حیدرآباد

قادیانیت سے وابستہ ایک خاتون کا قبول اسلام

رسول اللہﷺ کو آخری نبی تسلیم کرنا اسلام کا بنیادی عقیدہ ہے اور اس کو عقیدہ ختم نبوت کہتے ہیں، خود کو ”احمدی مسلمان“ کہنے والے قادیانی اس عقیدہ کے منکر ہیں، نعوذ بااللہ آقا دوجہاں ﷺ کے بعد اپنے مذہبی پیشوا مرزا غلام قادیانی کو نبی مانتے ہیں۔

حیدرآباد: رسول اللہﷺ کو آخری نبی تسلیم کرنا اسلام کا بنیادی عقیدہ ہے اور اس کو عقیدہ ختم نبوت کہتے ہیں، خود کو ”احمدی مسلمان“ کہنے والے قادیانی اس عقیدہ کے منکر ہیں، نعوذ بااللہ آقا دوجہاں ﷺ کے بعد اپنے مذہبی پیشوا مرزا غلام قادیانی کو نبی مانتے ہیں۔

اس کے علاوہ قادیانی اسلام کے بہت سارے بنیادی عقائد کا بھی انکار کرتے ہیں، اسی لئے مسلمانوں کی تمام دینی جماعتوں کے علماء ومفتیان کرام نے متفقہ طور پر فتوی دیا کہ خود کو احمدی مسلمان کہنے والے قادیانی اپنے گمراہ اور باطل عقائد کی وجہ سے دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔

لیکن اس کے باوجود دھوکہ وفریب دے کر قادیانی خود کو مسلمان باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں اس پس منظر میں دفتر مجلس تحفظ ختم نبوت ٹرسٹ تلنگانہ و آندھراپردیش کو اطلاع ملی کہ شہر حیدرآباد کے علاقہ پدا عنبر پیٹ میں ایک قادیانی لڑکے سے سنّی لڑکی کا نکاح ہونے جارہا ہے۔

اطلاع ملتے ہی مولانا محمد ارشد علی قاسمی سیکریٹری مجلس تحفظ ختم نبوت کی ہدایت پر مولانا وجیہ الدین قاسمی پدا عنبر پیٹ پہونچے تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کہ لڑکے کا گھرانہ سابق میں قادیانی عقائد ونظریات سے وابستہ تھا البتہ یہ گھرانہ چند سال پہلے فتنہ قادیانیت کے گمراہ اور کفریہ عقائد سے تائب ہوکراسلام قبول کرچکا ہے لیکن لڑکے کی والدہ اپنے بعض خاندانی مسائل کی وجہ سے قادیانیت ہی سے وابستہ تھیں۔

اس موقع پر انھیں بھی قبول اسلام کی ترغیب دی گئی اور اُن کے سامنے اسلام کے بنیادی عقیدوں کی وضاحت کی گئی۔ اِس خاتون کو بات سمجھ میں آئی اور انھوں نے اسلام اور قادیانیت کے درمیان واضح فرق کو جان لیا پھر انھوں نے اپنے سابقہ قادیانی عقائد سے توبہ کرتے ہوئے قبول اسلام کا اعلان کیا۔

مدرسہ مسیح العلوم تنگاتورتی ضلع سوریا پیٹ میں مولانا عبدالاحد فلاحی صدر مجلس تحفظ ختم نبوت و ناظم مدرسہ مسیح العلوم کی موجودگی میں قبول اسلام کی کاروائی انجام پائی،مولانا وجیہ الدین قاسمی مبلغ مجلس تحفظ ختم نبوت کے علاوہ مولانا سید ایوب قاسمی ناظم مجلس تحفظ ختم نبوت ورنگل اور مولانا امیر الدین قاسمی خطیب جامع مسجد پدا عنبر پیٹ نے اس کاروائی میں حصہ لیا۔