مذہب

صرف نیت سے طلاق واقع نہیں ہوتی

شریعت میں بعض امور وہ ہیں، جو محض نیت اور ارادہ سے وجود میں آجاتے ہیں، گویا وہ فعل قلب سے متعلق ہے، اور بعض امور اعضاء و جوارح کے ذریعہ وجود پذیر ہوتے ہیں،

سوال:- زید اپنی بیوی کو طلاق دینا چاہتا ہے اور اسی نیت کے تحت وہ یہ عہد اپنے آپ سے کر لیتا ہے کہ اگر وہ چار مہینے یا اس سے زیادہ اپنی بیوی سے کسی قسم کے ازدواجی تعلقات نہ رکھے ، تو خود بہ خود طلاقِ بائن ہوچکی ؟

کیا اس کی بیوی اس کے نکاح میں شامل ہے ؟ نیز یہ بھی کہ زید نے کسی کتاب میں ایلاء کے بارے میں بھی پڑھا ہے ، تو کیا بغیر اقرارکے صرف دل میں طلاق کی نیت کر کے ایسا عمل کرنے سے طلاق واقع ہوئی یا نہیں ؟ کیوں کہ کسی بھی چیز کا انحصار نیت پر ہوتا ہے ؟ ( عبد المبین، چادر گھاٹ)

جواب:- شریعت میں بعض امور وہ ہیں، جو محض نیت اور ارادہ سے وجود میں آجاتے ہیں، گویا وہ فعل قلب سے متعلق ہے، اور بعض امور اعضاء و جوارح کے ذریعہ وجود پذیر ہوتے ہیں،

نکاح و طلاق بھی ان معاملات میں سے ہیں، جو زبان کے ذریعہ وجود میں آتے ہیں، اس کے لیے دل کا ارادہ کافی نہیں ؛ اس لیے محض نیت کی وجہ سے طلاق واقع نہیں ہوتی ،

ایلاء کے لیے بھی دل کا ارادہ کافی نہیں ؛ بلکہ زبان سے ترکِ تعلق کے عزم کا اظہار ، نیز حنفیہ کے نزدیک اس پر قسم کھانا بھی ضروری ہے:

و أما رکنہ فھو اللفظ الدال علی منع النفس عن الجماع في الفرج مؤکداً بالیمین باللّٰہ تعالیٰ الخ (بدائع الصنائع: ۳؍۲۵۴) ؛اس لیے جو صورت آپ نے لکھی ہے، اس میں طلاق واقع نہیں ہوئی ۔