بابابڈھن گری عرس تقاریب۔ ہندوؤں اور مسلمانوں کے بیچ اختلافات
یہ مقام مسلمانوں کا ہے یا ہندوؤں کا اس پر تنازعہ ہے۔ یہ مقام بابا بڈھن گری اور دتاتریہ پیٹھ بھی کہلاتا ہے۔ 1964 سے قبل ہندو اور مسلمان دونوں اس مقام کا بڑا احترام کرتے تھے۔
چکمگلورو (کرناٹک): مسلم فرقہ نے ضلع چکمگلورو میں چہارشنبہ سے شروع ہونے والے عرس درگاہ دتاتریہ بابا بڈھن گری سے دور رہنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ضلع نظم ونسق‘ عرس تقاریب کا اہتمام کرتا ہے۔
مسلم قائدین نے عرس میں حصہ لینے کے لئے ریاستی حکومت کے سامنے کئی مطالبات رکھے ہیں۔ ریاستی حکومت نے حال میں انتظامی کمیٹی بنائی تھی جس کی مخالفت مسلم فرقہ کررہا ہے۔
مسلم فرقہ کا مطالبہ ہے کہ متولی اور انتظامی کمیٹی کا تقرر نہ کیا جائے۔ یہ بھی مطالبہ کیا گیا کہ قبروں پر سبز رنگ کا غلاف اور فاتحہ خوانی کی اجازت دی جائے۔
مسلم فرقہ اس سلسلہ میں حکام کو یادداشت پیش کرچکا ہے۔ وہ متنازعہ مقام پر احتجاج کی بھی تیاری کررہا ہے۔ سرکاری ریکارڈس میں متنازعہ مقام کا نام سری گرو دتاتریہ بابا بڈھن سوامی درگاہ کے طورپر درج ہے۔
یہ مقام مسلمانوں کا ہے یا ہندوؤں کا اس پر تنازعہ ہے۔ یہ مقام بابا بڈھن گری اور دتاتریہ پیٹھ بھی کہلاتا ہے۔ 1964 سے قبل ہندو اور مسلمان دونوں اس مقام کا بڑا احترام کرتے تھے۔
یہ مقام صوفی کلچر اور ہندو۔ مسلم ثقافتوں کے امتزاج کی عکاسی کرتا ہے۔ اب یہ مقام ہندوؤں اور مسلمانوں کے بیچ متنازعہ بن گیا ہے۔
ہندو پہاڑ کو دتاتریہ کی سمادھی سمجھتے ہیں جبکہ مسلمانوں کا ماننا ہے کہ یہ درگاہ جنوبی ہند میں تصوف کے اولین مراکز میں ایک ہے۔
ان کا ماننا ہے کہ صوفی بزرگ دادا حیات میر قلندر یہاں کئی سال رہے۔ تنازعہ سے قطع نظر کافی کی کاشت کرنے والے مقامی لوگ فصل کٹنے سے قبل اس درگاہ پر آتے ہیں اور نذرو نیاز کرتے ہیں۔
17ویں صدی میں یمن سے تعلق رکھنے والے صوفی بزرگ یہاں آباد ہوئے تھے۔ برصغیر ہند و پاک میں کافی کے بیج بونے کا سہرا انہیں کے سر بندھتا ہے۔ 1998 میں بی جے پی نے جب سے دتامالا ابھیان شروع کیا تھا اس وقت سے تنازعہ جاری ہے۔