مولانا سید جلال الدین انصر عمریؒ: آئی جو ان کی یاد تو آتی چلی گئی
موضوع گفتگو مولانا جلال الدین عمری کی شخصیت ہے، وہ جماعت اسلامی کے امیر دو تین میعاد تک رہے یعنی کئی بار ان کو امیر بنایا گیا۔ ان کا وقار ،ان کا اعتبار ان کے علم کا معیار ہمیشہ مسلم اور محترم رہا۔
پروفیسر محسن عثمانی ندوی
ایک حدیث میں آتا ہے کہ قیامت کے قریب علم اٹھا لیا جائے گا۔ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا کہ علم کیسے اٹھالیا جائے گا۔ آپؐ نے جواب دیا کہ اہل علم اٹھالئے جائیں گے۔ مولانا جلال الدین عمری جیسی شخصیتوں کا دنیا سے اٹھ جانا قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے ۔ایک عالم کی موت کو عالم کی موت کہا گیا ہے۔مولانا جلال الدین ایسے ہی ایک عالم تھے جن کی موت عالم کی موت کہلاتی ہے ۔میں ذاتی طور پر ان سے بہت زیادہ قریب نہیں رہا۔ وہ علی گڑھ اور پھر دہلی میں رہے اور میں حیدرآباد میں۔ دہلی آنے پر کبھی کبھی ملاقات ہوجاتی تھی لیکن جب بھی ملاقات ہوئی محسوس ہوا کہ علم کی باد بہاری ابھی چل رہی ہے، ابھی خزاں کا موسم نہیں آیا ہے، علوم اسلامیہ کے چمن میں اچھی تصنیفات کے پھول ابھی کھل رہے ہیں اور ابھی بہت سی کلیاں اس باغباں کی زیر تربیت ہیں۔
مولانا جلال الدین عمری ایک بہت بڑی جماعت کے امیر تھے لیکن سادہ مزاج متواضع حلیم اور بردبار۔ جہری نمازوں کی جب امامت کرتے اور جب قرآن پڑھتے تو سادہ و پرسوز آواز سے دل کے تار مرتعش ہوجاتے۔ اللہ معاف کرے دل ہے کہ موازنہ انیس ودبیر سے کہیں باز نہیں آتا اور کسی حکیم کا قول بھی ہے’’تعرف الاشیاء باضدادھا‘‘ یعنی چیزیں اپنی ضد سے پہچانی جاتی ہیں۔ ایک بار شہرکی ایک مشہور مسجد میں جانا ہوا، وہاں کے امیر صاحب نے تقریر کی، اس کے بعد ایک ہزار سے زیادہ سامعین جو گوش برآواز تھے، مصافحہ کے لئے قطار میں نظر آئے، امیر صاحب اپنے عقیدت مندوں سے ایک ہاتھ سے مصافحہ کرتے اور دوسرے ہاتھ سے نا پسندیدہ انداز میں دھکا دیتے، بے وقوف عقیدت مندوں کا یہ وہ جمگھٹ تھا جنہیں نہ حال کا علم ہے نہ مستقبل کے خطرات کا اندازہ ہے۔ امارت تو دونوں جگہ ہے، ایک باشعور لوگوں کی جماعت ہے، دوسری جگہ شعور وعقل سے محروم لوگ ہیں، کندہ ناتراش۔ کوئی حرج نہیں کہ ایسے لوگوں کی بھی تربیت کی جائے۔ اعتراض اس وقت ہوتا ہے جب ممولے کو شہباز سے لڑانے کی کوشش شروع ہوجاتی ہے۔ اس میں ممولوں کا کوئی قصور نہیں، قصور ممولوں کے امیر اور امیروں کے وزیر کا ہوتا ہے۔ اصل نقصان کی چیز حد سے بڑھی ہوئی عقیدت مندیاں ہیں، وہ عقیدت جو عقل و خرد سے انسان کو محروم کردیتی ہے۔
وہ عقیدت جو انصاف کی راہ سے انسان کو ہٹا دیتی ہے وہ نازیبا ہے، ایسی عقیدت مندیاں بیماری کی وبائوں کی طرح ہمارے معاشرہ میں پھیلی ہوئی ہیں۔ ہندوستان کی ایک ریاست میں ایک مسلم تنظیم کے لئے امیر کا انتخاب ہوا، ایک طرف ایک مسلم اور بہت محترم عالم دین تھے لیکن وہ نہ مرشد تھے نہ ان کی خانقاہ تھی، دوسری طرف ایک خانقاہ کے سجادہ نشیں تھے ان کے باپ دادا کے مریدوں کی تعداد زمین کے ذروں اور آسمان کے ستاروں کی طرح بے شمار تو نہ تھی لیکن دھاندلی سے ان سب کو ارباب حل وعقد میں شامل کرلیا گیا تھا ، جب انتخاب ہوا تو سب سے بڑے عالم دین مصنف ومفکر اور پرسنل لا بورڈ کے قائد کو فاش شکست ہوئی۔ ہر شاخ پر الو جو بیٹھے ہوئے تھے، انہوں نے انجام گلستاں کی پروا نہ کرتے ہوئے اپنے پیر طریقت کو امام اور امیر بنا دیا۔ یہ ہے اندھی عقیدت مندی کا انجام۔ عقیدت مفید بھی ہوسکتی ہے اور عقیدت انصاف اور عقل کے ڈگر سے انسان کو ہٹا بھی سکتی ہے۔
یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ عقیدت مندیوں کے کشکول میں ہیرے زیادہ ہیں یا خزف ریزے زیادہ ہیں۔ تبلیغی جماعت میں بھی امیر کے انتخاب میں میں قرابتوں اور قربتوںکا خیال زیادہ ہوتا ہے، قرابت داری کا پلڑا جھکا ہوا ہوتا ہے۔ یعنی ہمیشہ انصاف کی خلاف ورزی ہوتی آئی ہے اور قرابت کی رعایت۔ ہمارے علماء دین اور پیران طریقت کے قدم انصاف کی ڈگر سے بار بار اتر گئے ہیں۔ اس میں کوئی استثناء ہے تو ہندوستان کی دینی جماعتوں میں جماعت اسلامی کا ہے۔ جس کی امارت کے لئے باقاعدہ انتخاب ہوتا ہے اور اس میں رشتہ داری کالحاظ نہیں کیا جاتا ہے۔ جس کو لوگ زیادہ اہل سمجھتے ہیں اسے امیر بنا دیتے ہیں۔ کاش کہ ہر جگہ کے ارباب حل وعقد کے لئے یہی معیار ہوتا او ریہی زر کامل عیار ہوتا اور علماء انصاف کو پامال نہیں ہونے دیتے۔
موضوع گفتگو مولانا جلال الدین عمری کی شخصیت ہے، وہ جماعت اسلامی کے امیر دو تین میعاد تک رہے یعنی کئی بار ان کو امیر بنایا گیا۔ ان کا وقار ،ان کا اعتبار ان کے علم کا معیار ہمیشہ مسلم اور محترم رہا، جماعت اسلامی کی مسجد کی توسیع بھی ان کے عہد امارت کی یادگار ہے، اس وقت یہ مسجد شہر کی دوتین سب سے بڑی مسجدوں میں ایک ہے، خوبصورت بے مثال ،جمعہ کے دن ہمیشہ تازہ موضوع پر فکر انگیز دعوتی خطبات کی وجہ سے پرکشش۔
ہمارے کئی عزیز وقریب اور دوست واحباب علی گڑھ میں رہتے آئے ہیں بہت پہلے جب اس خاکسار کا علی گڑھ جانا ہوتا تو مولانا جلال الدین عمری سے ضرور ملاقات ہوتی، وہ وہاں تحقیقات اسلامی کے ادارہ کے صدر تھے اور مجلہ تحقیقات اسلامی کے ایڈیٹر تھے، جب بھی علی گڑھ جانا ہوتا، ہمارے ایک قابل فاضل دوست اسکالر اور پروفیسر اکثر ہماری ایک وقت کی دعوت بھی کیا کرتے تھے اور کبھی وہ مولانا جلال الدین عمری صاحب کو بھی دعوت میں شریک کرلیتے یعنی ہمیں ان کی ہم طعامی کا شرف حاصل ہوتا۔ ہمارے دوست بہت بڑے فاضل اور محقق تھے لیکن مسلمانوں کے حال ومستقبل کے مسائل سے انہیں کم دلچسپی تھی، بالفاظ دیگر وہ محقق تھے مفکر نہیں تھے۔
اکثر ان کے ڈرائنگ روم میں علمی گفتگو ہوتی، مجلہ تحقیقات اسلامی میں ان کے مضامین پابندی کے ساتھ شائع ہوتے۔ میرا کوئی مضمون تو شائع نہیں ہوتا لیکن میں ان مضامیں کو پڑھتا تھا، ہمارے فاضل گرامی دوست زیادہ تر سیرت نبویؐ سے متعلق اپنی تحقیقات عالیہ سے ہم سب کو نوازا کرتے تھے۔ یاد آتا ہے کہ ایک بار سیرت سے متعلق ان کی تحقیقات عالیہ اس مجلہ میں شائع ہوئی تھیں، موصوف نے غالباً حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مکہ سے مدینہ ہجرت کا ذکر کیا تھا اور نیچے حاشیہ میں اس کے آٹھ حوالے دئیے تھے۔ مکہ سے مدینہ ہجرت کرنے پر ایک دونہیں آٹھ حوالے، جیسے کہ یہ حوالے نہ ہوتے تو لوگوں کو یقین ہی نہیں آتا کہ آپؐ نے مکہ سے مدینہ ہجرت بھی فرمائی تھی، گویا مدینہ کی طرف آپؐ کی ہجرت ہمارے دوست کی دریافت تھی۔ بلاشبہ ہمارے دوست فاضل یگانہ تھے اور مصادر ومراجع کا خزانہ تھے لیکن ان کی اس تحقیق دقیق وعمیق اور اس کے لئے حوالوں کے انبار کا ردعمل مجھ جیسے کمزور صحت کے انسان پر اتنا شدید ہوا کہ پھر اس کی تمام تحریروں سے حوالے ہمیشہ کے لئے غائب ہوگئے اور اپنی ہر تحریر کا انداز یہ ہونے لگا کہ
سارے عالم پہ ہوں چھایا ہوا
مستند ہے میرا فرمایا ہوا
پھر اس لفظ حوالہ سے بھی ایسی وحشت ہوگئی کہ لفظ ’’حوالہ‘‘ بھی ہماری تحریر میں اب شاذ ونادر آتا ہے جب کہ آج کے قلمکار لفظ حوالہ کے بغیر دو قدم نہیں چل پاتے ہیں۔ ’’فلاں صاحب ادب کے حوالہ سے یاد کئے جائیں گے‘‘ اور ’’فلاں صاحب کی شخصیت تاریخ کا قیمتی حوالہ ہے‘‘ وغیرہ وغیرہ، بس اللہ خیر کرے اور حوالوں سے بچائے۔ بقول شاعر ’’غزل میں اب کے بھی تیرا حوالہ کم رہے گا‘‘۔
بلا شبہ ہمارے دوست بہت بڑے محقق تھے اور اسکالر تھے، فاضل یگانہ علم کا خزانہ، سیرت وتاریخ کے مصادر پر ان کی نظر تھی، لیکن کئی معاملات میں صحیح نقطہ نظر کی ان کو توفیق نہیں ملی، ان کی غلط تحقیق نے ان کو ناصبیت کا پرچم بردار اور یزید کا طرفدار بنا دیا تھا، ان کے گھر پر کھانا تنا ول کرنے سے پہلے اس موضوع پر ان سے میر ی تلخ بیانی اور سخت کلامی ہوجاتی تھی۔ مولانا جلال الدین عمری صاحب موجود ہوتے، وہ ہماری بحث وتکرار میں کم حصہ لیتے، نرمی سے ایک دو جملے بول دیتے اور وہ جملے ہماری حمایت میں ہوتے اور پھر ہم لوگ کھانے کی میز پر بیٹھ جاتے، محو نائو نوش ہوجاتے اور کربلا کے جوش سے بیگانہ ہوجاتے۔ پھر چائے کا دور ہوتا اور پھر اپنے گھروں کو واپسی۔ مونا جلال الدین عمری صاحب اب نہیں رہے۔ ہمارے دوست بھی اللہ کو پیارے ہوگئے۔ کاش انہوں نے ناصبیت کے بھنور میں خود کو نہ ڈبویا ہوتا۔ خانوادہ رسولؐ کے خلاف محاذ میں خود کو نہ شریک کیا ہوتا۔ صحیح حدیث میں حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ کو شباب اہل جنت کا سردار کہا گیا ہے، ان کے قاتلین اور مخالفین کا داخلہ جنت میں ایک کار دشوار ضرور ہوگا۔ بہت سے قابل فاضل لوگ اپنی قابلیت کے باوصف صراط مستقیم سے دور اور فکر ونظر کی گمرہی کا شکار ہوجاتے ہیں۔
مولانا جلال الدین عمری جلیل القدر عالم دین تھے۔ صاحب قلم تھے، اسلامی علوم کے بہت سے موضوعات پر انہوں نے بہترین کتابیں لکھیں وہ ایسے دور کے مصنف تھے جب نوجوانوں نے کتابوں کا پڑھنا چھوڑ دیا اور سوشل میڈیا سے خود کو وابستہ کرلیا اور موبائیل کو اوڑھنا بچھونا بنالیا ہے، سوشل میڈیا کی اپنی ضرورت ہے اور اپنے فائدے ہیں لیکن قرطاس و قلم کو نظر انداز کردینا اور سفینہ علم کو صفحہ کتاب کے بجائے اسکرین پر لنگر انداز کردینا ظلم ہے اور بڑا حادثہ ہے۔ اب مسلم نوجوان پہلے کی طرح کتابیں نہیں پڑھتے ہیں، ان میں وہ گہرائی اور علم وادب کا ذوق نہیں پیدا ہوتا ہے۔ فکر کی گہرائی اور ذوق کی بالیدگی کتابوں کی مرہون منت ہوتی ہے۔ اہل علم کی صحبتیں علم میں پختگی پیدا کرتی ہیں۔ وہ فیضان نظر ہوتا ہے جو ایک نوعمر انسان کو ادب اور تہذیب سکھاتا ہے۔ اب کتابوں کا ذوق ختم ہوتا جارہا ہے۔ اب مولانا سید سلیمان ندویؒ، مولانا مودودیؒ، مولانا ابوالحسن علی ندویؒ، مولانا جلال الدین عمریؒ وغیرہ جیسی عبقری شخصیتیں کیسے پیدا ہوںگی۔ متنبی نے کہا تھا ’’خیر جلیس فی الزمان کتاب‘‘ یعنی کتاب سب سے بہتر ہم نشین ہے۔ اب انسان کا ہم نشین، ہمراز و دمساز موبائیل بن گیا ہے۔
پہلے جو شخص کتاب نہیں پڑھتا تھا تو وہ جاہل اور رکشہ چلانے والے کے درجہ کا انسان سمجھا جاتا تھا، اب کوئی کتاب نہیں پڑھتا ہے، اس لئے اب سب رکشہ والے بن گئے ہیں۔ اب جو رکشہ چلاتا ہے اس کے ہاتھ میں موبائیل اور جو رکشے پر بیٹھا ہوا ہے اس کے ہاتھ میں بھی موبائل، اب جاہل اور صاحب علم کا فرق ہی مٹتا جارہا ہے، کتابوں کے ہاتھ سے چھوٹنے سے سب جاہل بن گئے ہیں اور ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود وایاز۔ فرق یہ ہے کہ کوئی ایاز رکشہ چلاتا ہے اور کوئی محمود رکشہ پر بیٹھ جاتا ہے۔ ذہنی سطح سب کی برابر ہوتی جار ہی ہے اور اس کی وجہ کتابوںکا ہاتھ سے چھوٹ جانا ہے۔ جب تک موبائیل کے خلاف کوئی تحریک نہیں اٹھے گی جب تک کوئی انقلاب نہیں آئے گا جب تک کوئی مصلح کھڑا نہیں ہوگا تب تک کتابوں کا دور واپس نہیں آئے گا۔ آسمان پر علم کا سورج نہیں چمکے گا۔ مولانا جلال الدین عمریؒ جیسی علمی شخصیتیں پیدا نہیں ہوں گی اور اگر پیدا ہوں گی تو یہ وہ شخصیتیں ہوں گی جنہوں نے موبائیل کے دور میں بھی کتاب ہاتھ میں لی ہوگی۔ نئی نسل کے لئے کتاب اور موبائیل کے درمیان توازن قائم رکھنا مشکل ہورہا ہے۔ نئی نسل کو یہ تلقین اور یہ نصیحت کرنی چاہئے کہ ہر روز جب آسمان پر سورج طلوع ہوتا ہے، ہر انسان کوتین قسم کی غذائوں کی ضرورت ہوتی ہے، ایک جسمانی غذا ایک روحانی غذا اور ایک فکری غذا۔ جسمانی غذا وہ ہے جو ہر انسان دسترخوان پر صبح وشام کھاتا ہے، روحانی غذا اس کا مسجد میں جاکر عبادت کرنا ہے اور فکری غذا اچھی کتابوں کا مطالعہ کرنا ہے۔ جو شخص اس توازن کو برتنے میں کامیاب ہوگیا وہ زندگی میں کامیاب ہوگیا اور جو اس توازن کو برتنے میں ناکام ہوا وہ زندگی میں ناکام ہوا وہ ’’رکشہ پلر‘‘ بن کر رہ گیا یعنی بس وہ اپنی زندگی کے رکشہ کو کھینچتا رہتا ہے اور یہی اس کا مقدر بن جاتا ہے۔
مولانا جلال الدین عمری اپنے اخلاق کریمانہ اور صفات مومنانہ کے ساتھ علم وقلم کی دنیا کے بظاہر آخری آدمی تھے۔ کیونکہ وہ موبائیل کے دور سے پہلے پیدا ہوگئے تھے۔ اور ان کے ہاتھ میںہمیشہ کتاب ہوا کرتی تھی۔ اب بظاہر نہ کتابوں کا دور واپس آئے گا اور نہ کوئی جلال الدین عمری پیدا ہوگا اور نہ اب کتابیں پڑھی جائیںگی، نہ لوگ کتاب خانوں میں جائیں گے۔ نہ اب کوئی حافظ شیرازی پیدا ہوگا جو یہ تمنا کرے ’’فراغتے وکتابے وگوشہ چمنے‘‘ خدا کرے ہمارے یہ خیالات غلط ہوں۔ موبائیل کے اسکرین پر ضخیم علمی کتابیں نہیں پڑھی جاسکتی ہیں، نہ موبائیل کی دنیا میں جینے والوں نے آج تک کوئی اچھی کتاب لکھی ہے، بے محابا موبائل استعمال کرنے والے نہ کتاب پڑھ سکتے ہیں نہ لکھ سکتے ہیں۔ مولانا عمری جامعۃ دار السلام عمرآباد کے فارغ التحصیل تھے۔ یہ وہ مشہور ومعروف ادارہ ہے جسے مولانا سید سلیمان ندوی جنوبی ہندوستان کا ندوہ کہا کرتے تھے۔ مولانا سید سلیمان ندویؒ کے قول کو صحیح مان لیا جائے تو مولانا جلال الدین عمری صاحب بھی ندوی تھے۔ وہی علمی ذوق وہی شگفتہ انداز تحریر، وہی وسیع المشربی وہی اعتدال۔
میں نے مولانا جلال الدین عمری صاحب کی کئی کتابیں پڑھی ہیں، ہمیشہ یہ محسوس ہوا کہ علم کا چشمہ ابل رہا ہے، ایک پہاڑی ندی ہے جو بہہ رہی ہے، فراز کوہ سے آرہی ہے، سنگ رہ سے گاہ بچتی گاہ ٹکراتی ہوئی، علم وادب کا نغمہ سناتی ہوئی، دلوں کے تار کو چھیڑتی ہوئی، ذہن کو زرخیز بناتی ہوئی۔ ان کی تصنیفات میں وہ تمام خصوصیات ہیں جو ایک متبحر عالم دین کی کتابوں میں پائی جاتی ہیں۔وہ اپنے چھوٹوں کی ہمت افزائی بھی بہت کرتے تھے ان کی تربیت کرتے تھے۔راقم سطور نے کبھی کوئی بھاری بھرکم علمی کام نہیں کیا، ہمارے نشتر تحقیق کو ایک شہرت یافتہ جبل تحقیق نے ایسا کند کیا تھا کہ کسی وقیع تحقیقی کام کی ہمت ہی نہیں ہوئی۔ دراصل یہ ان کے حد سے بڑھے ہوئے حوالوں کا اور بے ضرورت مراجع اور مصادر کے کا شاید غلط ردعمل تھا۔ اس کے بالمقابل ہمارے پاس ایک بے حد حساس دل و دماغ تھا جو واقعات وحوادث سے ہمیشہ بہت زیادہ متاثر ہوتا تھا اور ہمارا قلم ان موضوعات پر چلتا تھا جیسے ہماری کتاب ’’حالات بدل سکتے ہیں‘‘ او ر ’’موجودہ حالات میں مسلمان کیا کریں‘‘۔
مولانا جلال الدین عمری بڑے عالم دین اور بڑے مصنف تھے۔ مولانا مودودیؒ اور مولانا جلال الدین کی تصنیفات میں ایک خاص مشابہت تھی اور وہ یہ کہ دونوں اشعار کے استعمال کرنے سے گریز کرتے تھے۔ مولانا مودودیؒ کی پوری پوری کتاب میں کوئی شعر نہیں ہوتا تھا ’’الجہاد فی الاسلام‘‘ میں ایک جگہ صرف ایک مصرعہ آیا ہے ’’بوئے خوں آتی ہے اس قوم کے افسانہ سے‘‘ مولانا جلال الدین عمری کی کتابوں میں بھی کوئی شعر نہیں ملتا ہے۔ ان کی کتاب ’’ اسلام کی دعوت‘‘ شائع ہوئی تو ہم نے فوراً پڑھا، اس موضوع سے ہمیں بہت دلچسپی تھی بلکہ اس موضوع پر انسٹی ٹیوٹ آف آبجکٹو اسٹڈیز سے ہماری کتاب ’’دعوت اسلام اقوام عالم اور برادران وطن‘‘ کے درمیان شائع ہوچکی تھی۔ مولانا جلال الدین صاحب کی اس کتاب میں آخر میں ایک شعر بھی تھا، اکلوتا شعر اور وہ بھی غلط۔ حیدرآباد میں ایک جلسہ میں ان سے ملاقات ہوگئی تو میں نے اس کا ذکر کردیا۔ بعد میں اس کتاب کے دوسرے ایڈیشن نکلے تو اس سے وہ شعر ہی نکال دیا گیا تھا تاکہ بقول اقبال ’’باقی نہ رہے شیر کی شیری کا فسانہ‘‘۔
مولانا جلال الدین عمری کی کتاب اسلام کی دعوت ایک وقیع تصنیف ہے اور ہر شخص کے مطالعہ کے لائق ہے۔ یہ ایک کتاب سو کتابوں کے برابر ہے۔ عربی میں ایک ادیب کا قول ہے ’’ کتاب ینوب عن کتائب‘‘ دعوت ایسا موضوع ہے جو راقم سطور کے غور وفکر کا مرکزی موضوع رہا ہے پھر غور وفکر کا حاصل ضرب یہ رہا ہے کہ دعوت کا پیغمبرانہ مشن ہندوستان کی اسلامی تاریخ میں ڈیریلمنٹ کا شکار ہوگیا ہے یعنی گاڑی پٹری سے اتر گئی ہے، ہندوستان میں ایک عجیب صورت حال پیش آئی ہے، لوگوں نے بیس بیس جلدوں میں بخاری اور مسلم کی شرح لکھی، پچیس جلدوں میں فتاویٰ کی کتابیں مرتب کرڈالی لیکن ان علماء نے بیس غیر مسلم انسانوں تک دین توحید کو پہنچانے کی فکر نہیں کی۔ میں نے اس موضوع کو تفصیل کے ساتھ اپنے ایک لکچر میں بیان کیا ہے جو میری کتاب ’’حالات حاضرہ اور ہندوستانی مسلمان‘‘ میں شامل ہے۔
میںنے یہاں اہتمام کے ساتھ اس کا تذکرہ اس لئے کیا ہے کہ مولانا جلال الدین عمری نے اس کتاب کو دیکھ کر فرمایا تھا ’’محسن صاحب مجھے آپ کے خیالات سے پورا اتفاق ہے‘‘ اس فقیر بے نوا کی زبان سے جو باتیں نکلی تھیں پورے ہندوستان میں کوئی نہیں کہ رہا تھا۔ یہ نقار خانہ میں طوطی کی آواز تھی،یا راہ علم کے ایک مسافر کی دور افتادہ صدا، یہ لکچر یا تقریر ہر اس شخص کو پڑھ لینی چاہئے جسے دعوت کا کام عزیزہے اور جس کے درست ہونے کی تصدیق مولانا جلال الدین عمری صاحب نے کردی ہے۔ یہ تقریرجو ۹ جون ۱۹۹۱ کو جماعت اسلامی دہلی کی مرکزی مسجد میں کی گئی تھی اور مقالہ کی شکل میں مذکورہ کتاب میں موجود ہے۔ میںنے کتاب میں جو بات کہی ہے ممکن ہے بہت سے لوگوں نے اس کو محسوس کیا ہو لیکن یہ بات کسی کی زبان سے یا زبان قلم سے نہیں نکلی کیونکہ اس سے قد آور شخصیتوں پر الزام آتا ہے، ان شخصیتوں پرالزام آتا ہے جنہوں نے بلاشبہ بڑے قابل فخر کارنامے انجام دئے اور ہم ان کے مقابلہ میں ایک ذرہ بے مقدار بھی نہیں ہیں۔
مولانا جلال الدین عمریؒ نے بہت سی کتابیں لکھی ہیں یہ کتابیں ان کے دریائے علم کی موجیں ہیں تحقیق ومطالعہ اور فکر ونظر کے سمندر کی لہریں ہیں۔یہ کتابیں ہمیشہ پڑھی جائیں گی۔ میں نے ان کی کئی کتابوں سے استفادہ کیا ہے مجھے ان کی کتاب اسلام کی دعوت بہت پسند ہے۔ انہوںنے دعوت کی اہمیت اس طرح بتائی ہے کہ انسان کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ اپنے آغاز وانجام سے باخبر رہے ۔تمام انبیاء انسان کو ان کے آغاز وانجام سے باخبر کرنے کے لئے آتے ہیں ۔لیکن جب قوموں کے دلوں کے دروازے نہیں کھلتے ہیں تو قومیں مٹادی جاتی ہیں۔ آج بھی مسلمان اگر دعوت کی حجت تمام کردیں تو قومیں اسلام کے دامن رحمت کے تلے آئیں گی اور مسلمانوں پر اللہ کی نصرت نازل ہوگی۔مسلمانوںکو اس کے ذریعہ مادی غلبہ بھی حاصل ہوگا۔لیکن اس سے پہلے قدم قدم بلائوں سے سابقہ بھی پیش آے گااور انہیں برداشت کرنا پڑے گا۔تازیانے بھی کھانے ہوں گے اور جیل بھی جانا پڑے گا ۔
ان کی کتاب غیر مسلموں سے تعلقات اور ان کے حقوق بھی مجھے پسند ہے اور میرا خیال ہے کہ ہر باشعور مسلمان کو اس کتاب کو ضرور پڑھنا چاہئے۔ ان کی کتاب تجلیات قرآن، قرآن مجید سے ان کی شدید وابستگی کا اظہار ہے۔ان کی تمام کتابیں پڑھنے کے لائق ہیں ان سے علوم اسلامیہ کے جلوے سامنے آتے ہیں اور ان جلوئوں سے تاریک دل حسن کا ایک پری خانہ معلوم ہونے لگتا ہے۔ اور اسی لئے انسٹیٹیوٹ آف آبجکٹو اسٹڈیز نے مولانا جلال الدین عمری کی خدمات کی اعتراف کے طور پر ایوارڈ عطا کیا تھا اور وہ بجا طور پر اس اعزاز کے مستحق تھے۔ مسلم اداروںسے باہر ہندوستان میںبہت سے ادارے ہیںجو غیر مسلم قابل فاضل شخصیتوں کو ایوارڈدیا کرتے ہیں۔ آئی او ایس کے علاوہ مسلمانوں کے پاس کون سا ادارہ ہے جو اس طرح کے تشجیعی انعامات دیا کرتا ہے ۔
مولانا جلال الدین عمری کی جب یاد آتی ہے تو ان کے ہمت افزائی کے وہ کلمات بھی یا د آتے ہیں جو انہوں نے اس عاجز کے بارے میں اپنے خطبہ صدارت میں کہے تھے ۔۲۲ فروری ۲۰۲۰ کو انسٹیٹیوٹ آف آبجکٹو اسٹڈیز دہلی نے اس خاکسار کو لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ دیا تھا، سپاس نامہ ڈاکٹر منظور عالم صاحب نے پڑھا تھا جس کے لئے یہ عاجز ان کا سپاس گذار ہے۔ اس تقریب کی صدارت مولانا جلال الدین عمری نے کی تھی۔ یہ خطبہ صدارت’’ آئی اوایس‘‘ کے دفتر میں آڈیو ویڈیو کیسٹ میں موجود ہے۔ مولانا جلال الدین عمری کی یادوں کے چراغ جب فروزاں ہوتے ہیں تو اس عاجز کے سلسلہ میں ان کے کہے ہوئے الفاظ بھی صدائے بازگشت بن کر گونجنے لگتے ہیںاور اس لئے بھی کہ اس یادگار ملاقات کے بعد میں واپس حیدرآباد چلا گیا تھا اور اب ان کے انتقال کے بعد یہ ملاقات اور ان کی تحسین وآفرین کی بات بہت زیادہ یاد آتی ہے۔ ہمارے دل کی ترجمانی اردو کے ایک قدیم شاعر کے اس شعر سے بہتر طور پر ہوسکتی ہے اور اس سے بہتر دل کی ترجمانی کوئی اور شعر نہیں کرسکتا ہے۔
بہر تسکیں دل نے رکھ لی ہے غنیمت جان کر
وقت رخصت ایک جنبش جو ترے ابرو میں تھی
مولانا جلال الدین عمریؒ کے خطبہ صدارت کے الفاظ کو نقل کرنے میںاس عاجز کو اپنی خودنمائی اور خودستائی کا اور اپنی توقیرا ور تشہیر کا گمان بھی ہوتا ہے لیکن کیا کیا جائے کہ ہر شخص کو مادر علمی کی سند عزیز ہوتی ہے چونکہ میں نے ان کی کتابوں سے استفادہ کیا ہے، اس لئے ان کے الفاظ مادر علمی کی سند کی حیثیت رکھتے ہیں۔ انہوں نے اپنے خطبہ صدارت میں کہا تھا:
’’علی گڑھ میں محسن عثمانی مجھ سے ملاقلات کے لئے آجاتے تھے۔ اکثر ڈاکٹر عبد الباری ان کے ساتھ ہوتے تھے۔ میں نے محسوس کیا کہ اکثر ان کے ذہن میں کوئی موضوع ہوا کرتا ہے جس کے بارے میں وہ سوچتے رہتے ہیں۔ یہ ہمیشہ علمی شخصیتوں کی پہچان ہوتی ہے کہ ان کے ذہن میں کوئی موضوع رہتا ہے جس پر وہ سوچتے ہیں اور اس پرگفتگو کرتے رہتے ہیں۔ پھر محسن عثمانی صاحب کے موضوعات میں بڑا تنوع رہا ہے جس میں عربی ادب بھی ہے اردو ادب بھی ہے، اسلامی موضوعات بھی ہیں، حالات حاضرہ بھی ہیں، وہ ان ہی موضوعات پر گفتگو کرتے ہیں، نہ انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کے کتنے بچے ہیں، نہ میں نے ان سے یہ سوال کیا ، علمی شخصیات کی یہ پہچان ہوتی ہے کہ وہ ہمیشہ علمی موضوعات پر باتیں کرتے ہیں۔
علامہ سید سلیمان ندویؒ کے موضوعات میں بھی بڑا تنوع تھا۔ انہوں نے سیرت پر بھی کتاب لکھی اور خیام پر بھی لکھی اور دروس الادب بھی لکھی، اسی طرح محسن عثمانی صاحب کے موضوعات میں بھی بڑا تنوع ہے، ان کے یہاں شعر وادب بھی ہے، دینی موضوعات بھی ہیں اور حالات حاضرہ پر بھی وہ خامہ فرسائی کرتے ہیں۔ عربی میں بھی لکھتے رہے ہیں، ان کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ وہ جس بات کو صحیح سمجھتے ہیں وہ اسے کہہ ڈالتے ہیں، اس کی پروا نہیںکرتے کہ کہنے سے ان کو مادی نقصان پہنچ سکتا ہے (یہ اشارہ ہمارے ان مضامین کی طرف تھا جو خلیجی حکمرانوں کے خلاف لکھے گئے تھے، راقم سطور کو اذعان ویقین حاصل ہے کہ ان خلیجی ملکوں کا ملوکیت کا موروثی نظام باطل ہے اور خلاف اسلام ہے اور اس سے دنیا کے سامنے اسلام کی شبیہ خراب ہوتی ہے اور اب مولانا جلال الدین عمریؒ کے مضامین اسلام کے شورائی نظام کے موضوع پر جو تحقیقات اسلامی میں شائع ہورہے ہیں اس پر شاہد عدل ہیں) محسن عثمانی صاحب نے اس کی پروا نہیں کی کہ ان کی تحریروں سے کچھ لوگوں سے ان کے تعلقات متاثر ہوں گے اور کچھ لوگ اور بزرگ حضرات ان کی تحریروں کو پسند نہیں کریں گے۔ دعوت کا جذبہ بھی ان کے اندر موجزن ہے۔ یہ وہ خصوصیت ہے جو مسلم تنظیموں میں جماعت اسلامی کے اندر پائی جاتی ہے۔ جماعت اسلامی کے نزدیک یہی دعوت مسلمانوں کے مسائل کا حل ہے، محسن عثمانی صاحب نے بھی دعوت کے موضوع پر بہت سے مضامین لکھے ہیں اور کتاب لکھی ہے۔ اور میں کہتا ہوں کہ انسٹیٹیوٹ آف آبجکٹیو اسٹڈیز اور ڈاکٹر منظور عالم صاحب نے لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ کے لئے بالکل صحیح شخص کا انتخاب کیا ہے۔ اللہ ان کو جزائے خیر دے۔‘‘ (خطبہ کی تلخیص)
٭٭٭