مضامین

شہر اور ملاوٹ

رونا تو اس بات کا ہے کہ اب گاؤں بھی ملاوٹ سے محفوظ نہیں رہے بلکہ گاؤں والے تو اب شہریوں کے پر کترتے ہیں ۔

محمد عمران اعظمی

حیدرآباد ، ملاوٹ کاگڑھ نہیں بلکہ ٹیکم گڑھ ہے جس کا ذکر ابن صفی کی ناولوں میں بکثرت ملتا ہے ، ویسے دیکھا جائے تو ہر شہر کی یہی کہانی ہے ، رونا تو اس بات کا ہے کہ اب گاؤں بھی ملاوٹ سے محفوظ نہیں رہے بلکہ گاؤں والے تو اب شہریوں کے پر کترتے ہیں ۔ ملاوٹ کی اگر ہم تقسیم در تقسیم میں جائیں تو مضمون زلف دراز بن جائے گا، اس لیے چیدہ چیدہ تقسیمات سے کام لیا جارہا ہے ۔

سماجی ملاوٹ

سماجی ملاوٹ کا اصل مظاہرہ شادی بیاہ کے موقعوں پر ہوتا ہے جو کچھ یوں ہے : طرفین با نعلین میں مصنوعی مسکراہٹ اور اخلاص میں شرارت کی ملاوٹ، دولہن کے بالوں میں جاپانی خضاب کی ملاوٹ، پلکوں پر مسکارے کی ملاوٹ، دولہا پسند نہیں اس لیے زبردستی کی ’’ ہاں‘‘ میں ایک دل سوز ’’ آہ‘‘ کی ملاوٹ، جہیز کے پلنگ کی لکڑی میں شیشم کے ساتھ غیری لکڑی کی ملاوٹ، کھیر میں باسی کھویا کی ملاوٹ، بیف کی بریانی میں بکری کی ہڈیوں کی ملاوٹ، بریانی میں پھٹکری کی ملاوٹ کہ چند لقموں میں اشتہا کا جنازہ نکل جائے، رقعوں کی طباعت میں طباعتی غلطیوں کی ملاوٹ، دولہن کے رشتے داروں کی طرف سے شادی کو یادگار بنانے کے لیے غیر ضروری قرضوں کی ملاوٹ، دولہے کی علمی قابلیت میں جھوٹی ڈگری کی ملاوٹ، فریقین کی طرف سے اسم نویسی کے باب میں فرضی اعدادو شمار کی ملاوٹ، گندمی گالوں پر غازہ و پاوڈر کی ملاوٹ، پھولوں کے ہار میں پودینہ کی ملاوٹ، کپڑوں میں عریانیات کی ملاوٹ، تکیوں کی روئی میں درزی کی کترن کی ملاوٹ، دلہن کے حسن میں بیوٹی پارلر کی ملاوٹ، سماج میں غیر سماجی عناصر کی ملاوٹ، دولہے کے پان میں مرچی کی ملاوٹ، شرمندگی میں اداکاری کی ملاوٹ اور شہر کے امن و امان میں کرفیو اور دفعہ 144کی ملاوٹ۔

ماحولیاتی ملاوٹ

بہار میں خزاں کی ملاوٹ، موسیٰ ندی میں ڈرنیج کی ملاوٹ، شہری فضا میں گرد وغبار اوردھویں کی ملاوٹ، سڑک میں فٹ پاتھ اور گڑھوں کی ملاوٹ اور فٹ پاتھ کے کونوں میں بول براز کی ملاوٹ، رات کے ماحول میں دھندلے تاروں ، چوریوں اور مچھروں کی ملاوٹ نیز بلدی پانی میں ڈرنیج کے پانی کی ملاوٹ۔

دینی ملاوٹ

عید کی مبارکباد میں فحش گالیوں کی ملاوٹ، تراویح میں اونگھ کی ملاوٹ،حج اور عمرہ میں ’’ کالی دولت‘‘ کی ملاوٹ، تراویح خوانی میں حافظ صاحب کی طرف سے ایکسپریس رفتار کی ملاوٹ، رمضانی اشتہارات میں بلند بانگ دعوؤں کی ملاوٹ، بکرے کی حلیم میں بیف کی ملاوٹ ، نماز میں تجارتی سوچ کی ملاوٹ، ریش تراشی میں عصری حسیت کی ملاوٹ، دینی تعلیم میں عصری تعلیم کی ملاوٹ، چندہ کی وصولی میں بھاری ’’ کفاف‘‘ کی ملاوٹ، فرض نمازوں کی ادائیگی میں جلد بازی کی ملاوٹ اور نماز میں سل فون کی گھنٹی کی ملاوٹ…

تجارتی ملاوٹ

یہ بات بہت طویل ہے مختصر عرض ہے ، سچ میں جھوٹ کی ملاوٹ،آم کی جوانی میں کارپٹ کی ملاوٹ،ایک کیلو گوشت میں دو سو گرام چھیچھڑوں کی ملاوٹ،دودھ میں پانی کی ملاوٹ، کنٹل چاول کے تھیلے میں ایک کیلو کنکر کی ملاوٹ، مسکے میں دہی کی ملاوٹ، مٹی میں آدھی آدھی اینٹوں کی ملاوٹ، گھی میں چربی کی ملاوٹ ، دہی میں پاؤڈر کی ملاٹ، آٹے میں گرد کی ملاوٹ، سل کے کاروبار میں عصری فریب کی ملاوٹ، زیراکس کاپی میں کالی لکیروں کی ملاوٹ، پرانے فلمی نغموں میں Remixکی ملاوٹ، مزدوروں کے کام میں سستی کی ملاوٹ، سیمنٹ میں پتھر کی ملاوٹ ، اخلاق میں خوشامد کی ملاوٹ، ربر بینڈ کے پیاکٹ میں ٹوٹے ربر بینڈ کی ملاوٹ، دہی بڑوں میں پانی کی ملاوٹ، تازہ پھلوں میں باسی پھلوں کی ملاوٹ، حسن میں عشق کی ملاوٹ، اصلی نوٹوں میں نقلی نوٹوں کی ملاوٹ، پٹرول میں کیروسین کی ملاوٹ، پولیس کی فرد جرم میں دھاندلی کی ملاوٹ، سرکاری فائلوں میں رشوت کی ملاوٹ، بادام میں مونگ پھلی کی ملاوٹ، صحت مند انڈوں میں گندے انڈوں کی ملاوٹ،ریشمی دھاگوں میں سوتی دھاگوں کی ملاوٹ، برقع کے ڈیزائن میں فیشن کی ملاوٹ، آنسو میں پیاز یا گلیسرین کی ملاوٹ، گدھوں کے ریوڑ میں ایک ( آدھ) خچر کی ملاوٹ اور خمیرہ گاؤ زبان میں برفی کی ملاوٹ،اسکول میں ڈونیشن کی ملاوٹ۔

طبی ملاوٹ

چشمے میں بائی فوکل کی ملاوٹ، دواؤں میں الکحل کی ملاوٹ، ٹیبلٹ میں چاک کی ملاوٹ ، پیشہ طب میں موقع پرستی کی ملاوٹ، یونانی طریقہ ٔ علاج میں انگریزی طریقۂ علاج کی ملاوٹ، انگریزی علاج میں ڈھیر سارے مہنگے مہنگے معائنوں کی ملاوٹ، قبل از مرگ علاج میں مصنوعی آلہ تنفس کی ملاوٹ، معدنیاتی پانی میں بلدی پانی کی ملاوٹ، علاج میں اپنی ہی ڈسپنسری سے دوا خریدنے کی شرط کی ملاوٹ، سرکاری دواخانوں میں ہڑتال کی ملاوٹ اور ڈاکٹر کی ڈگری میں جعلی ڈگری کی ملاوٹ۔

ادبی ملاوٹ

ادبی ملاوٹ تک رسائی کوئی آسان کام نہیں لیکن واقعہ ہے جیسے اپنے شعروں میں غالب کے خیالات کی ملاوٹ، عربی ’’ حراء ‘‘ میں اردو کی ملاوٹ ، اردو میں انگریزی کی ملاوٹ، پی ایچ ڈی ڈگری میں ’’ خریداری‘‘ کی ملاوٹ، شعر میں غیر ضروری ’’زحاف‘‘ کی ملاوٹ، ادب میں ’’ زرد صحافت‘‘ کی ملاوٹ، ملاوٹ میں ملاوٹ ، جی ہاں دہی میں جس پاوڈر کی ملاوٹ ہوتی ہے وہ پاوڈر خود ملاوٹ کا شکار رہتا ہے ۔ بہرحال شہر میں کوئی چیزخالص اور اصلی دستیاب نہیں ، ہاں لوگ دوسروں کو دھوکا بڑے خلوص سے دیتے ہیں اور شاید یہی ایک چیز اب خالص رہ گئی ہے ۔

نہ محبت نہ مروت نہ خلوص اے شعریؔ
میں تو شرمندہ ہوں اس دور کا انساں ہوکر
٭٭٭