مذہب

انوار ِ نبوت کی درخشانیاں

سیدنامحمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت مبارکہ اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم پرقرآن حکیم کے نزول سےاللہ سبحانہ کی معرفت کے جلوے عیاں ہوئے، اورانسان کی حقیقت اوراسکے تخلیقی مراحل کے تذکرہ کے ساتھ اسکے پیدائشی حسن وجمال اورانسانی سراپا کے تخلیقی کمال کاتعارف حاصل ہوا۔

مفتی حافظ سیدصادق محی الدین فہیمؔ
Cell No. 9848862786

سیدنامحمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت مبارکہ اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم پرقرآن حکیم کے نزول سےاللہ سبحانہ کی معرفت کے جلوے عیاں ہوئے، اورانسان کی حقیقت اوراسکے تخلیقی مراحل کے تذکرہ کے ساتھ اسکے پیدائشی حسن وجمال اورانسانی سراپا کے تخلیقی کمال کاتعارف حاصل ہوا، اللہ سبحانہ کی معرفت اور خود اپنی معرفت کا انسانوں کو سبق ملا، اس معرفت تک رسائی کیلئے علم وقلم کی اہمیت کوتسلیم کیاگیا، گم کردہ راہ حق انسانیت کو روشنی دکھانے کیلئے ہردورمیں علم وقلم نے نمایاں رول اداکیاہے، علم وقلم کو اقلیم معرفت کا سرتاج کہا جائے تو بیجانہ ہوگا، جہاں جہاں علم وقلم کی حکمرانی رہی ہے وہاں وہاں حقیقی معرفت، سربلندی و سرفرازی، کامیابی وکامرانی کے دریائے فیض بہتے رہے ہیں۔

تاہم اللہ سبحانہ قلم وقرطاس جیسے مادی ذرائع کے بغیربھی انسانی سینوں کو اپنے انواروتجلیات کی جلوہ گاہ بنا نے پر قادرہے، اسلئے اللہ سبحانہ اپنے محبوب پیغمبرخاتم النبیین سیدنا محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان مادی ذرائع کے بغیرہی علوم ومعرفت کا سرچشمۂ فیضان بنایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اُمی ہونا اسی لئے ایک بہت بڑا معجزہ ہے اس حقیقت کونہ سمجھنے کی وجہ کفاران قریش انوارنبوت کے درخشانیوں سے محروم رہے۔سورۃ العلق کی ابتدائی آیات میں جوپیغام انسانیت کو دیا گیاہے وہ خودایک کامل ومکمل پیغام ہے، ایک عرصہ بعدسورۃ المدثرکی آیات مبارکہ نازل ہوئیں، اللہ سبحانہ نے ان آیا ت میںاپنی بے نہایت لطف و مہربانی، توجہ وعنایت کا ذکرفرمانے کے بعدبندگان خداکو اپنے معبودبرحق کی پہچان کرنے اپنے سینوں کو معرفتِ ربانی کی جلوہ گاہ بنانے اوراسی کی بارگاہِ قدس میں سرنیاز خم کرنے کی ہدایات نازل فرمائی۔

وہ جوبرسوں سے کفروشرک کے گرداب میں پھنسے ہوئے تھے اللہ سبحانہ کی بڑائی وکبریائی کے بجائے جن کے دل ودماغ میں اپنے بڑے ہونے کے کاسوداسمایا ہوا تھا، فخروگھمنڈکی وجہ جو اپنی برتری وبڑائی کے زعم میں دوسروں کو حقیروکمترسمجھ رہے تھے اپنے آپ کو بزعم خوددوراندیش، عقل وخرد کا مالک تصورکرلیا تھا، مزیدبرآں بیت اللہ کے نگران ومجاور ہونے کا احساس انکوتکبروغرورکی وادیوں میں سرگرداں رکھے ہوئے تھا۔ایسے میں اللہ سبحانہ کا خوف دلانا اور توحیدکے پیغام سے انکوروشناس کرانا، وہ انسان جنکے دل پتھر جیسے سخت ہوگئے ہوں ان میں ایمان کی تخم ریزی کرکے ایمانیات کا شجرطوبی اُگانا، علم ومعرفت سے محروم انسانی معاشرہ کو چمنستان حق میں تبدیل کرنا، جہل واناکی خاردارجھاڑیوں کو ایمان وعرفان کا گل وگلزار بنا نا کوئی آسان کام نہیں تھا۔

اس انقلاب آفریں پیغام سے روشناس کرانے کے نتیجہ میں دستورِدنیا کے مطابق دشوارگزارمراحل کاضرور سامنا ہوا، پیغام ِحق پہونچانے کی راہ میں ناقابل عبور رکاوٹیں بھی ضرور آئیں لیکن اللہ سبحانہ کی رحمتیں مددگار تھیں اور اس پیغام حق کوکامل ومکمل ہونا تھااورقیامت تک اسی پیغام ِحق کی فرماں روائی اللہ سبحانہ نے طے فرمادی تھی اسلئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پیغام ِحق کی مشعل تھامے آگے ہی آگے بڑھتے رہے، باطل افکارکےچلنے والےبادسموم کےچَھکَّڑاس کونہیں بجھا سکے۔ دشمنان حق اسلام کی روشن شمع کوگل کردینےکی ناپاک سازشیں رچتے رہےنصرت حق سےوہ ہمیشہ ناکام ہوتی رہیں۔

نبوت کے منصب رفیع کی جوعظیم ذمہ داری اللہ سبحانہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سونپی تھی انسانیت کواس سے روشناس کرانےمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم شب وروزمنہمک رہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام ساری انسانیت کیلئے ہے لیکن وَأَنذِرْ عَشِيْرَتَكَ الْأَقْرَبِيْنَ (الشعراء: ۲۱۴) کے ارشادپاک کی تعمیل میں سب سے پہلے اہل مکہ اورخاندان قریش تک اس پیغام کوآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہونچایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع وپیروی کرتے ہوئےخیرامت کے منصب رفیع پرفائزتبلیغ واشاعت دین کی ذمہ داری نبھانے والے داعیان دین متین کیلئے اس میں یہ ایک اہم پیغام ہے کہ جس کی وہ دعوت دینے جارہے ہیں عقیدہ و عمل کے اعتبارسے وہ خود اس پر پوری طرح عمل پیرارہیں اور اپنے خاندان اورقبیلہ کو اس پیغام حق کا پابندبنائیںپھرعوام کی اصلاح کواپنی کوششوں اورکاوشوں کا محور بنائیں۔ وامراہلک بالصلوۃ واصطبرعلیہا (طہ ؍۱۳۲) اور اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم دو اور خود بھی اس پر جم جائو۔

الغرض سرزمین مکہ پھرطائف کی وادیوں میں پیغام حق کی شمع روشن ہونے کے بعداس کی روشنی کوگل کرنے کےلئے جوظلم و جور کی آندھیاں شمع حق کو بجھانے کے درپےتھیں وہ اس کو گل کرنے میں نا کام رہیں، وقتی طورپرچراغ حق کے نورکی لوکچھ وقت کیلئے مدھم ہوگئی تھی جس سے باطل کی تاریکی چھائی رہی لیکن پیغام حق کی شمع سے پھیلنے والی شعائیں مکہ کی وادیوں سے نکل کر مدینہ منورہ کے گوشوں کو منورکرنے لگیں، حق سبحانہ نے ہجرت کے احکام نازل فرمائے جہاں اسلام کے پیغام رحمت کو آنکھوں کا سرمہ بنالیا گیا، دل ودماغ ایمان کے نورسےروشن ہوگئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کےمدینہ پاک میں قدم رنجافرمائی سےہرسمت فرحت وانبساط کی فضاء چھاگئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دامن کرم سےوابستگی کی برکت سےزندگی کے شب و روز احکامات ربانی و ارشادات مصطفوی کی تعمیل کے نورانی جلووں میں ڈھل گئے، پھر کیا تھا مدینہ منورہ کا سارا حال و ماحول پیغام توحید سے جگمگا اٹھا، اشاعت اسلام کیلئے سرزمین مدینۂ پاک بڑی ہموار ثابت ہوئی، جہاں ایسے انسان بستے تھے جن کے خمیرمیں محبت گندھی ہوئی تھی، جہاں والہانہ عقیدت ومحبت، پاکیزہ، مومنانہ جذبات واحساسات کی حکمرانی تھی، جہاںاپنائیت، پیارومحبت، ہمدردی واخوت کی خوشبوہرسوپھیلی ہوئی تھی۔

الغرض آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدوم میمنت لزوم کی برکت سے مدینہ پاک کا پورا حال وماحول ایمان واسلام کے نورسے روشن وتابناک ہوگیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلق عظیم اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بے نظیرانسانیت دوستی سے اسلام کی روشنی مدینہ پاک کے افق سے نکل کرسارے عالم پر چھاگئی، صلح حدیبیہ کی دلگیرشرائط عسی ان تکرہواشیا وہوخیرلکمکے مصداق فتح مکہ کا پیش خیمہ ثابت ہوئیں، یہ وہ شرائط تھیں جوکسی اورکیلئے پسندخاطرتو نہیں ہوسکتی تھیں لیکن نگاہ نبوت کے نورنے اس بابرکت صلح کے ان دوررس نتائج کا اندازہ کر لیا تھا جوفتح مکہ کی صورت میں نصرت حق سے ظاہرہونے والے تھے، پھر کیا تھا مکہ مکرمہ بھی اسلام کے سایۂ رحمت میں آگیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کےرخ انورکی تابانیوں، بے مثل وبے مثال اور تابناک حیات طیبہ کے نورانی جلوئوں کی مقناطیسی کشش نے ساری انسانیت کو کچھ ایسا گرویدہ بنالیا کہ پرچم اسلام سارے عالم پر لہرانے لگاجوتاقیام قیامت لہراتا رہے گاجس کے سایۂ رحمت میں خوش بختی و آسودگی کا سامان ہوتا رہے گا، اسلامی پاکیزہ تعلیمات کے جامہائے سرمدی کی جن پاک نفوس کو طلب ہوگی ان کی پیاس باطل کی شراب سے معمور ظروف (پیالوں) سے نہیں بجھ سکے گی، صالح فطرت ونیک سیرت انسانوں کے دلوں پرہمیشہ اسلام دستک دیتا رہے گا۔

الغرض اسلام اورپیغمبراسلام سیدنا محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغامِ رحمت حیات ابدی وسرمدی کا خزینہ ہے۔ پرچم اسلام کے اس سایۂ رحمت میںپناہ حاصل کر لیناابدی فلاح و کامرانی، کامیابی و سرفرازی اورسعادت دارین کا ضامن ہے، ’’صلائے عام ہے یا ران نکتہ داں کیلئے‘‘ باطل کی کور بینی ہمیشہ اسلام کے انوار درخشاں سے نور وروشنی حاصل کرنے میں مانع رہے گی، اہل باطل اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے نور (اسلام) کے روشن چراغ گل کرنے کی ناپاک سازشیں رچتے رہیں گے لیکن اللہ سبحانہ کی مشیت ہمیشہ ان پرغالب رہے گی اوران کو ہمیشہ ناکامی کا منہ دیکھنا پڑے گا، اسلام سے ان کی سخت عداوت و دشمنی کے باوجود اسلام کا نور چہاردانگ عالم کو روشن و منور کرتا رہے گا، ارشاد باری ہےیہ نادان چاہتے ہیں کہ اللہ سبحانہ کے نور (یعنی دین اسلام) کو اپنے پھونکوںسے بجھادیں، لیکن اللہ سبحانہ اپنے نور کو کمال تک پہونچاکر رہے گا، خواہ کافر اس کو سخت نا پسند کریں(مفہوم آیات، التوبہ؍ ۳۲، الصف ؍ ۸)۔ اللہ سبحانہ کوعظمت وکبریائی زیبا ہےوہ قادر و قیوم ہےانسانیت کی ہدایت کےلئے اس نے خاتم النبیین سیدنا محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کومبعوث فرمایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نورہدایت کے روشن چراغ ہیں، پیغام حق کے علمبردارہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت مبارکہ کامقصودیہی ہے کہ سارے عالم میں اسلام کانورپھیلے۔

نور خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایانہ جائے گا

کرئہ ارض کے اکثرحصےپھرسے کفروشرک، ظلم وجورکی تاریکیوں میں غرق ہیں، انوارنبوت کی درخشانیاں ہی ان کوباطل کے گھٹاٹوپ اندھیاروں سے نجات دلاسکتی ہیں۔ اس لئے مسلمانوں پرفرض ہےکہ انوارنبوت کی درخشانیوں سےایک عالم کوروشن کرنےکےلئے ہمیشہ کوشاں رہیں، منصفانہ نظام قائم کریں، باطل سے کسی حال مصالحت نہ کریںکیونکہ حق سبحانہ کویہ ہرگز گوارہ نہیں ہےاور شمع حق کے پروانوں کی طرح ہمیشہ اسلام کی حفاظت کے لئے اپناسب کچھ نچھاور کرنے کے لئے تیار رہیں۔ طاغوتی طاقتوں کی معاندانہ سازشوں کامقابلہ اس کے بغیر ممکن نہیں، سیدنامحمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے مسلمانوں کافرض ہے کہ وہ اپنی زندگی کے سارے گوشوں کو انوار نبوت کی درخشانیوں سے روشن رکھیں، ایسا ہرگزنہیں ہونا چاہیے کہ ان کا اجلادامن فسق وفجورکےداغ دھبوں سے داغدار ہوجائے، دنیا کےفانی لذائذونعائم کی عارضی راحتیں ان کو ابدی اخروی راحت بھری زندگی کی فکرسےغافل نہ کردیں۔باطل پرستوں پر عیش وراحت کے دروازوں کا کھل جانا، ان کے لئےتعیشات، تکلفات وتصنعات، آرائش وزیبائش کےاسباب کا مہیا ہوجانا اہل حق کی نگاہوں کوخیرہ نہ کردے۔

سورۃ الحدید آیت ۲۰؍میں اللہ سبحانہ نےتمثیل کی زبان میں فانی زندگی کی حقیقت بیان کی ہے ’’خبردار!دنیا کی زندگی محض کھیل تماشہ اور زیب وزینت اور آپس میں حسب نسب اورمال واولادکی کثرت پراترانے کے سوا کچھ بھی نہیں ہے، اس کی مثال یوں سمجھ لیجئے کہ آسمان سے بادل برستے ہیں، کھیتیاں سرسبزوشاداب ہوجاتی ہیں، درخت ہرے بھرے ہوجاتے ہیں اس کی باغ وبہاری سے اسلام کی نعمت سے محروم کفار (کسان) پھولے نہیں سماتے، کچھ وقت نہیں گزرتاکہ ان کی تازگی یکایک مرجھانے لگتی ہےاوروہ ریزہ ریزہ ہوکر بکھرنے لگتے ہیں‘‘۔ گویا انسان کی فانی زندگی کا رازتمثیل کی زبان میں سمجھایا گیاہے کہ نباتات کے اگنے اور ان کی نشونماءکی طرح انسان کی پیدائش کومل پھول پتیوں کی طرح نازک معصوم پاکیزہ بچپن، پھر عہد شباب کاحسن و جمال، آرزئوں و تمنائوں کی تکمیل کے خوابوں کاکیف و سرور، قوت وطاقت، صحت و توانائی پھرضعیفی و لاچاری کی زندگی پھریوں ہی ایک دن موت کی آغوش میں پہنچ جانا یہی وہ مختصرداستان حیات ہے جوعبرت آمیز ہے۔

فانی زندگی کی یہ حقیقت جس کے ذہن نشین ہوجائےاوردل کی گہرائیوں میں اتر جائے وہی دانشمندہیں، حدیث پاک میں وارد ہے۔ الكيس من دان نفسه وعمل لما بعد الموت والعاجز من أتبع نفسه هواها وتمنى على الله ’’عقلمند وہ ہیں جو اپنے نفس کا محاسبہ کریں، اور موت کے بعد کی زندگی کے لیے اعمال صالحہ اختیارکریں، اور عاجز وہ ہیں جو خواہشات نفس کی دنیامیں کھویارہیں پھر اللہ سبحانہ سے اپنی امیدیں باندھیں‘‘ (سنن الترمذی۸؍۴۹۹)۔حیات مستعار کےفانی ہونے کا راز جن پرمنکشف ہوجائےوہ ہمیشہ انوارنبوت کی درخشانیوں سے فیضیاب ہوتے رہیں گے، موت وآخرت کااستحضاران کو فکرمند رکھے گاکہ وہ ضلالت و گمراہی کی تاریک وادیوں میں سرگرداں انسانیت کوانوارنبوت کی درخشانیوں سے ضیابار کریں، کفر و شرک سے گدلائے ہوئے چشموں سےروح کی پیاس بجھانے والوں کورشدوہدایت کےچشمۂ فیضان سےسیراب کریں۔اس راہ میں مصائب وآلام کاسامناہوتواللہ سبحانہ پرکامل توکل واعتماد کے ساتھ صبروبرداشت سےکام لیں، گمراہ انسانیت کوراہ ہدایت دکھانے میں ہمیشہ حکمت ومصلحت کوپیش نظررکھیں، ان کی ہدایت کے لئے فکر و درد، سوز و گداز سے بھرے دل، اشکبار آنکھوں سے دعائوں کااہتمام رکھیں، اس راہ میں پیار و محبت، صبروبرداشت کے چراغ ہمیشہ روشن رکھیں۔حدیث پاک میں واردہے: والله لأن يهدي الله بهداك رجلا واحدا خير لك من حمر النعم ’’اللہ سبحانہ کی قسم! اگر تمہاری وجہ سے اللہ سبحانہ نے ایک شخص کو بھی ہدایت دے دی، تو تمہارے لئے سرخ اونٹوں سے بھی بہتر ہے‘‘(سنن ابوداود۱۰؍۷۷)

حق پرقائم رہنااورحق کا اجالا پھیلانا بڑے مجاہدہ کاکام ہے، اس راہ میں مخالفت کےطوفان ہمیشہ آتے رہیں گے، ظلم و تعدی، جوروجفاءکی تیزوتندآندھیوں کاسامناہوگا، سرکش حق کی راہ میں روڑے اٹکائیں گے، فتنہ وفسادکے شعلیں بھڑکائیں گے۔

عالمی سطح پراس وقت دشمنان اسلام نے کئی ایک داعیان دین متین پراپناظالمانہ شکنجہ کس دیاہے وہ اس وقت قیدوبندکی صعوبتیں جھیل رہے ہیں، ملکی سطح پربھی اس طرح کے واقعات کامسلسل اعادہ ہے، دردمندمسلمانوں کےدل رنج وغم میں ڈوبے ہوئے ہیں، بہت سےنیک فطرت غیرمسلم بھائی بھی اپنے دل میں اس کسک کومحسوس کررہے ہیں۔یہ دوروزہ زندگی فانی ہے شہنشاہ ظفررحمہ اللہ نےاس کاخاکہ کچھ یوں کھینچاہے؎

عمر دراز مانگ کے لائی تھی چار دن
دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں

ایسے ہی خاصان خداہیں جوحقیقی معنی میں خیرامت کے ترجمان ہیں، دنیا کی عارضی امتحان وآزمائش کی گھڑیوں میں ان کے پایۂ استقامت کبھی متزلزل نہیں ہوتے، انوارنبوت کی درخشانیوں میں ان کی مجاہدانہ زندگی کاسفرطئے ہوتے رہتاہے، ان کی مومنانہ بصیرت اخروی نعمتوں کامشاہدہ کرتی رہتی ہیں، ان کے دلوں کوچین وسکون نصیب رہتاہے، ان جیسے خاصان خدا کے لئےحدیث پاک میں بشارت آئی ہے:لا يصيب المرء المؤمن من نصب ولا وصب ولا هم ولا حزن ولا غم ولا أذى حتى الشوكة يشاكها إلا كفر الله عنه بها خطاياه’’مومن کوکوئی تکلیف، کوئی رنج وغم نہیں پہونچتا مگر اللہ سبحانہ اسےاس کی خطائوں کاکفارہ بنادیتے ہیںیہاں تک کہ پیرمیں چبھنے والاکانٹابھی جواسے چبھے‘‘(صحیح ابن حبان: ۷؍۱۶۶) انوارنبوت کی درخشانیوں سے سرشار مسلمان باطل سے نبردآزماہونے کےمخلصانہ جذبہ سے آگے بڑھیں گےتووہ تنہاء نہیں ہوں گے بلکہ اللہ سبحانہ کی فتح ونصرت ہمیشہ شامل حال رہے گی بشرطیکہ پرچم اسلام کوبلندرکھنے کےلئےاپنی خون کاآخری قطرہ تک بہادینے کاایمانی جذبہ تازہ رکھیں۔ إِن تَنصُرُوا اللهَ يَنصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ أَقْدَامَكُمْ’’اگرتم اللہ سبحانہ (کےدین)کی مددکروگےتووہ تمہاری مددفرمائے گااور(اس مجاہدہ کی راہ میں) تمہیں ثابت قدم رکھے گا‘‘(محمد؍۷) إِن يَنصُرْكُمُ اللهُ فَلَا غَالِبَ لَكُمْ وَإِن يَخْذُلْكُمْ فَمَن ذَا الَّذِي يَنصُرُكُم مِّن بَعْدِهِ وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ (آل عمران؍۱۶۰)۔ ’’اللہ سبحانہ تمہاری مددفرمائے توتم پرکوئی غالب نہیں آسکتا‘‘۔ نصرت الٰہی جن کی پشت پناہ ہواورامتحان وآزمائش کی نازک گھڑیوں میں تائیدایزدی جن کے دلوں کوڈھارس بندھارہی ہوان کےلئےمژدئہ جانفزاہے لیکن اس بات سے ہمیشہ لرزاں وترساں بھی رہناچاہیےکہ کہیں اللہ سبحانہ اپنی مددونصرت سے محروم نہ کردے، آیت پاک کے آخرمیں ایمان والوں کوہمیشہ اللہ سبحانہ تعالی ہی پربھروسہ رکھنے کی تلقین کی گئی ہے۔ حیات جاویدانی اورابدی وسرمدی زندگی پانے کایہی وہ رازہے جس کوبھلاکرمسلمان اس وقت مغلوب ہیں۔علامہ اقبالؔرحمہ اللہ نےاس رازسے پردہ ہٹایاہے۔

برتر اَز اندیشۂ سود و زیاں ہے زندگی
ہے کبھی جاں اور کبھی تسلیم جاں ہے زندگی
٭٭٭