بھارت

ہائی کورٹ نے قرآنی آیات کی غلط تشریح کی

سپریم کورٹ نے آج حجاب کیس کی سماعت جاری رکھی جس میں کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلہ کو متعدد درخواستوں کے ذریعہ چالنج کیا گیا ہے۔

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے آج حجاب کیس کی سماعت جاری رکھی جس میں کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلہ کو متعدد درخواستوں کے ذریعہ چالنج کیا گیا ہے۔

جسٹس ہیمنت گپتا اور جسٹس سدھانشو دھولیا پر مشتمل بنچ نے اس معاملہ کی سماعت کی۔ آج سینئر ایڈوکیٹ دیودت کامت نے مباحث کا آغاز کیا جو دستور ہند کی دفعہ 25 سے متعلق تھی۔ سینئر ایڈوکیٹ کامت کے بعد ایڈوکیٹ نظام پاشاہ نے بحث کی اور اسلامی قانون میں حجاب سے متعلق احکام پر روشنی ڈالی۔ تمام مذہبی طریقوں کے تحفظ یا صرف ضروری مذہبی عمل کے تحفظ کے بارے میں پس و پیش کو اجاگر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس سوال پر کہ آیا تمام مذہبی طریقوں کا تحفظ کیا جائے یا صرف ضروری مذہبی عمل کا تحفظ کیا جاسکتا ہے۔

ایک ایسا سوال ہے جس پر 7 رکنی بنچ، 5 رکنی بنچ اور 3 رکنی بنچ کے ججوں نے مختلف رائے دی ہے۔ بجوئے ایمانویل کیس میں سہ رکنی بنچ نے کہا تھا کہ کوئی بھی عقیدہ جس پر دیانتداری کے ساتھ عمل کیا جاتا ہو اس کا تحفظ کیا جانا چاہئے۔ لہٰذا نہ صرف ضروری مذہبی عمل بلکہ ایسا کوئی بھی عمل جس پر پوری ایمانداری اور اصولی طور پر عمل کیا جاتا ہو اس کا تحفظ کیا جانا چاہئے۔ اس مسئلہ پر آپ ججس کی رائے مختلف ہے۔

7 رکنی بنچ اور 5 رکنی بنچ نے مختلف فیصلے دیئے ہیں اور اب 9 رکنی بنچ پر اس معاملہ کی سماعت ہورہی ہے۔ ایڈوکیٹ پاشاہ نے اس معاملہ میں مابعد لنچ کارروائی میں دوبارہ دلائل دینا شروع کردیئے اور محمڈن لا کی تشریح کی۔ انہوں نے کہا کہ محمڈن لا کے ذرائع قرآن، سنت اور احادیث، اجماع اور قیاس ہیں۔

انہوں نے دلیل دی کہ ہائی کورٹ نے قرآنی آیات کی غلط تشریح کی تاکہ یہ کہا جاسکے کہ حجاب لازمی نہیں ہے۔ ایڈوکیٹ پاشاہ نے کہا کہ ہائی کورٹ نے غیر متعلقہ آیت کا حوالہ دیا جس میں کہا گیا ہے کہ کسی کو بھی اسلام قبول کرنے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا ہے تاکہ یہ بتایا جاسکے کہ حجاب لازمی نہیں ہے۔ اس موقع پر جسٹس گپتا نے ایڈوکیٹ پاشاہ سے کہا کہ وہ بنچ کو ان قرآنی آیات کے بارے میں بتائیں جس میں حجاب کو ضروری قرار دیا گیا ہے۔ پاشاہ نے سورہ نور کی آیت 21 کا حوالہ دیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہائی کورٹ نے اس وجہ سے بھی حجاب کو لازمی تصور نہیں کیا کیونکہ حجاب نہ پہننے پر کوئی سزا یا جرمانہ نہیں رکھا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایک غلط فہمی ہے۔ انہوں نے کہا کہ روحانی عبادتوں کی عدم ادائیگی پر کوئی دنیاوی سزا نہیں ہے۔ مذہب پر عمل نہ کرنے کے نتائج آخرت کیلئے ہیں۔ قرآن میں اس کی کوئی سزا تجویز نہیں کی گئی حتی کہ نماز اور روزہ قضا کرنے پر بھی کوئی دنیاوی سزا نہیں ہے۔

قرآن خدا کا کلام ہے اور خدا کے کلام پر عقیدہ رکھنا مسلمان ہونے کی اولین شرط ہے۔ انہوں نے ہائی کورٹ کے تبصرہ کا بھی حوالہ دیا اور کہا کہ یہ غلط سیاق و سباق میں کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ کہنا کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ قرآن کی بعض آیات فرسودہ ہوچکی ہیں، ایک گستاخانہ عمل ہے۔ مومنوں کیلئے قرآن ہر زمانہ میں کامل رہا ہے اور آنے والے ہر زمانہ کیلئے بھی مکمل ہے۔

لہٰذا یہ کہنا کہ بعض آیات بے معنی ہوچکی ہیں، گستاخی کی سرحدوں پر پہنچنا ہے۔ انہوں نے حدیث شریف کا بھی حوالہ دیا اور کہا کہ جب پیغمبرﷺ کا ارشاد ہے کہ پردہ زیادہ اہم ہے اور جب قرآن یہ کہتا ہے کہ پیغمبر ؐ کے احکام پر عمل کیا جائے تو اس کے لازمی ہونے کو ثابت کرنے کیلئے کوئی اور چیز درکار نہیں۔ ہائی کورٹ نے محمد محسن خان کے ترجمہ پر شکوک و شبہات ظاہر کئے تھے لیکن فریق مخالف نے کبھی ان کے قابل اعتبار ہونے پر شک ظاہر نہیں کیا۔ ہائی کورٹ نے عبداللہ یوسفی کے ترجمہ پر انحصار کیا جو سنی بھی نہیں تھے۔