طنز و مزاحمضامین

دعوتیں

ڈاکٹرمحبوب فرید

ہمارے شہر میں کئی دعوت دینے والے گزرے ہیں۔ اسی سے وہ پہچانے جاتے ہیں۔ ان میں ایک صحافی بھی تھے، انھیں دعوت دینے کا بڑا شوق تھا، شائد اسی صفت کی وجہ سے اللہ ان کی مغفرت فرما دے،کیوں کہ ان کے دسترخوان پر امیر غریب‘محمود و ایاز سب ہی شامل رہتے تھے۔جب ہم پی ایچ ڈی کے دوران ان کا انٹرویو لینے گئے اور آنے کا مدعا بیا ن کیا تو بہت خوش ہوئے اور پر تپاک استقبال کیا۔ انٹرویو کے بعد دوپہر کے کھانے کے لیے اصرار کرکے گھر لے گئے اور بہت عمدہ ضیافت کی۔بعض وقت انٹرویو لینے والا اپنے موضوع سے دور ہوجاتا ہے تو کبھی با دل نا خواستہ انٹرویو دینے والا موضوع سے اتنا قریب ہوجاتا ہے کہ اصل موضوع نظروں سے اوجھل ہوجاتاہے۔ اس وقت ہمارے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہورہا تھا۔
بریانی سے ہمارے انٹرویوکا کوئی راست تعلق نہ تھا۔ مگر پھر بھی‘ ذکر یار چل پڑا۔ کیونکہ وہ کھانے کھلانے کے شوقین تھے۔ پینے پلانے سے کوئی تعلق نہ تھا۔انٹرویو لینا بھی ایک فن ہے۔ دل کی بات زبان پر لانا اور شائستگی سے بیان کرناکمال ہوتا ہے۔ پھراپنی بات پر تا حیا ت قائم رہنا بہت بڑ ی بات ہوتی ہے۔ ورنہ اکثر تو اپنے قول سے مکر جاتے ہیں۔آپ کچھ بھی کہیں حیدرآباد کی کوئی دعوت ”بریانی“ کے بغیر ادھوری رہتی ہے۔بھلے سے کوئی نواب سو قسم کے ڈشس بنوالے۔ بریانی کے بغیر دعوت میں حیدرآبادیوں کے منہ کا مزہ کرکرا ہوجاتا ہے۔
ہم جس سے انٹرویو لے رہے تھے وہ بریانی کا قصیدہ پڑھ رہے تھے۔ ہم ان کی ہر بات صبر و ضبط کے ساتھ سنتے رہے۔جب ہم نے کہا کہ بریانی کے بارے میں آپ نے بہت صحیح فرما یا تو وہ ہم سے بہت خوش ہوگئے اور فوراً اپنے پی اے کو بلا کر کہا کہ ان کے دعوتیوں کے رجسٹر میں ہمارا نام درج کرلیں۔ چنانچہ انھوں نے ایک پرانا رجسٹر ہماری طرف بڑھاتے ہوئے کہا کہ جناب اس میں اپنا نام پتا مع فون نمبر لکھ دیں۔ہم نے سرسری طور پر رجسٹر میں درج ناموں پر نظر ڈالی تو معلوم ہوا اس ملک کے بڑے بڑے سیاسی قائدین (نام لینا مناسب نہیں) علماء و مشائخین‘ قومی سطح کے صحافی‘ بڑے بڑے وکلاء‘ شعرا ء اور شاعرت وغیرہ کے نام پہلے سے درج ہیں۔ ہم نے بلا تاخیر ان کی فہرست میں اپنا نام درج کردیا۔ اس وقت ہمارا نام بہت مختصر تھا۔
ایک دن ہمارے آفس میں گھنٹی بجی۔ معلوم ہوا موصوف کے پی ائے لائین پر ہیں۔ اسی دوران حیدرآباد میں اردو صحافت کا جشن بڑے پیمانے پر منایا جارہا تھا۔ اس موقع کی مناسبت سے موصوف صحافی ملک کے نامور صحافیوں اور دانشوروں کے لئے دعوت کا اہتمام کیا ہے۔ اس دعوت میں ہمیں بھی مدعو کیا گیا تاکہ کچھ نئے اور پرانے صحافیوں سے ملاقات کے ساتھ ساتھ ان کی بریانی کی تصدیق بھی ہوسکے۔ اس دعوت میں بریانی کھانے کے بعد ہم بلا خوف وتردید ہم تصدیق کرسکتے ہیں کہ ا ن کے گھر بنائی جانے والی بریانی واقعی ”بریانی“ ہوتی تھی۔اللہ مغفرت فرمائے ایڈیٹر وصحافی کی وہ بریانی تو ان کے ساتھ ہی حیدرآباد سے ہمیشہ کے لئے ہم سے جدا ہوگئی۔ اللہ اس بریانی کی مفغفر ت فرمائے اس کو ہم برسو ں بھلا نہیں پائیں گے۔
٭برتھ ڈے پارٹی عرف دعوت سالگرہ: کسی زمانے میں اس دعوت کا بڑا چرچا ہوتا تھا۔ لوگوں کو تو دعوت دینے اور لینے کا بہانہ چاہیے۔ کچھ نہ ہوتو برتھ ڈے پارٹی‘ شادی کی سالگرہ‘ مرنے والے کی برسی و غیرہ کے نام سے دعوتیں ہوتی رہتی ہیں۔ تاکہ لوگ مشغول رہیں اور گلشن کا کاروبار بھی چلتا رہے۔ اس میں سب سے زیادہ اہمیت برتھ ڈے پارٹی کی ہوتی ہے کیونکہ ہر خاندان میں کوئی نہ کوئی‘کہیں نہ کہیں پیدا ہوتا رہتاہے۔ ایک دو بچوں تک اس دعوت کی بڑی دھو م اور گرمی رہتی ہیں۔ بچوں کی تعدا د میں اضافہ کے ساتھ برتھ ڈے منانے کا شوق مدھم پڑتا جاتاہے۔احتیاط کے ساتھ بھی کہا جائے تو ہر گھر چار یا اس سے زیادہ بچے ضرور ہوتے ہیں۔ معہ ماں باپ دس لوگو ں کی برتھ ڈے منانا گویا ہر دوماہ بعد ایک برتھ ڈے پارٹی منانا کوئی بچوں کا کھیل نہیں وہ بھی آج کے مہنگائی کے دور میں۔
بہت دن پہلے کی بات ہے۔ ہمارے ایک قریبی دوست اپنی اہلیہ کے ساتھ تشریف لا ئے اور ہمیں ان کے پہلے بچے کی پہلی سالگرہ کی دعوت دی۔ ہم نے معذرت کرلی کہ ہم ایک ایسے مقدس پیشے سے وابستہ ہیں جہاں کان کھجانے کی بھی فرصت نہیں ملتی اس لئے کان بھی ہم گھر آکر کھجاتے ہیں تو پھر برتھ ڈے پارٹی میں شرکت ہمارے لیے بہت مشکل ہے۔ انہو ں نے اپنے بچین کی دوستی کا واسطہ دیا اور گزرے دنوں کی یاد دلائی بلکہ غیر ت دلائی کہ ہم کیا تھے اور اب کیا ہیں۔ہم سمجھ گئے کہ اگر ہم نے اس دعوت میں شرکت نہیں کی تو وہ ہمارے کالج کے زمانہ کی شرارتوں کا پٹا رہ کھو ل دیں گے۔ اس لئے ہم نے فوراًشرکت کی حامی بھر لی۔ جب ہم جائے وقوع پر پہنچے تو ان کا گھر برقی قمقموں سے جگمگا رہا تھا۔ انواع و اقسام کے پکوان سے محلہ مہک رہا تھا۔اس تقریب میں نزدیک و دور کے دوست احباب و رشتہ دار مدعوتھے۔ہر آنے والا کوئی نہ کوئی تحفہ ساتھ لا رہا تھا۔ ہمارے دوست اپنے فرزند دلپسند کو گوو میں لئے ہر آنے والے کا استقبال کرتے ہوئے لپک کا ان کے ہاتھ سے تحفہ لے کر ٹیبل پر قرینے سے انھیں جمع کر ر ہے تھے۔دوسری جانب ایک ٹیبل پر خو ب صورت سا کیک رکھا ہواتھا۔ پتا نہیں یہ کیک کاٹنے اور موم بتی بجھانے کا رواج ہمارے یہاں کب سے شروع ہوا۔ اس موضوع پر کوئی نوجوان تحقیق کرسکتا ہے اس پارٹی میں تو اب آتش بازی کا عنصر بھی شامل ہوگیا ہے۔ چھوٹے بچوں کو رنگ بہ رنگ کے کپڑے اور ٹوپیاں پہنا نا اور Happy Birth Day to Youکے گیت گانا۔ ماں باپ کی اس حرکت پر بچہ آنسو بہا رہا تھا۔
مہمانو ں کی سار ی توجہ بچے کے بجائے ماں باپ پر مرکوز تھی کیوں کہ انھوں نے بیوٹی پارلر پر خطیر رقم خرچ کی تھی۔قصہ مختصریہ کہ ڈنر کے بعد لو گ ایک ایک کرکے رخصت ہونے لگے۔ ہم نے بھی اجازت چاہی تو ہمارے پر خلوص دوست نے ہم سے کچھ دیر ٹہر نے کی درخواست کی۔ ہم منع نہیں کرسکے کیوں کہ ابھی ابھی ان کا نمک حلال کیا تھا اور میٹھا بھی۔ہم اندر ہی اندر شرمندہ ہورہے تھے کیوں کہ ہم بغیر تحفے کے اس تقریب میں شرکت تھے۔ ہم جان بوجھ کر تحفہ نہیں لائے تھے تاکہ اس قسم کی خرافات پر خاموش احتجا ج ہوسکے۔مہمان جانے کے بعد ہماری نگرانی میں سارے تحائف کی رونمائی ہوئی اور ایک نئے رجسٹر میں تحفہ دینے اور نہ دینے والوں کے نام اور پتے درج کیے جانے لگے۔ ہم نے اپنے پرخلوص دوست سے پوچھا …………ایسا کیوں کیا جار ہا ہے؟ تو بولے جو لوگ قیمتی تحفہ لائے ہیں انھیں آئندہ سال پھر مدعو کیا جائے گا اور …………ہم سمجھ گئے کہ …………آئندہ سال کی فہر ست میں ہمارا نام نہیں ہوگا۔چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ بعد میں پتا چلا کہ ان کے گھر اللہ کی طرف سے پانچ تحفے آئے جس میں رحمت اور فضل دونو ں شامل تھے۔ اب برتھ ڈے پارٹی کا سلسلہ موقوف ہوگیا ہے اور ہمارے دوست کے مزاج میں عجز و انکساری کا عنصر غالب آ گیا ہے۔
٭شادی کی سالگرہ Marriage Anniversary :میاریج انورسری منانا دل والو ں کا کام ہے۔اس کا اہتمام میاں بیوی دونوں ملکر کرتے ہیں مگر زیادہ دباؤ بیوی کا ہوتا ہے۔ازدواجی زندگی کے پہلے پائیدان پر اور زندگی کے آخری پڑاؤ میں شادی کی سالگرہ منا نا بڑی اہمیت کا حامل ہوتاہے۔اس تقریب میں بھی عموماً کیک کاٹا جاتاہے۔ حالانکہ ہماری تہذیب اور ثقافت سے اس کا دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ یہ رواج کب سے ہماری تہذیب کا حصہ بن گیا۔ اس کی کیا وجہ نہیں معلوم۔ اس تقریب کے اہتمام سے سماج کو یہ تاثر دینے کی کوشش کی جاتی ہے ”سب کچھ ٹھیک ہے۔“اس جملے کی تصدیق ایک بچے کی آمد سے ہوتی ہے۔
٭گلف ریٹرن پارٹی Gulf Return Party: گلف ریٹر ن کی مثال …………گھر کا نہ گھا ٹ کا‘ جیسی ہوتی ہے۔ الا ماشاء اللہ۔دوسرے ممالک میں اگر وہ اتنی مدت خدمات انجام دیتا تو اسے وہاں کی شہریت مل جاتی۔ بزرگ شہری کے لئے وہاں جو حقوق ہیں وہ سارے ملتے۔دوسرے زاوئیے سے دیکھیں تو گلف جانے والے اپنے ملک عزیز کی حقیقی خدمت انجا م دیتے ہیں۔ ہر ماہ زرمبادلہ بھیج کر اپنے ملک کی معیشت کو مستحکم کرتے ہیں۔ اپنے لیے بہت ہوا تو ایک گھر بنالیتے ہیں‘ ایک پلاٹ خرید لیتے ہیں‘ بچوں کو لندن امریکہ یا گلف بھیج دیتے ہیں او رلڑکیوں کی شادیاں کردیتے ہیں اور کیا …………اس طویل مدت قیام کے عوض چند بیماریاں ساتھ لاتے ہیں جیسے ذیابطیس‘ ہائی بی پی‘ امراض قلب‘ جوڑوو ں کا درد‘ السر وغیرہ وغیرہ۔ واپسی کے بعد ڈاکٹروں اور دواؤں کے چکر میں زندگی تمام کر لیتے ہیں۔بعض گلف ریٹرن جو اپنے بچوں کو لندن‘امریکہ‘ آسٹریلیا وغیرہ بھیجتے ہیں، سال دو سال میں وہاں کا ایک چکر لگا آتے ہیں۔بعض لوگوں کو گلف میں خاص کر سعودی عرب میں رہنے کے بعد وہاں کا کلچر اچھا نہیں لگتا۔ چند دنوں ہی میں لوٹ آتے ہیں۔ نہ گلف میں رہ سکے نہ لندن‘امریکہ یا کینیڈا میں ٹک سکے۔اسی لیے میں نے ابتدا ء میں کہا تھا …………گھر کانہ گھاٹ کا۔
جہاں تک مجھے یاد ہے عام طور پر ستر کی دہائی سے لوگ گلف جانے لگے۔ ہوسکتا ہے، اس سے پہلے سے بھی لوگ گلف جاتے رہے ہوں۔پہلے پہل تو صرف دبئی کا چرچا تھا۔بعد میں لوگ کویت اور سعودی عرب جانے لگے۔ان دنوں میٹرک Matricکی زیادہ قدر تھی کیو ں کہ اس میں حروف زیادہ ہیں جب کے بی اے اور بی ای سے لوگ زیادہ آشنا نہ تھے، کیونکہ اس میں صرف دو ہی حروف ہیں۔ وہاں بعض لوگ ایسے بھی تھے جو ہاتھ پر قیمتی گھڑی لگاتے تھے مگر انہیں وقت دیکھنا نہیں آتا تھا۔ لیکن اب تو حالات بہت بد ل گئے ہیں۔چند سال بعد توکئی اعتبار سے گلف‘ یوروپ‘ امریکہ‘ کینیڈا‘ جرمنی اور اٹلی سے بھی آگے ہوجائے گا۔

وہ دن بہت اچھے تھے جب کوئی گلف جاتا تو کم و بیش پورا خاندان ایرپورٹ یا ریلوے اسٹیشن الوداع کہنے آتا تھا۔ کسی حد تک رونا دھونا بھی ہوتا تھا۔اور قریبی رشتہ خاص کر سسرا لی رشتہ اپنے بچوں کے پاسپورٹ کی زیراکس اور سی وی کی کاپی حوالے کرکے جلد سے جلد ویزا بھیجنے کی خواہش کرتے تھے۔ جس کی وجہ سے کم و بیش ہر گھر سے کوئی نہ کوئی گلف پہنچ گیا اور اپنی قسمت کا رزق لے آیا۔ جس سے حیدرآباد کا نقشہ بدل گیا۔ یہ رجحان میں نے کیرالا کے لوگو ں میں زیادہ دیکھا۔ کتنا بھی پڑھا لکھا ہو چھوٹے سے چھوٹا کا م بخوشی کرلیتاہے لیکن اپنے رشتہ دار اور دوستوں کو ضرور ویزا بھیج دیتا۔ اس شرط کے ساتھ کہ وہ آنے کے بعد کم از کم ایک رشتہ دار یا قریبی دوست کو ویزا دے کر بلا لے گا۔ اس طرح آج گلف میں ہندوستانیوں میں کیرالا کے لوگ زیادہ آباد ہیں۔
دولت کے ساتھ شیطان بھی آتا ہے۔کچھ لوگ رحمن کی پناہ سے اس پر قابو پا لیتے ہیں اور کچھ پر وہ اپنا تسلط جما لیتاہے۔ہم تو یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ اسراف کرنے والا شیطان کا بھائی ہوتاہے۔حیدرآباد میں ہزاروں سے بڑھ کر لاکھو ں بلکہ کروڑوں میں خرچ کرنے کا رواج گلف کی دولت سے ہوا۔ ورنہ پہلے تو شادی ولیمہ میں لقمی کباب‘ بریانی اور ایک میٹھے پر اکتفا کیا جاتاتھا۔بچہ کی پیدائش سے لے کر بزرگوں کی موت تک کئی دعوتوں کا اہتمام کیا جاتاہے۔جس میں دولت کا بے دریغ اسراف کیا جاتاہے۔
مہمان نوازی حیدرآبادیوں کے خون میں شامل ہے۔آج سے چند سال پہلے ایک موقر روزنامے میں کسی نے ایک مضمون تحریر کیا تھا کہ مہمان نوازی دراصل گنڈی پیٹ کے پانی کا اثر ہے۔لیکن اب حیدرآباد میں دریائے کرشنا کا پانی سربراہ کیا جار ہا ہے شائد اس کے اثرات بھی نما یاں ہورہے ہیں۔ستر اور اسی کے دہے میں حیدرآباد میں دعوتوں کا طوفا ن آیا۔ کوئی گلف جاتا تو دعوت دی جاتی تھی اور اگر کوئی گلف سے چھٹی پر آتا تو دعوت دی جاتی تھی پہلے رشتہ دار دعوت دیتے تھے پھر موصوف جانے سے قبل دعوت دیا کرتے تھے۔بعض وقت تو غز ل نائٹ اور قوالی نائٹ کا بھی اہتمام ہوتا تھا۔شادی بیاہ کی تقار یب اس کے علاوہ ہوتی تھیں۔اس کا فائدہ کم نقصان زیادہ ہوتا ہے۔ فائدہ یہ کہ ایک نشست میں کئی دوست احباب اور رشتہ داروں سے ملاقات ہوجاتی تھی نقصان یہ کہ بے جا اسراف ہوتاتھا۔گلف میں مندی کے ساتھ اس طرح کی دعوتوں کو گہن لگ گیا۔
حیدرآباد کی دعوتو ں نے ہائی ٹیک سٹی سے زیادہ ترقی کی ہے۔ ہر چیز ڈیزائنر ہوگئی۔ شیروانی‘ سوٹ‘ پرفیوم‘ کھڑا دوپٹہ‘ ساڑیاں‘ شلوار سوٹ وغیرہ وغیرہ۔ ہم نے ہمارے خاندانی ٹیلر سے پوچھا۔ آج کے دور میں شادی کی شیروانی کی قیمت کیا ہوتی ہے؟ وہ چپ ہوگیا۔ ہم سے اچھی طرح واقف ہے کہ ہم بات کا بتنگڑا بنا دیتے ہیں اس سے اس کی روٹی روز گار پر بھی ناخوشگوار اثر پڑ سکتاہے۔ ہم نے اصرار کیا تو ا س نے کہا۔ اس کی کوئی حد نہیں ہے۔ ہم نے کہا پھر بھی ………… تو کہا …………ایک لاکھ سے زیادہ بھی ہوسکتی ہے۔ اس لئے لوگ کرایے کی شیروانی و سوٹ کو ترجیح دے رہے ہیں۔ ہم سنتے ہی دنگ رہ گئے۔کیونکہ ہماری اچھی سے اچھی شیروانی دس بیس ہزا ر سے زیادہ کی نہیں ہے۔
خاندان کتنا بھی ماڈرن ہو شادی کے موقع پر لاڑبازار کو خاص اہمیت دی جاتی ہے‘ اس بازا ر کی اپنی ایک شان ہے جس کو کوئی بھی حیدرآبادی خاتون نظر انداز نہیں کرسکتی، کیونکہ یہاں خواتین کے لاڑوں اور بناؤسنگھار کی کم وبیش تمام اشیاء دستیا ب ہوتی ہیں۔ جو شہر میں کسی دوسری جگہ نہیں ملتیں ا س لیے حیدرآبادی خواتین شادی سے قبل یہاں کا ایک چکر لگانا نفل سمجھتی ہے۔ پتھر گٹی‘ توپھر پتھر گٹی ہے۔ یہاں دلہن کے جوڑے نہا یت عمدگی سے تیار کئے جاتے ہیں یہ صرف یہاں کے کاریگروں کا حق ہے جو دوسرا نہیں کرسکتا۔ گلزار حوض کے اطراف واکنا ف میں زیورات کی دکانیں ہیں جہاں حیدرآبادی خواتین کے ذوق کے پیش نظر نوابی زیورات تیار کئے جاتے ہیں جیسے چمپا کلی‘ چندن ہار‘ چوکر‘ گلوبند‘ جڑوای لچھا‘ رانی ہار‘ چین‘ چھڑا‘ بوندیں‘ جھمکے ’چاند بالیاں‘ ٹاپس‘ انگوٹھیاں‘ چوڑیاں‘کڑے وغیرہ وغیرہ اور چارمینار پر قرآن مجید اور دیگر چھوٹے چھوٹے تحفے ملتے ہیں۔ اس لیے یہاں شاپنگ کئے بغیر شادی مکمل نہیں ہوتی۔ مچھلی کمان کی کرا کری اور عطریات کا اپنا ایک مقام ہے۔یہاں چین‘جاپان‘ہندوستان وغیر ہ کی کراکر ی واجبی داموں میں مل جاتی ہے۔شاپنگ کے دوران شہران کی لسی اور شاداب کی بریانی کا مزہ ہی کوکچھ او ر ہے۔ اس لئے شادی سے قبل یہا ں کا کم سے کم ایک چکر لگاناحیدرآبادی واجب سمجھتے ہیں۔ اس کے بعد دیوان دیوڑھی سے دلہن کے پلنگ بستر‘بیڈ شیٹ‘ بلانکٹ وغیرہ‘ پردے‘ مچھر دان‘ وغیرہ خرید نا پڑتاہے۔ شادی کے بعد مچھر کا کیا کام …………؟ مگر دلہن والوں کو مچھر دان لازماً دیناپڑتا ہے۔ برأت سے شادی خانہ تک‘ ڈنر سے وداعی تک‘ آتش بازی‘ ڈی جے‘اونٹ‘گھوڑے‘ہاتھی‘انٹک کاریں اور اب ڈولی سسٹم بھی ترقی کرتا جارہا ہے۔نئے نئے ہندوانہ اور راجپوتانہ رسم و رواج مسلم معاشرے میں جنم لے رہے ہیں۔یہ سب شیطان کی چال ہے جو اسراف کی نئی نئی راہیں ہموار کر رہا ہے اور شیطان ہمارا ازلی دشمن ہے یہ بات تو سبھی جانتے ہیں۔ اب متوسط لڑکی والو ں کا خرچ کم سے کم بیس تا تیس لاکھ ہوگیا ہے۔متمول لوگوں کی لڑکی کی شادی میں تو اب کروڑوں روپے خرچ ہورہے ہیں۔ لڑکی کے علاوہ مہمانوں کو بھی بڑے بڑے تحفہ جیسے فریج‘واشنگ مشن‘ اے سی‘ کولر‘ فیان‘ ہیرے کی انگوٹھی دی جارہی ہے۔کچھ خیر پسند تنظیموں نے ایک کھانا ایک میٹھا جیسی اصلاحی اسکیم کا آغاز کیا ابتداء میں تو کچھ خوشگوار اثر دکھائی دیا مگر پھر وہی ”پلاس کے تین پتے۔ٹائیں ٹائیں فش……!
اب تو دعوتوں میں کچھ لوگ چالیس تا ننانوے قسم کے پکوان کروا رہے ہیں۔ جو ایٹم ایک بار کھا لیے وہ دوسری بار نہیں آتا۔ کیٹرنگ کا رواج عام ہوتا جارہے ہے۔جو کھانا بچ جائے وہ شادی خانے میں پھینک کر جارہے ہیں۔ یہ اللہ کے رزق کے بے حرمتی ہے۔میریج پیلیس اب شہر سے نکل کر نئے نئے ناموں سے مضافا ت میں اپنے جلوے بکھیر رہے ہیں۔جن کا ایک دن بلکہ چند گھنٹوں کا کرایہ پانچ تا دس لاکھ کے درمیان ہوتا ہے۔
بدلتے معاشرے پر نظر رکھنا اور سماج کی کمزورپہلوؤں کی نشان دہی کرنا ہرخیرپسند شہری کی ذمہ داری ہے۔ ملک کے دیگر علاقوں میں دعوتوں میں اس طرح کا اسراف نہیں ہوتا جیسا کہ حیدرآباد میں ہوتا ہے۔ دعوتیوں کو کھلانا کمال نہیں ہے بلکہ صحت مند غذا کھلانا کمال ہے۔ ہمارے ایک دوست میری اس بات کا مطلب کچھ اور سمجھ گئے ا ورولیمہ ڈنر کے موقعہ پر بگھارے کھانا‘دالچہ اور میٹھا کا انتظام کردیا۔ لوگو ں نے جب ان سے پوچھا تو کہا۔ یہ بات ڈاکٹرمحبو ب فرید سے پوچھئے۔ وہ ہال میں تشریف فرما ہیں۔ ایک دو حضرات کو ہم نے اس کھانے کی طبی افادیت بتلائی تو کہا ………… اس خوشی کے موقعہ پر آپ کو یہ سب کہنے کی کیا ضرورت تھی۔ ایسے موقعوں پر ہی تو کھا یا اور کھلا یا جاتا ہے۔ آپ تو اپنی دعوتوں میں سب کو گیارہ ائٹم کھلا دئیے۔ یہ تو بڑی مشکل سے نو ائٹم پر تیار ہوئے تھے۔ آپ نے تو سب کا حق مار دیا۔ اس کے بدلے اب آپ کو دعوت دینی پڑے گی۔ ہم کچھ کہے بغیر چپ چاپ وہاں سے خیر و خیریت کے گھر چلے آئے۔ دعوتیں تو پھر آخرکار دعوتیں ہوتی ہیں۔ ٭٭٭