مذہب

جو سراپا ناز تھے ہیں آج مجبور نیاز

تاریخ شاہد ہے کہ جانفشانی ، لگن ، محنت اورعقل کے ساتھ دنیاوی وسائل کا بھرپوراستعمال کئے بغیر ہی آسان طریقہ سے عیش و عشرت والی زندگی گزارنے کی چاہ میںکچھ بدبخت، صاحبان اقتدار کو اپنا رب مان کر ان کے ناپاک منصوبوں کو بروئے کار لانے میں معاون بنتے رہے ہیں۔

اطہر معین

تاریخ شاہد ہے کہ جانفشانی ، لگن ، محنت اورعقل کے ساتھ دنیاوی وسائل کا بھرپوراستعمال کئے بغیر ہی آسان طریقہ سے عیش و عشرت والی زندگی گزارنے کی چاہ میںکچھ بدبخت، صاحبان اقتدار کو اپنا رب مان کر ان کے ناپاک منصوبوں کو بروئے کار لانے میں معاون بنتے رہے ہیں۔ہم نے یہ بھی دیکھا کہ ختم نبوت پر ڈاکہ ڈالنے والوں نے بھی وقت کے جابرحکمرانوں تک رسائی حاصل کرتے ہوئے اپنے ناپاک مقاصد کی تکمیل کی اور اس کے عوض حکمرانوں کے مظالم کو رعایا پروری پر محمول کرتے رہے۔ ختم نبوت کے بھارتی ڈاکہ زن نے بھی اپنے جھوٹے عقیدہ کی ترویج و اشاعت میں سرکاری سرپرستی حاصل کرنے انگریزوں کی پشت پناہی حاصل کی تھی اور بھارت میں ان کے تسلط کو برقرار رکھنے کے لئے جہاد کے موقوف ہوجانے کی حجت پیش کی تھی۔ ان دنوں کچھ لوگ جو تصوف، سلفیت اور اخوانیت سے اپنی وابستگی ظاہر کرتے ہیں صاحبان اقتدار کی دلجوئی میں لگے ہوئے ہیں اور اپنے حقیر مفادات کی خاطر ملت فروشی پر اتر آئے ہیں۔

فسطائی طاقتوں نے اہل اسلام کا بڑی باریک بینی سے جائزہ لینے کے بعد یہ طئے کیا کہ مسلمانوں کی اجتماعی ملی قوت کو ختم کرنے کے لئے نام نہاد اہل تصوف اور اہل حدیث کو آلہ ٔ کار بنایا جائے جس کے لئے نااہل لوگوں کی شخصیت کو بہت زیادہ ابھارا جانے لگا ہے اور انہیں اسلام اور مسلمانوں کے نمائندہ کبار علماء و مشائخین کے طور پر پیش کیا جانے لگا ہے۔

عالمی سطح پر ایسے صوفی منش شخصیتوں کو بڑے بڑے پلیٹ فارمس مہیا کئے جانے لگے ہیں، ان کی تصانیف کو شاہ کار کے طور پیش کیا جانے لگا اور انہیں بڑے بڑے اعزازات سے نوازا جانے لگا ہے۔آل سعود کے غلاموں کو بھی ایسے ہی مواقع میسر کئے جارہے ہیں۔ ان حضرات کے ذریعہ اسلام کا ایک ایسا تصور پیش کیا جارہا ہے جس میں نہ ہی جہاد کے لئے کوئی گنجائش ہے اور نہ ہی دعوۃ و تبلیغ کی کوئی اہمیت بلکہ ان کے ذریعہ شرک کے ساتھ بقائے باہم کا تصور پیش کیا جارہا ہے۔ اسے خوش قسمتی ہی کہا جائے کہ بھارت میں فسطائی طاقتوں کو ایسی کوئی معتبر ہستی نہیں ملی جن کو ابھار کر مسلمانوں پر اثر اندازہوسکے مگر کسی نہ کسی کے ذریعہ وہ اپنے مقاصد کو پورا کرنا چاہتی تھیں، اس لئے ہمارے ہاں جب تلاش بسیار کے بعد کوئی ایسی شخصیت نہیں ملی تو پھر درگاہوں کے بے علم اور مادہ پرست مجاوروں،سلفیوںاور اخوانیوں کو ملت اسلامیہ ہند کے نمائندوں کے طور پر ابھارتے ہوئے انہیں اپنی مقصد براری کے لئے استعمال کیا جانے لگا ہے چونکہ وہ فسطائی طاقتوں کے ہاتھ کھلونہ بننے کے لئے بڑے ہی بے چین نظر آرہے تھے۔

بھارت میںایسے کھوکھلے صوفیوں کا احوال سب پر عیاں ہے۔ ہم اپنے بڑوں سے سنتے آئے تھے کہ ہمارے اسلاف میں جو اولیاء گزرے ہیں انہوں نے عیش و عشرت کی زندگیوں کو ترک کیا تھا اور ہمیشہ حکمرانوں کے درباروں سے دوری اختیار کر رکھی تھی ، حتیٰ کہ ہمارے کئی اسلاف نے حکمران وقت کے دربار طلب کئے جانے پر بھی اس جانب رخ نہیں کیا تھا، شائد ان کی انہی پاکیزہ زندگیوں کے باعث ہم نے انہیں اولیائے الٰہی کا درجہ دے رکھا ہے اور ان کی آخری آرام گاہوں کو ایک یادگار میں تبدیل کردیا تھا تاکہ لوگ ان کے قبروں کی زیارت کرتے ہوئے ان کی پاک زندگیوں سے وجدان حاصل کرسکیں مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی یہ ابدی آرام گاہیں، درگاہیں کہلائی جانے لگیں اور جب یہ درگاہیں مرجع خلائق بن گئیں تو ان کے سجادہ نشین اور مجاور بھی وارد ہوگئے۔ ہم یہاں یہ التجا کرتے ہیں کہ سجادہ نشین و مجاوروں کے تسلط والی درگاہوں اور تعلیم و تربیت کے لئے قائم خانقاہوں والی درگاہوںکے ماحول میں پائے جانے والے لطیف فرق کو ملحوظ رکھا جائے۔ یقیناً آج بھی کچھ درگاہیں موجود ہیں جن کے ساتھ خانقاہیں جڑی ہوئی ہیں اوران خانقاہوں میں آج بھی صاحب مزار سے نسبت رکھنے والے اصلاح قلب کے کاموں میں لگے ہوئے ہیں جو کبھی ارباب اقتدار کی طرف ملتفت نہیں ہوتے مگر ایسی درگاہوں اور خانقاہوں سے عوام کی قلیل تعداد جڑی ہوئی ہے چونکہ ان کے ہاں ریاکاری ہوتی ہے اور نہ ہی شور شرابہ مگر ہمارے ملک میں ایسی بہت سی درگاہیں ہیں جہاں زائرین کے لئے سامان خرافات بہم کیا جاتا ہے اور ان کے مجاور، کم تعلیم یافتہ معصوم لوگوں کی عقیدت کا استحصال کرتے ہوئے اپنے لئے آسائشیں فراہم کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ یہ لوگ جو خود کو فقیر گردانتے ہیں دراصل وہ شاہانہ زندگی بسر کررہے ہیں۔ اسی طرح سلفیت اور اخوانیت سے وابستہ لوگوں میں سبھی ملت فروشی پر اتر نہیں آئے ہیں بلکہ ان مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے کئی جید علماء آج بھی کسمپرسی کی زندگی بسر کرتے ہوئے دین و ملت کی خاموش خدمت کررہے ہیں۔

درگاہوں سے ہی ہونے والی آمدنی اتنی خطیر ہوتی ہے کہ انہیں کچھ اور کئی بغیر پر تعیش زندگی میسر آجاتی ہے، اس کے باوجود ان میں دنیاوی حرص و طمع اس قدر بڑھ گئی ہے کہ وہ مزید متمول ہونے کے لئے ملت کا سودا کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ ایسے لوگوں میں ایسی قابلیت ہوتی ہی نہیں کہ وہ دینی حلقوں میں اپنی پہچان بنا پاتے اور نہ ہی دنیاوی معاملات میں وہ صاحب الرائے ہوتے، ان میں سے تو اکثر گانجہ کے دم لگانے والے ہیں مگر ان کی بڑی خواہش ہوتی ہے کہ لوگ ان کی قدم بوسی کریں اور ان کی آمد پر نعرے لگائیں۔حقیقت یہ ہے کہ درگاہوں کے باہر ان کی اپنی کوئی شناخت نہیں ہے مگر ہمیشہ سے یہ لوگ اپنے رنگ برنگے اور مضحکہ خیز عباوں اور قباوں سے سیاست دانوں کو اپنی طرف راغب کرنے کی سعی کرنے لگتے ہیں۔ سیاست داں بھی ایسے لوگوں کی خاطر مدارت اس لئے کرتے ہیں کہ وہ ان کے ذریعہ عام مسلمانوں کے دلوں میں اپنے لئے جگہ بنانا چاہتے ہیں۔

بہت پہلے سے ہی دیکھا جارہا تھاکہ ان مخصوص درگاہوں کے مجاور ہمیشہ اقتدار کی راہداریوں میں گشت کرتے رہتے ہیں مگر انہیں کوئی خاص اہمیت نہیں دی جاتی تھی،صرف انتخابات کے موقع پر ہی ان کی آو بھگت ہوا کرتی تھی۔ اگرچہ یہ لوگ پہلے بھی ارباب اقتدار کی توجہ بٹورنے ان کی چاپلوسی میں لگے رہتے تھے مگر ان کی خاطر خواہ پذیرائی نہیں ہوئی تھی۔ اسی طرح اہل حدیث اور دیوبندی مسلک سے وابستگی رکھنے والے کچھ افراد بھی سیاست میں اپنی قسمت آزمائی کرتے رہے تھے مگر انہیں بھی کوئی خاص کامیابی نہیں مل پائی تھی مگر نریندر مودی کے وزیر اعظم بننے کے بعد گویا ان کی قسمت ہی کھل گئی اور ان پر حکومت کی کرم فرمائی اس قدر بڑھ گئی کہ ملک کا وزیر داخلہ اور قومی سلامتی مشیر ہی نہیں بلکہ خود وزیر اعظم بھی ان کے لئے وقت دیتے ہیں۔ انہیں وزارت داخلہ میں اب بڑی آسانی سے رسائی حاصل ہوگئی ہے ۔

ارباب حکومت کی خوشنودی حاصل کرنے میں صرف ایک مخصوص مکتب فکر کے لوگ ہی شامل نہیں ہیں بلکہ ایک ایسی جمعیت کے لوگ بھی شامل ہیں جن کا یہ ماننا ہے کہ اللہ کے سوا کسی کے سامنے جھکنا شرک خفی ہے اور اس جماعت کے لوگ بھی کچھ پیچھے نہیں ہیں جن کا بنیادی مشن کبھی اللہ کی زمین پر اللہ کے نظام کا قیام تھا۔ صوفیوں اور سلفیوں اور جماعتیوں نے حکومت کی توجہ اپنی طرف مبذول کروانے کے لئے اپنوں کی ہی سر عام برائیاں کرنے لگے اور وہ بڑی حد تک یہ باور کروانے میں کامیاب ہوگئے کہ وہ اپنے مفادات حاصلہ کی تکمیل اور اپنے غیرقانونی اثاثے بچانے کے لئے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہیں۔

سلفیوں کا ایک ٹولہ جو عقیدہ کی اصلاح کے نام پر قوم سے خوب چندے بٹورتا رہا ہے وہ بھی اپنے مخالفین کی بیخ کنی میں کسی قسم کی کسر نہیں چھوڑی۔ یہ لوگ بھی دعوۃ و تبلیغ کی آڑ میں اس قدر دولت بٹور لئے تھے کہ انہیں ڈر ستانے لگا تھا کہ وہ کبھی بھی حکومت کی گرفت میں آسکتے ہیں چونکہ وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ اپنے پاس موجود بے تحاشہ دولت کا حساب کتاب پیش نہیں کرپائیں گے ۔ اس لئے ان لوگوں نے رضاکارانہ طور پر خودسپردگی اختیار کرنے میں ہی اپنی عافیت محسوس کی مگر انہیں اس بات کا احساس بھی نہ رہا کہ وہ اپنوں ہی کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔

افسوس تو اس بات کا ہے کہ ہمارے علماء کی سب سے بڑی اور منظم تنظیم بھی نازک وقتوں میں ملت کی رہنمائی کرنے کی بجائے حکومت کے اقدامات کی درپردہ تائید و حمایت کرتی نظر آرہی ہے۔ اس جمعیت کے قائدین میں جن کے اسلاف نے انگریزوں کے خلاف محاذ آرائی کی تھی ان میں وہ اپنے اسلاف کی سی جولانی نظر نہیں آتی۔ مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد مسلمانوں کے مفادات پر کاری ضرب لگانے والے جو اقدامات کئے گئے ہیں ان پر آواز اٹھانے کی بجائے یا تو خاموشی اختیار کی گئی یا پھر حکومت کے اقدامات کو قابل اعتراض نہیں گردانا گیا۔

ماضی قریب تک بھی مختلف مکاتب فکر کے ارباب اپنے عقائد اور افکار کا ڈٹ کر دفاع کیا کرتے تھے اور اپنے مخالفین کا رد بڑے ہی شد و مدسے کیا کرتے تھے مگر کبھی بھی ایسا نہیں ہوا کہ مخالفین کو زک پہنچانے کے لئے کسی بھی مکتب فکر کے اکابر نے مقتدر لوگوں کے در کی غلامی اختیار کی ہو۔ یہ لوگ عقائد و افکار کے مخالف تھے مگر اپنے مخالف مکاتب فکر کے ماننے والوں کے شخصی دشمن نہ تھے اور نہ ہی انہیں کسی قسم کا شخصی نقصان پہنچانے کے خواہاں تھے مگر حالیہ دنوں میں ہم نے یہ بھی دیکھا کہ چند سلفیوں، اخوانیوں اور صوفیوں نے اپنے مخالفین کو حکومت کے مخالف گروہ کے طور پر پیش کرتے ہوئے حکومت کو ان کے خلاف اکساتے رہے۔

ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ نوٹ بندی اور رقمی لین دین پر کڑی نظر رکھتے ہوئے حکومت نے ایسے کئی اداروں اور افراد کا پتہ لگالیا تھا جن کے پاس غیر محسوب و غیر قانونی دولت ہے۔ ایسے ہی چند لوگوں کی حرکتوں کو دیکھتے ہوئے اس منطق میں بھی صداقت نظر آتی ہے کہ ان لوگوں کے خلاف قانونی کارروائی نہ کئے جانے کی اصل وجہ یہ ہے کہ ان لوگوں نے حکومت کے اشاروں پر کام کرنے کی حامی بھرلی ہے۔ سلامتی کے نام پر منعقد کئے جانے والے اجلاس میں جمعیت اور جماعت کے نمائندوں کی شرکت سے صاف اشارہ ملتا ہے کہ ان تنظیموں میں بھی کہیں نہ کہیں مالی خرد برد ہوا ہے یا پھر ان کے قائدین کے پاس غیر محسوب دولت ہے، تبھی یہ مجبوراً ایسے اجلاسوں میں شرکت کررہے ہیں۔

ارباب حکومت نے جب یہ دیکھا کہ مسلمانوں کی قیادت جن کے ہاتھوں میں ہیں وہ معمولی سی سختی پر ہی کانپ اٹھے ہیںاور اپنے آپ کو خود سپرد کرنے پر آمادہ نظر آنے لگے ہیں اور کچھ لوگ تو رضاکارانہ طور پر حکومت کی غلامی اختیار کرنے پربے چین ہیں تو ان لوگوں کو آلۂ کار بنالیا گیا اور ان کے توسط سے رائے عامہ ہموار کرنے کی کوشش کی جانے لگی۔ ہم نے دیکھا کہ طلاق ثلاثہ ، آرٹیکل 370 کی تنسیخ ، سی اے اے ، مدارس دینیہ کا سروے اور سب سے اہم پاپلر فرنٹ آف انڈیا پر امتناع جیسے اہم مسائل میں چند تنظیموں اور افراد کی جانب سے درپردہ حکومت کی تائید و حمایت کی گئی بلکہ صوفیوں اور سلفیوں کے ذریعہ پاپلر فرنٹ آف انڈیا پر امتناع کا مطالبہ کروایا گیا ہے اور اس پر بالآخر امتناع عائد کردیا گیا۔

اگر یہ تنظیمیں اور افراد صرف اپنے ذاتی فائدے کے لئے حکومت کا قرب حاصل کرتے تو بھی معیوب بات تھی مگر افسوس کہ حکومت سے قربت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ صوفی جن میں رافضیت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ، حضرت امیر معاویہ ؓ کے بغض میں اب دعوت اسلامی کے مولانا الیاس قادری سے متاثر بھارتی مسلمانوں اور امام اہلسنت امام احمد رضا کے نام سے قائم رضا اکیڈیمی کو اپنا نشانہ بنانے کے درپے ہیں، چونکہ یہ دونوں ہی حضرت امیر معاویہ ؓ کا بھرپور دفاع کرتے ہیں۔ ممکن ہے کہ آئندہ دنوں میں دعوت اسلامی نامی تنظیم پر بھی امتناع عائد کردیا جائے چونکہ ناموس رسالت کے مسئلہ پر ادے پور کے ٹیلر کنہیا لال کے قتل میں ملوث دونوں نوجوان ، مولانا الیاس قادری سے نسبت رکھتے ہیں۔ یہ بھی بعید نہیں کہ رضا اکیڈیمی کی سرگرمیوں پر بھی قدغن لگادی جائے۔

ان ملت فروشوں کے حوصلے اسلئے بلند ہیں کہ ان تنظیموںمیںنہ ہی شورایت کا نظم ہے اور نہ ہی محاسبہ کا کوئی تصور۔ ان تنظیموں سے وابستہ عام ارکان صرف اپنے بڑوں کے احکام بجا لانے کو ہی ڈسپلن سمجھ بیٹھے ہیں اور ملک کا عام مسلمان اپنے نجی مسائل میں ہی اس قدر الجھا ہوا ہے کہ اسے ملت حالت زار پر غور وخوض کرنے کا موقع ہی نہیں مل پارہا ہے۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے یہی کہا جاسکتا ہے کہ قومی سطح پر نئی ملی قیادت کا ابھرنا فی الفور ممکن نظر نہیں آتا اس لئے علاقائی اور مقامی سطح پر ایسے گروپس تشکیل دئیے جانے چاہئے جو ملت کی صحیح رہنمائی بھی کرسکیں اور ملت فروشوں کا محاسبہ بھی۔