میں دِکھ رہیں ہیں، ان کا یہ روپ سوشل میڈیا پر کافی وائرل ہورہا ہے۔ راہول گاندھی جو خود بھی اس یونیورسٹی کے طالب علم رہ چکے ہیں، نہایت صاف شستہ انگریزی میں یونیورسٹی کے ایم بی اے کے طلبہ سے خطاب میں کہا کہ” کچھ برس قبل انٹلی جنس محکمے میں موجود کچھ افسران نے مجھے متنبہ کیا تھا کہ میں فون پر احتیاط کے ساتھ اور بہت سنبھل کر گفتگو کروں، کیوں کہ میرے فون کی جاسوسی ہو رہی ہے، اور وہ پیگاسس کے ذریعے کی گئی، راہول گاندھی نے کہا کہ یہی وجہ ہے کہ میں یہ بات کہنے پر مجبور ہو گیا ہوں کہ ہندوستان میں جمہوریت خطرے میں ہے، کیوں کہ اپوزیشن کے لیڈران کی جاسوسی ہو رہی ہے اور جمہوری اداروں پر قبضہ کیا جارہا ہے، اور میڈیا پر بھی مسلسل دباﺅ بنا کر رکھا گیا ہے، اس لیکچر میں راہول گاندھی نے جہاں جمہوری اداروں کے تعلق سے کھل کر گفتگو کی وہیں انہوں نے ایک سوال کے جواب میں بی جے پی حکومت کی جن دھن اکاو¿نٹ اسکیم اور اجولا اسکیم کی تعریف بھی کی۔ بین الاقوامی فورم پر راہول گاندھی کی جانب سے تنقید سے گھبرائی بی جے پی نے کانگریس لیڈر راہول گاندھی کو نصیحت کی کہ وہ ”غیر ممالک میں ملک کو بدنام کرنے کی کوشش نہ کریں۔ پوری دنیا جانتی ہے اور مان رہی ہے کہ وزیر اعظم مودی ہندوستان کے سب سے مقبول لیڈر ہیں۔“ مرکزی وزیر انوراگ سنگھ ٹھاکر نے بھی راہول گاندھی کی سخت مذمت کی۔ انہوں نے کہا تھا کہ ” راہول گاندھی کا بیان جھوٹا اور بھارت کو بدنام کرنے والا ہے۔“ انہوں نے کہا کہ کانگریس کے اسی رویہ کی وجہ سے اسے شکست کا سامنا ہو رہا ہے۔“ مسلسل ٹویٹس میں بی جے پی لیڈر نے راہول گاندھی کے بیان کا جواب دیا اور دعویٰ کیا کہ راہول کے الزامات میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔ شرما نے ٹویٹ کیا، ”پہلے غیر ملکی ایجنٹ ہمیں نشانہ بناتے ہیں۔ پھر ہمارے ہی اپنے غیر ملکی زمین پر نشانہ بناتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ راہول گاندھی کا کیمبرج میں بیان ”وزیر اعظم نریندر مودی کو نشانہ بنانے کی آڑ میں غیر ملکی سرزمین پر بھارت کو بدنام کرنے کی ایک کوشش کے سوا کچھ نہیں ہے۔“ راہول گاندھی کے جمہوریت والے بیان پر آسام کے وزیراعلیٰ ہیمنت بسوا شرما نے ٹویٹ کیا کہ ”کانگریس نے مودی حکومت کی طرف سے فراہم کردہ سیکورٹی کے درمیان بغیر کسی ناخوشگوار واقعہ کے 4000 کلومیٹر طویل یاترا کی۔ کیا ہمیں انہیں یاد دلانے کی ضرورت ہے کہ جب کانگریس اقتدار میں تھی تو بی جے پی لیڈروں کی قیادت میں یاترا کو کس طرح نقصان پہنچایا گیا؟ راہول گاندھی کے پیگاسس جاسوسی معاملے والے بیان پر شرما نے کہا کہ ‘کانگریس کے رکن پارلیمنٹ نے سپریم کورٹ کے کہنے کے باوجود اپنا فون جانچ کے لیے نہیں دیا۔ شرما نے لکھا ہے کہ ”پوری جانچ کے بعد سپریم کورٹ نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ پیگاسس کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔“ مرکزی وزیر انوراگ ٹھاکر نے جمعہ کو میڈیا بریفنگ میں کہا، ”کل کے نتائج (تریپورہ، میگھالیہ، ناگالینڈ کے انتخابی نتائج) بتاتے ہیں کہ کانگریس کا ہاتھ ایک بار پھر صاف ہو گیا ہے اور راہول گاندھی پھر سے غیر ملکی سرزمین پر رونے کا کام کر رہے ہیں۔ وہ جانتے تھے کہ اس کے نتائج کیا ہوں گے، اور پیگاسس ان کے دل و دماغ کے علاوہ کہیں نہیں بیٹھا ہے۔ دنیا بھر کے لیڈر اس عزت کی بات کرتے ہیں جو پی ایم مودی کی قیادت میں ہندوستان کو دنیا میں حاصل ہوا ہے۔ راہول گاندھی، اگر کوئی اور نہیں تو کم از کم اٹلی کے وزیر اعظم کی بات تو سن لیں، جنہوں نے کل کہا تھا کہ پی ایم مودی دنیا کے پسندیدہ ترین لیڈروں میں سے ایک عالمی لیڈر ہیں۔“ اطلاعات ونشریات کے وزیر انوراگ سنگھ ٹھاکر نے پیگاسس معاملے کو دوبارہ کرید نے پر، کانگریس لیڈر راہول گاندھی پرنکتہ چینی کی ہے۔ نئی دِلی میں نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے جناب ٹھاکر نے کہاکہ جناب گاندھی، اِس معاملے پر ملک سے باہر جاکر واویلا مچا رہے ہیں اور بھارت کو بدنام کررہے ہیں۔” ا±نہوں نے یہ بھی کہا کہ وزیراعظم نریندر مودی کی قیادت میں دنیا بھر میں بھارت کی ساکھ میں اضافہ ہوا ہے۔ وزیر موصوف نے کہا کہ کَل کے انتخابی نتائج سے ظاہر ہوگیا ہے کہ کانگریس کا، ایک بار پھر صفایا ہوگیا ہے۔” در اصل راہول گاندھی کی روز افزوں مقبولیت، اور ملک و بیرون ملک شہرت بھارتیہ جتنا پارٹی کے لیڈروں کو پریشان کر رہی ہے، واضح رہے کہ راہول گاندھی کیمبرج یونیورسٹی کے بعد برسلز میں یوروپی یونین کے دفاتر جانے کا امکان ہے، جہاں وہ بااثر شخصیات سے بات چیت کریں گے۔ نیز ہالینڈ کا بھی دورہ کرنے والے ہیں، جہاں وہ ایک ڈائسپورا کانفرنس سے خطاب کرنے والے ہیں۔