دہلی

بلقیس بانو کیس‘ سپریم کورٹ میں 29 نومبر کو سماعت

۔ گجرات فسادات کے دوران بلقیس کے 7 ارکان خاندان کو قتل کردیا گیا تھا۔ جسٹس اجئے رستوگی اور جسٹس سی ٹی روی کمار نے ہدایت دی کہ حکومت ِ گجرات نے جو جواب داخل کیا ہے وہ سبھی فریقین کو دستیاب کردیا جائے۔

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے منگل کے دن کہا کہ وہ 29  نومبر کو ان درخواستوں کی سماعت کرے گی جن میں بلقیس بانو اجتماعی عصمت ریزی کیس کے 11 خاطیوں کی سزا معافی اور رہائی کو چیلنج کیا گیا ہے۔ گجرات فسادات کے دوران بلقیس کے 7  ارکان خاندان کو قتل کردیا گیا تھا۔ جسٹس اجئے رستوگی اور جسٹس سی ٹی روی کمار نے ہدایت دی کہ حکومت ِ گجرات نے جو جواب داخل کیا ہے وہ سبھی فریقین کو دستیاب کردیا جائے۔

درخواست گزاروں کو حکومت  ِ گجرات کے داخل کردہ حکم نامہ پر اپنا جواب داخل کرنے وقت دیا گیا۔ بنچ نے کہا کہ حکومت ِ گجرات نے کاؤنٹر فائل کیا ہے۔ کاؤنٹر حلف نامہ سبھی وکیلوں کو دستیاب کرایا جائے۔ آئی اے این ایس کے بموجب سپریم کورٹ نے منگل کے دن کہا کہ حکومت ِ گجرات نے جو جواب داخل کیا ہے وہ بڑا ضخیم ہے۔

اس میں سلسلہ وار فیصلوں کا حوالہ دیا گیا ہے۔ جسٹس اجئے رستوگی کی بنچ نے زبانی کہا کہ ہم نے ایسا جوابی حلف نامہ نہیں دیکھا جس میں سلسلہ وار فیصلوں کا حوالہ دیا گیا ہے۔ بنچ نے سوال کیا کہ حقائق پر مبنی اسٹیٹمنٹ کہاں ہے؟ دماغ کا استعمال کہاں ہوا؟۔

 سالیسیٹر جنرل تشار مہتا نے جو حکومت ِ گجرات کی نمائندگی کررہے تھے‘ عدالت کی رائے سے اتفاق کیا۔ انہوں نے کہا کہ اس سے بچنا چاہئے تھا۔ آسان حوالوں کے طورپر فیصلوں کا ذکر کیا گیا‘ اس سے بچا جاسکتا تھا۔ سینئر وکیل کپل سبل نے درخواست گزاروں کی نمائندگی کرتے ہوئے کہا کہ انہیں جواب داخل کرنے کے لئے وقت درکار ہے۔

اس پر جسٹس رستوگی نے کہا کہ ریاستی حکومت کے جوابی حلف نامہ پر آپ کی نظر پڑنے سے قبل یہ اخبارات میں دکھائی دے گا۔ تشار مہتا نے زور دے کر کہا کہ اجنبی لوگ اور تھرڈ پارٹیز‘ خاطیوں کی رہائی کو چیلنج نہیں کرسکتے۔

 بنچ نے درخواست گزاروں کوجواب داخل کرنے کی مہلت دی اور معاملہ کی آئندہ سماعت 29  نومبر کو مقرر کی۔ حکومت ِ گجرات نے اپنے حلف نامہ میں کہا کہ 11 خاطیوں کو رہا کرنے کا فیصلہ اس لئے کیا گیا کہ یہ لوگ 14 سال کی جیل کاٹ چکے ہیں اور ان کا رویہ اچھا پایا گیا۔ مرکز نے بھی اس سے اتفاق کیا۔