مذہب

پڑوسی کو ستانے والا مومن نہیں ہوسکتا

مسلم و مومن ہونے کیلئے کچھ شرائط ہیں جس کے بغیر آدمی،مومن و مسلم کے معیار مطلوب کو نہیں پہنچ سکتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات اور آپؐ کے ارشادات گرامی میں ایمان کے حوالے سے مختلف مواقعات پر ہمیں یہ تاکید ملتی ہے کہ فلاں چیز ایمان کے منافی عمل ہے اور فلاں کردار کا حامل شخص ایمان کی دولت سے محروم ہے۔

مولانامحمد عبدالحفیظ اسلامی
سینئر کالم نگارو آزاد صحافی۔ Cell:9849099228

مسلم و مومن ہونے کیلئے کچھ شرائط ہیں جس کے بغیر آدمی،مومن و مسلم کے معیار مطلوب کو نہیں پہنچ سکتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات اور آپؐ کے ارشادات گرامی میں ایمان کے حوالے سے مختلف مواقعات پر ہمیں یہ تاکید ملتی ہے کہ فلاں چیز ایمان کے منافی عمل ہے اور فلاں کردار کا حامل شخص ایمان کی دولت سے محروم ہے۔ غرض یہ کہ نبیؐ نے موقع بہ موقع اپنی امت کو یہ تعلیم دی کہ تمہیں یہ اور یہ کرنا ہے اور ان ان چیزوں سے تمہیں اجتناب کرنا چاہئے،خواہ معاملہ عبادات کا ہو یا معاشرت و معیشت سے تعلق رکھتا ہو یاپھر اس کاتعلق انسانی اخلاق و کردارسے ہو ان سب ہی چیزوں میں آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ارشادات گرامی کے ذریعہ لوگوں کو وہ وہ باتیں بتلائی جس پر عمل کرتے ہوئے ہر آدمی، ایمان کے منافی اعمال سے بچ سکتا ہے۔ انسان کیلئے زبان سے اقرار ایمان تو آسان ہے لیکن اس کے تقاضوں کو پورا کرنا اصل ہے اور جو کوئی بھی اپنے اندر دعوی ایمان رکھتا ہو اس کیلئے ضروری ہے کہ وہ اپنے اعمال سے اس کا ثبوت فراہم کرے۔

اس طرح تمہید کے طور پر کچھ باتیں تحریر کی گئی ہیں، اب اصل عنوان کی طرف قارئین کی توجہ مبذول کروانا چاہوں گا۔

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’بخدا وہ ایمان نہیں رکھتا،بخدا وہ ایمان نہیں رکھتا، بخدا وہ ایمان نہیں رکھتا ‘‘پوچھا گیا کون اے اللہ کے رسول ؐ( ایمان نہیں رکھتا) ‘‘

فرمایا ’’ وہ شخص جس کا ہمسایہ اس کی برائیوںسے مامون و محفوظ نہ ہو‘‘

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد گرامی سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ایک مسلمان کے ایمان کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ اس کا پڑوسی و ہمسایہ اس سے ہمیشہ کسی قسم کا خطرہ اور اندیشہ محسوس نہ کرے بلکہ اطمینان کے ساتھ شب و روز گذر جائیں یعنی اس سے وہ اپنی جان و مال عزت و آبرو، ہر طرح کے ستائے جانے سے وہ اپنے آپ کو محفوظ سمجھے۔ پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک کی اسلام میں بہت اہمیت ہے اور اس کا تعلق انسان کے اخلاق سے ہے۔

حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تم میں سب سے زیادہ مجھے وہ لوگ محبوب ہیںجو تم میںاخلاق کے لحاظ سے سب سے اچھے ہیں (بخاری) حسن اخلاق سے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت سی احادیث آتی ہیں،حقیقت یہ ہے کہ حسن اخلاق کے ذریعہ سے آدمی ایک اونچے درجہ تک پہنچ جاتا ہے حضرت عائشہؓ کی ایک روایت کے مطابق آدمی اچھے اخلاق کے ذریعہ ان لوگوں کا درجہ حاصل کرلیتا ہے جو راتوں میں اللہ کے حضور میںکھڑے رہتے ہیں اور دن میں ہمیشہ روزہ رکھتے ہیں (ابوداؤد) اچھے اخلاق کاتعلق ایمان سے ہے،اگر کسی میں اچھے اخلاق پائے جاتے ہیں اور وہ مسلمان بھی ہو تو اس کے ایمان والے ہونے کی گواہی دی جاسکتی ہے کیونکہ یہ ایمان ہی کا تقاضا ہوتا ہے کہ ایک مسلمان اپنے پڑوسی کو خواہ وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہو حسن اخلاق، نرمی اور آدمیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس بات کا یقین دلاتا ہے کہ اس سے ہمیشہ خیر ہی خیر کی توقع کی جائے۔ لیکن جب پڑوسی مسلمان ہو تو اس سے دوہرا رشتہ قائم ہوتا ہے ایک تو پڑوسی ہونے کا دوسرا ایمان والا ہونے کا کیونکہ ایمان کارشتہ دیگر کئی رشتوں سے افضل ہے اور دین کا رشتہ تو خون کے رشتہ سے زیادہ اہم ہے اس کی طرف توجہ دینا انتہائی ضروری ہے۔

اب ذرا ہم اپنے مسلم معاشرے پر نگاہ ڈالیں اور دیکھیں کہ ہم اپنے پڑوسیوں کے ساتھ کس طر کا برتاؤ کرتے ہیں۔ آج ہم کسی سے سوال کریںکے بھائی آپ کاپڑوسی کیسا ہے؟ (الاماشا اللہ) بہت کم ہی لوگ اس بات کی گواہی دیں گے کہ ہمارا پڑوسی اچھا ہے۔ اب ایک سوال اٹھتا ہے کہ آخر ہمارے مسلم معاشرے کی یہ صورتحال کیوں ہوگئی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اسلامی تعلیمات سے ہمارا معاشرہ بہت دور ہوگیاجس کا یہ نتیجہ ہے کہ مسلم محلوں میں چھوٹی چھوٹی باتوں پر بڑے بڑے جھگڑے ہوتے دیکھائی دیتے ہیں، اور ان جھگڑوں کو پولیس اسٹیشن تک پہنچایا جاتا ہے جس کی وجہ سے رسوائی ہوتی ہے۔ حالانکہ اللہ تبارک تعالیٰ نے مسلمانوں کو خیرامت بنا کر اٹھایا ہے، اس طرح ان کا وجود زمین پر خیر ہی خیر ہوناچاہئے،مگر افسوس اس بات پر ہے کہ یہ امت اپنے اونچے مقام کو فراموش کر بیٹھی (الا ماشاء اللہ) اور ان میں کی اکثریت لا علمی کاشکار ہوچکی۔ مسلمانوں کے محلے اور ان کے علاقہ معاشرے میں ایک مثالی نمونہ ہونا چاہئے۔ اگر ایک مسلمان صرف اپنے پڑوسی کو مطمئن نہ کرسکے اور اپنے ایمان کی روشنی سے اس کا ہمسایہ مستفید نہ ہوسکے تو بھلا ایسے مسلمان سے کیا توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ اسلام کی سچی اور اچھی تصویر غیروںکے سامنے پیش کرسکے گا یا اسلام کا تعارف اپنے حسن عمل و حسن اخلاق کے ذریعہ کرواسکے گا۔ بندے مومن کے شب و روز اسلام کے کردار کے آئینہ دار ہوتے ہیں،جسے دیکھ کر لوگ اس سے متاثر ہوتے ہیں اور اسلام کی حقانیت واضح ہوتی ہے لیکن ہمارے بعض لوگوں کے اخلاق کو دیکھ کر لوگ دور بھاگ رہے ہیں ہاں یہ اور بات ہے کہ کچھ لوگ ہمارے اندر ایسے بھی ہیں جن کے اوصاف حمیدہ،اخلاق حسنہ کو دیکھ کر لوگ اسلام سے قریب ہورہے ہیں لیکن ہماری اکثریت کی بے عملی اورغفلت شعاری نے اسلام سے لوگوں کو دور کرنے کا ذریعہ بن رہی ہے جس کی اصلاح کی طرف فوری طور پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

جو لوگ اصلاح کا کام کرتے ہیں انہیں چاہئے کہ سب سے پہلے اس کا آغاز اپنے گھر اور اپنے محلے اور شہر سے کریں جہاں پر حقوق اللہ کی ادائیگی پر بہت زیادہ زور دیاجاتا ہے اور دیا بھی جانا چاہئے لیکن وہیں پر حقوق العباد کی طرف بھی ملت کے نوجوانوں،مرد و خواتین کو تعلیم کا دیا جانا بے حد ضروری ہے۔ ورنہ آدمی کی عبادت ’’عادت‘‘ تو بن جائے گی لیکن حقیقی عبادت اسی وقت ممکن ہے جب مسلمان پورے کے پورے اسلام میںداخل ہوجائیں ورنہ ہوگا یوں کہ ایک آدمی مسجد کی حد تک مسلمان بن جائے گا اور اس میں جب تک رہے گا مسلمان بن کررہے گا اور جیسے ہی مسجد سے باہر نکلے گا۔ شیطان کے نرغے میں آکر وہ کام کر جائے گا جوایمان کے منافی ہوتے ہیں جس میں کئی باتوں کے علاوہ،پڑوسی کو ستانا بھی شامل ہے اور پڑوسی کو ستانے والے شخص کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے دی جانے والی یہ سند پر اس شخص کیلئے درس عبارت ہے جس میں آپؐ نے فرمایا ’’واللہ لا یومن‘‘یعنی وہ شخص مومن نہیںہے یا بخدا وہ ایمان نہیںرکھتا،اس سلسلہ میںآپؐ سے دریافت فرمایا گیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم وہ کون شخص ہے جوایمان نہیں رکھتا ؟ آپؐ نے فرمایا ’’وہ شخص جس کا ہمسایہ اس کی برائیوں سے مامون و محفوظ نہ ہو۔لہٰذ ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان ایک اچھا پڑوسی بن کر رہے اپنے پڑوسی کو اپنے عمل سے اپنی زبان سے اور اپنے ہاتھ سے تکلیف نہ پہنچائے اور ہر اس عمل سے پر ہیز کریں جس سے پڑوسی کو دکھ ہوتا ہو،پڑوسی کے دکھ درد میں شریک ہوں اور اس کی پریشانی پر خوشیاں نہ منائیں بلکہ اس کی جو کچھ مدد ہوسکتی ہے کہ جائے۔ پڑوسی خواہ اپنے گھر کی تعمیر کررہا ہو یا اس کے گھر شادی بیاہ یا اور کسی قسم تقریب ہورہی ہو ایسے موقع پر اس کے کام میں رکاوٹیںکھڑی نہ کی جائیںبلکہ اس سلسلہ میں جو کچھ بھی وقتی زحمت ہوتی ہے اسے برداشت کرنا چاہئے کیونکہ پڑوسی کے حقوق انتہائی اہمیت رکھتے ہیں اور اس کا تعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد گرامی کے مطابق ایمان سے ہے اس کی حفاظت ہم سب کیلئے ضروری ہے۔ اللہ ہمیں توفیق دے۔
٭٭٭