ایرن کے احتجاجیوں کی تائید میں برلن میں 80ہزار افراد کا جلوس
پولیس تحویل میں مہساامینی کی موت کے بعد ایران میں احتجاج شروع کردیاگیا جس کی وجہ ملک میں بے چینی اور افرا تفری کا ماحول پیدا ہوگیاہے۔
برلن: ایران میں حکومت کے خلاف جاری احتجاج کی تائید کرتے ہوئے برلن میں بھی احتجاج کیا جارہاہے۔ پولیس تحویل میں مہساامینی کی موت کے بعد ایران میں احتجاج شروع کردیاگیا جس کی وجہ ملک میں بے چینی اور افرا تفری کا ماحول پیدا ہوگیاہے۔
بتایا جاتاہے کہ یہ احتجاج 6 ویں ہفتہ میں داخل ہوگیاہے جس کی وجہ حکام کے لیے حالات سے نمٹنا ایک مسئلہ پیدا بن گیاہے۔ برلن میں ہزاروں افراد نے احتجاج کرتے ہوئے ایران کے خلاف نعرے لگائے اور الزام عائد کیا ہے کہ امینی کی موت پولیس کی اذیت کی وجہ سے ہوئی ہے ۔
جلوس میں شامل احتجاجیوں نے ایران کے مذہبی رہنما کے خلاف نعرے لگائے اور کہا کہ حکومت کو چاہئے کہ وہ انصاف کو یقینی بنائے۔ 22 سالہ مہسا امینی کی پولیس تحویل میں موت کے بعد سے بتایاجاتاہے کہ احتجاج شروع ہوگیاہے۔ ڈریس کوڈ کی خلاف ورزی پر مذکورہ ایرانی کرد خاتون کو پولیس نے تحویل میں لے لیاتھا۔
اس دوران حقوق انسانی کے علمبردار گروپس نے الزام عائد کیا ہے کہ ایران میں تاحال 200 سے زائد افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔ پولیس نے بتایا کہ برلن میں نکالے گئے احتجاجی مارچ میں تقریباً 80 ہزار افراد نے شرکت کی۔ احتجاجی جن کے ہاتھوں میں ایرانی پرچم اور بیانرس تھے خواتین کی آزادی کامطالبہ کررہے تھے۔
احتجاجیوں نے مذہبی رہنما علی خامنہ ای کا حوالہ دیتے ہوئے انہیں موت کی سزا دینے کا مطالبہ کیا۔ حکومت کے خلاف جاری احتجاج کے تعلق سے سرگرم کارکنوں نے کہا ہے کہ برلن میں نکالا گیا جلوس ایران حکومت کے خلاف ایک بڑا مظاہرہ ہے۔ایک احتجاجی نے بتایا ہے کہ حکومت ایران کو چاہئے کہ وہ حالات پر کنٹرول کرنے کے لیے موثر اقدامات کریں۔
خصوصا خواتین کے تعلق سے کئے جانے والے سخت اقدامات اور کاروائیوں سے احتراز کیاجائے۔ احتجاجیوں نے کہا ہے کہ ایران کے مذہبی رہنما نے انتباہ دیاہے کہ اگر کوئی قابل اعتراض سرگرمیوں میں ملوث ہوتو اس کے خلاف سخت کاروائی کی جائے گی جس پر احتجاجیوں نے شدید رد عمل کااظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس طرح کے بیانات اور انتباہ سے مسائل میں اضافہ ہوتا جائے گا۔
احتجاجیوں نے کہا ہے کہ علی خامنہ ای کے کئی درجن افراد کے موت کے ذمہ دار ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا ہے کہ فورسس نے جمعہ کی نماز کے بعد کاروائی کرتے ہوئے کم ازکم66 افراد کو ہلاک کردیاہے۔
یہ واقعہ 30 ستمبر کو پیش آیا۔ سنی مذہبی رہنما مولوی عبدالاحمد نے کہا ہے کہ علی خامنہ ای اور دوسرے قائدین 30 ستمبر کو ہوئی ہلاکتوں کے ذمہ دار ہیں۔ احتجاجیوں نے علی خامنہ ای کو موت کی سزا دینے کامطالبہ کیا۔