مضامین

’غلط فہمیوں کی زہریلی فضا‘

آپسی تعلقات کو مضبوط و مستحکم بنانے کے لئے ضروری ہے کہ ایک دوسرے کو سمجھنے کی پوری کوشش کی جائے۔ آپس میں بات چیت بھی بہت ضروری ہے۔ جب تک ہم ایک دوسرے کو وقت نہیں دیں گے، معاملات الجھتے ہی چلے جائیں گے۔

سیما شکور

متعلقہ خبریں
چائے ہوجائے!،خواتین زیادہ چائے پیتی ہیں یا مرد؟
مشرکانہ خیالات سے بچنے کی تدبیر
ماہِ رمضان کا تحفہ تقویٰ
دفاتر میں لڑکیوں کو رکھنا فیشن بن گیا
بچوں پر آئی پیڈ کے اثرات

انسانی فطرت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بہت جلدی بدگمان ہوجاتے ہیں۔ ہم غلط فہمیوں کو اپنے دل میں جگہ دینے کے لئے بہت جلدبازی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ہم بلاسوچے سمجھے بغیر کدورت اپنے دل میں اس طرح پال لیتے ہیں کہ واپسی کے سارے راستے مسدود ہوجاتے ہیں۔

بعض اوقات کانوں سنا اور آنکھوں دیکھا بھی سچ نہیں ہوتا کیونکہ اس کے پس منظر میں کیا بات تھی ہم نہیں جانتے۔ اس لئے غلط فہمیاں اگر آپ کے دل میں ڈیرا ڈال چکی ہیں تو ذرا ٹھنڈے دل سے سوچئے ، معاملے کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کیجئے۔ بدگمانیوں کے زہریلے خار آپ کی پوری زندگی کو تباہ و برباد کرسکتے ہیں۔

 آپسی تعلقات کو مضبوط و مستحکم بنانے کے لئے ضروری ہے کہ ایک دوسرے کو سمجھنے کی پوری کوشش کی جائے۔ آپس میں بات چیت بھی بہت ضروری ہے۔ جب تک ہم ایک دوسرے کو وقت نہیں دیں گے، معاملات الجھتے ہی چلے جائیں گے۔

 اس بات کو بالکل بھی اہمیت مت دیجئے کہ فلاں نے یہ کہا اور وہ کہا۔ آپ خود معاملے کو سمجھنے کی کوشش کیجئے، ہر کسی کی بات پر یقین کرلینا مضبوط شخصیت کی نشانی نہیں ہوتی۔ اپنوں پر اعتماد کیجئے، نہیں تو دوسروں کی باتوں میں آکر آپ اپنوں کو کھو دیں گے۔

اگر کوئی دوسرا آپ کی زندگی میں دخل اندازی کرے اور بلاوجہ مشورے دے تو آپ کو سمجھ جانا چاہئے کہ ایسا شخص صرف آپ کی تباہی کا خواہشمند ہے۔ وہ آپ کے لئے مخلص نہیں ہے۔ ایسے لوگوں پر نظر رکھنا ضروری ہے۔ کبھی لوگ اس طرح کی سرگرمیاں رکھ کر اپناکوئی خاص مقصد حاصل کرنا چاہتے ہیں اور کبھی ایسے لوگ ہم سے دشمنی نکال رہے ہوتے ہیں۔

اگر آپ غلط فہمیوں کے خطرناک جنگل میں ایک بار گم ہوگئے تو پھر کبھی بھی اپنی منزل کو نہ پاسکیں گے۔ غلط فہمیوں کے گھور اندھیرے میں آپ کچھ نہیں دیکھ پائیں گے ۔ خوشیاں کہیں دور چلی جائیں گی اور آپ تنہا رہ جائیں گے۔ اس لئے کوئی بھی قدم اٹھانے سے پہلے کئی بار سوچئے۔

جب ہم ذہنی ٹوٹ پھوٹ کاشکارہوجاتے ہیں تو پھر معمولی سی بات بھی نہیں سمجھ پاتے۔ غلط فہمیوں کی زہریلی فضا ہم سے سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں چھین لیاکرتی ہے، اس لئے اپنے آپ کو پُرسکون رکھنے کی کوشش کیجئے۔

جو لوگ ہمیشہ منفی سوچوں اور منفی خیالات میں مبتلا رہتے ہیں ، ایسے ہی لوگ بہت جلدی غلط فہمیوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اس کے علاوہ جو لوگ شکی مزاج رکھتے ہیں وہ بھی بہت جلدی غلط فہمی کو اپنے دل میں جگہ دے دیتے ہیں۔

 ایسے لوگ جو بچپن سے پراگندہ ماحول میں زندگی گزار رہے ہوتے ہیں وہ بھی نفسیاتی طور پر اس قدر ٹوٹ پھوٹ چکے ہوتے ہیں کہ مثبت سوچ رکھنا ان کے لئے مشکل ہوتاہے۔ وہ ہمیشہ منفی سوچوں میں ہی غرق نظر آتے ہیں۔ اس قسم کے لوگوں کو کوئی بات سمجھانا بے حد مشکل ہوتاہے۔

غلط فہمیوں کی آلودہ اور زہریلی فضا میں رحمتوں کے پھول مرجھا جاتے ہیں۔ پاکیزہ اور اسلامی ماحول میں پرورش پانے والے لوگ چونکہ خوفِ خدا رکھتے ہیں اسی لئے وہ کسی بھی برے خیال کو اپنے دل میں پنپنے نہیں دیتے۔ چھوٹی چھوٹی غلط فہمیاں بڑھتے بڑھتے ایک طوفان کی صورت اختیار کرلیتی ہیں اور رشتے کچے دھاگوں کی طرح ٹوٹ جاتے ہیں۔ بدگمانی سے ہر ممکن بچتے رہنا چاہئے۔

 اگر آپ غلط ہیں ، آپ سے غلطی ہوئی ہے تو اُسے اعلیٰ ظرفی کے ساتھ مان لینا چاہئے۔ رشتے ایسے رویوں کی وجہ سے ہی مضبوط و پائیدار ہوتے ہیں، جھکنے سے آپ کی عزت میں اضافہ ہوگا۔ ہمارے اردگرد کچھ ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو حالات کو بہتر بنانے کے بجائے غلط فہمیوں کو ہوا دیتے ہیں۔

ایسے لوگ بظاہر بہت سیدھے سادے اور معصوم نظر آتے ہیں لیکن حقیقت میں فسادی ہوتے ہیں۔ فساد برپا کرنا اُن کا محبوب مشغلہ ہوتا ہے۔ انھیں آگ لگاکر دور سے ، خاموشی سے ، دیکھنا بہت پسند ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں کے شر سے بچنا ہی اصل کامیابی ہے۔

غلط فہمیوں اور بدگمانیوں کی مکدر فضا میں ہماری سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں سلب ہوجاتی ہیں۔ ہم درست فیصلہ کرنے کے قابل نہیں رہتے۔ ایسے میں تنہا وقت گزاریئے اور سکون سے معاملے کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کریں۔ بدگمانیوں کے بادل آہستہ آہستہ چھٹتے چلے جائیں گے۔

انسان کی حد سے زیادہ خودپسندی بھی بدگمانی اور غلط فہمی کی وجہ بنتی ہے۔ خودپسند انسان کسی کو بھی اہمیت دینے کے لئے تیار نہیں ہوتا اور ہمیشہ اس ٹوہ میں لگا رہتا ہے کہ معمولی سی بات کو جواز بناکر دوریاں پیدا کی جائیں، یقینا ایسے لوگ رشتوں کو کوئی اہمیت نہیں دیتے ۔

 دوستی جیسے رشتے میں اگر بدگمانیاں اور غلط فہمیاں حائل ہوجائیں تو دوستی کتنی بھی پرانی ہو وہ قائم نہیں رہ سکتی۔ آپس میں بات چیت سے ہم معاملے کو سلجھا سکتے ہیں۔

بدگمانیاں اور غلط فہمیاں دلوں میں پال لینا تو بہت آسان ہے لیکن اس کی بڑی بھاری قیمت اداکرنی پڑتی ہے۔ فاصلے صدیوں پر محیط ہوجاتے ہیں، سب کچھ ختم ہوجاتا ہے، رشتوں میں اس قدر دراڑیں پیدا ہوجاتی ہیں کہ پھر فاصلے سمیٹنا ناممکن ہوجاتا ہے۔

خاندانوں میں پچاس فیصد جھگڑے غلط فہمی اور بدگمانیاں اپنے دل میں کسی کے لئے پال لینے کی وجہ سے ہی ہوتے ہیں۔ ہم کسی کو بھی بلاتحقیق اور دلیل کے بنا برا اور غلط سمجھنا شروع کردیتے ہیں۔ غلط فہمی اور بدگمانی ہماری زندگی کو یکسر بدل کر رکھ دیتے ہیں۔ ہماری زندگیوں سے سکھ چین ختم ہوجاتا ہے۔ پچھتاوے ہماری زندگی کا حصہ بن جاتے ہیں۔ ہمیں سچ کوجھوٹ اور جھوٹ کو سچ سمجھنے کی سزا بھگتنا پڑتی ہے۔

کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہمارے دوست ، احباب نامساعد حالات سے گزررہے ہوتے ہیں اور ہم لاعلم ہوتے ہیں۔ ایسے میں اگر آپ اُن کے بارے میں کوئی غلط رائے دیں یا سوچیں تو یہ مناسب نہیں ہے۔ غلط فہمیوں کے زلزلے جب آتے ہیں تو بہت تباہیاں ہوتی ہیں۔

 ہم غلط فہمیوں کی دیواریں اونچی سے اونچی کرنے میں لگے رہتے ہیں کہ زندگی کی شام ہوجاتی ہے۔ ہمارے اخلاقی طور پر دیوالیہ ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ ہم ناحق کسی پر تہمت لگائیں اور کسی کے بارے میں غلط باتیں پھیلائیں اور لوگ تو لوگ ہی ہیں افواہوں پر بہت جلدی یقین کرلیا کرتے ہیں۔

 ہم سے سب سے بڑی غلطی یہ سرزد ہوتی ہے کہ ہم کسی کی بھی برائی بہت خاموشی سے سن لیتے ہیںنہ صرف سنتے ہیں بلکہ دوسروں تک پہنچانا اپنا فرض اولین سمجھتے ہیں۔ رشتے بھروسے کی بنیاد پر ہی ٹکے ہوتے ہیں۔ ایک دوسرے پر اعتماد اور بھروسہ رشتوں کی پائیداری کے لئے بہت ضروری ہے ۔

مسکراہٹیں کھوجاتی ہیں، آنکھیں بھیگ جاتی ہیں، لفظ گم ہوجاتے ہیں، سناٹے چھا جاتے ہیں ، پل میں خوشیاں روٹھ جاتی ہیں۔ غلط فہمیاں اور بدگمانیاں رشتوں میں دراڑیں جو ڈال دیتی ہیں۔

پھر تو خوشیوں کو روٹھنا ہی تھا۔ کبھی بھی کسی کی باتوں میں آکر آپ اپنوں کو نہ کھو دینا۔ اپنوں پر بھروسہ کرنا سیکھئے، غیروں کی باتوں پر یقین کر کے اپنوں سے بچھڑ جانا عقل مندی نہیں ہے۔

غلط فہمیوں کے خار لہولہان کرنے لگیں تو بات چیت سے معاملے کو سلجھانے کی کوشش کیجئے۔ یاد رکھئے آج کی خاموشی عمر بھر کا پچھتاوا بن جائے گی۔ اپنے بکھرے ہوئے رشتوں کو سمیٹ لیجئے ، غلط فہمیوں کی گرد خودبخود صاف ہوجائے گی۔

غلط فہمیوں کے زہریلے ناگ رشتوں کو ڈس لیتے ہیں۔ کبھی میاں بیوی ایک دوسرے سے بچھڑ جاتے ہیں تو کبھی جگری دوست ہمیشہ کے لئے ایک دوسرے کو کھو دیتے ہیں۔ راستے الگ الگ ہوجاتے ہیں۔ ذہنی تناؤ سے بچنے اور خوش رہنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم دوسروں کے بارے میں مثبت سوچ رکھیں۔

 ہم اگر غلط سوچیں گے تو سب کچھ غلط ہی نظر آئے گا۔ بدگمانی کی عینک اُتار پھینکئے۔ہر کسی کو اپنا مخالف سمجھنا صحت مند ذہن کی علامت نہیں۔ آپ اپنے خیالات سے اپنی زندگی کو جنت یا جہنم بنا سکتے ہیں۔ بے یقینی کی کیفیت آپ کو کبھی بھی خوش رہنے نہیں دے گی۔

ہم نے لوگوں کو پرکھنے اور جانچنے کے الگ الگ پیمانے بنا رکھے ہیں۔ ہم مادہ پرستی میں اس حد تک آگے بڑھ چکے ہیں کہ صاحب ثروت شخص کی ہر بڑی سے بڑی غلطی کو نظرانداز کردیاجاتا ہے جبکہ معاشی طور پر کمزور لوگوں کی چھوٹی سے چھوٹی غلطی بھی پہاڑ نظر آتی ہے۔ ہم انسانیت کی سطح سے نیچے گر چکے ہیں۔

 ہم پستیوں کی گہری کھائیوں میں گرتے ہی چلے جارہے ہیں۔ غلط فہمی کو زندگی بھر کا روگ بنا لیتے ہیں۔ ہم نے لوگوں کو الگ الگ خانوں میں بانٹ رکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جھوٹی انا کے دبیز پردوں سے ہمیں کچھ بھی دکھائی نہیں دے رہا ہے۔

 کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہم اپنے فیصلوں میں اس قدر اٹل ہوتے ہیں کہ حقائق سامنے آنے کے باوجود اپنے موقف سے پیچھے ہٹنا نہیں چاہتے۔ جھوٹی انا اور غرور ہمیں اندھا اور بہرہ بنا دیتے ہیں۔

جن لوگوں کی سوچ کا دائرہ محدود ہوتا ہے وہ اپنی ذات سے ہٹ کر نہیں سوچ سکتے۔ ایسے لوگ بہت جلدی غلط فہمیوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔ پھر فاصلے بڑھتے ہی چلے جاتے ہیں۔ اپنے آپ کو دوسروں سے ممتاز تصور کرنے والے لوگ بہت زیادہ غلط فہمیوں میں مبتلا ہوتے ہیں۔

زندگی کے راستے حسین اور دلکش بھی ہوسکتے ہیں۔ لیکن ہماری منفی سوچ کے زہر نے زندگی کے راستوں میں کانٹے بچھا دیئے ہیں۔ ہماری زندگی کے آسمان پر خوشیوں کا چاند بھی چمک سکتا تھا ہم نے اپنی غلط فہمی کی عادت کی وجہ سے اپنی زندگی کو اماوس کی رات بنا دیا ہے۔

 ہماری زندگیوں میں گھٹن اور بے چینی ہماری زہر بھری سوچ کی وجہ سے ہے۔ مگر ہم کبھی بھی اپنی غلطی کو غلطی تسلیم ہی نہیں کرتے۔ ہم اپنی جھوٹی انا کے خول میں اس طرح قید ہیں کہ اپنی زندگی کو مشکل ترین بنا دیا ہے۔

غلط فہمیوں کی آندھی نے رشتوں کے حسین پھولوں کو اجاڑ کر رکھ دیا ہے، مسکراہٹیں چھن چکی ہیں، خاندان اُجڑ رہے ہیں۔ صلح جوئی سے بھی کسی کو دلچسپی نہیں ہے۔ ہم روز بروز غلط فہمیوں کی دلدل میں دھنستے ہی چلے جارہے ہیں۔ مشکلات بڑھتی ہی جارہی ہیں، سب ایک دوسرے سے متنفر ہوتے جارہے ہیں۔

 ایک گھر جب ٹوٹتا ہے تو اس کے اثرات پورے خاندان کو اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں۔ کچھ لوگ آپ کی زندگی میں ایسے بھی ہوتے ہیںجو درپردہ آپ سے دشمنی رکھتے ہیں۔ ایسے لوگ اپنے منہ میں میٹھی زبان رکھتے ہیں لیکن وہ آپ کے خیرخواہ نہیں ہوتے۔

 ایسے لوگ غلط فہمیوں کی آگ کو ہوا دینے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ وہ لگائی بجھائی میں لگے رہتے ہیں۔ ایسے لوگ آپ کو تباہ و برباد کرنے کے در پے رہتے ہیں۔ ایسے لوگوں سے بہت چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔

ایسے لوگ آگ لگا کر تماشائی بن جاتے ہیں۔ آپ کی تباہی و بربادی چاہنے والے لوگوں کو پہچانئے۔ اپنے دوست اور دشمن میں فرق کرنا سیکھئے ، آپ آنے والے تباہ کن اثرات سے محفوظ ہوجائیں گے۔ مٹھاس زیادہ بڑھ جائے تو وہ کڑواہٹ میں تبدیل ہوجاتی ہے۔

 ضروری نہیں کہ مٹھاس بھرے لہجے واقعی آپ کے خیرخواہ ہوں ۔ ذرا سنبھل کر قدم رکھئے۔ ہماری ناسمجھی اکثر زندگی بھر کا روگ بن جایا کرتی ہے۔ ہر کسی پر بھروسہ کرنے کی غلطی ہرگز مت کیجئے۔ ضروری نہیں کہ جیسا دکھائی دے ویسا ہی ہو۔ اکثر آپ کے مشاہدے میں بھی یہ بات آئی ہوگی کہ چاہنے والے میاں بیوی ایک دوسرے سے بھی غلط فہمی کی وجہ سے دور ہوجاتے ہیں۔ دونوں کے راستے بدل جاتے ہیں۔

 اکثر اس طرح کے معاملات میں تباہی کے ذمہ دار وہ لوگ ہوتے ہیں جو بظاہر اپنے نظر آتے ہیں لیکن وہ ہرگز بھی اپنے نہیں ہوتے۔ وہ اپنائیت کا ڈھونگ ضرور کرتے ہیں لیکن وہ آپ کے خیرخواہ ہرگز نہیں ہوتے۔ ہر کسی کی بات پر یقین کرنے کی عادت ٹھیک نہیں ہے۔ جب کوئی شخص کسی کے ذاتی معاملات میں حد سے زیادہ دخل اندازی کرتا پایا جائے تو آپ کو چوکنا ہوجانے کی ضرورت ہے۔

 ایسے لوگ چونکہ فسادی ذہن کے لوگ ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں سے کنارہ کش ہوجانا بہتر ہے تاکہ ایسے لوگوں کے شر سے بچا جاسکے۔ غلط فہمی کی دھند میں آپ درست فیصلے کبھی نہیں کرسکتے۔ اگر ہم اپنی سوچ کو پاکیزہ اور صاف شفاف رکھیں گے تو کبھی بھی ہمارے دل میں کسی کے لئے بدگمانی پیدا نہیں ہوگی۔

 بدگمانی غلط فہمی کو جنم دیتی ہے اور غلط فہمیوں کی آگ سب کچھ جلا کر راکھ کردیتی ہے۔ لوگ قتل و غارت گری پر آمادہ ہوجاتے ہیں۔ ہمارا دین ہمیں امن کا سلامتی کا پیغام دیتا ہے۔ اسلام سے دوری کی وجہ سے ہم نے آج تک بہت نقصان اٹھایا ہے۔

کبھی ہم سے بات کو سمجھنے میں بھی غلطی ہوسکتی ہے۔ ہمارا اس بات پر قائم رہنا کہ ہم سے کبھی کوئی غلطی سرزد نہیں ہوسکتی۔ ہم جیسا سوچ رہے ہیں ویسا ہی ہے۔ یہ ہٹ دھرمی معاملے کو بگاڑنے کا سبب بنتی ہے۔ اپنی طبیعت میں ٹھہراؤ اور سکون پیدا کیجئے۔

کسی کی بات کو غلط رنگ دے کر زندگیوں میں زہر مت گھولئے۔ ہم اپنی اور دوسروں کی زندگی کو خوبصورت بنا سکتے ہیں ، بگڑے معاملات کو سلجھا سکتے ہیں، بس ضد اور جھوٹی انا کی عادت سے چھٹکارا پاکر ہم انمول مسرتوں کو پاسکتے ہیں۔ ہم نے اپنی کوتاہیوں کی وجہ سے کتنی زندگیوں کو جہنم بنا دیاہے اور بنا رہے ہیں۔

 ہمیں اس بات کا بالکل اندازہ نہیں ہے۔ نرم و گداز دل رکھنے والے لوگ کبھی بھی اپنے دل میں بغض ، کدورت اور بدگمانی کو اپنے دل میں جگہ نہیں دیتے۔ وہ لوگوں میں صلح کراتے ہیں، غلط فہمیوں کو دور کرتے ہیں، جس کے نتیجے میں ایک مضبوط و مستحکم معاشرہ وجود میں آتاہے ۔ اپنے دوست ، احباب کی کہی گئی گفتگو کو امانت سمجھئے ، ان کی باتوں کو اپنے آپ تک محدود رکھئے۔

 اگر آپ ایسا نہیں کرتے تو یہ امانت میں خیانت کے زمرے میں ہی شمار کیا جائے گا۔ ہم کبھی اِس غلط فہمی کا بھی شکار ہوجایا کرتے ہیں کہ سارے لوگ ہم سے محبت کرتے ہیں، ہم چاہے دوسروں سے جیسا بھی رویہ رکھیں، لوگ ہم سے دوری اختیار نہیں کرسکتے۔

ہم چونکہ اس خوش فہمی کی غلط فہمی میں مبتلا رہتے ہیں کہ ہم سب سے اعلیٰ و برتر ہیں ، اس لئے ہم کبھی قابل گرفت نہیں ہوسکتے۔ اس طرح کی خوش فہمی ہمارے غرور و تکبر کی جیتی جاگتی تصویر ہوتی ہے۔ عاجزی و انکساری رکھنے والے لوگ بہت ہی کم کسی سے بدگمان ہوتے ہیں اس لئے غلط فہمیوں کا شکار نہیں ہوتے۔

ہر وقت بدگمانیاں دل میں پالنے والے لوگ کبھی بھی خوش نہیں رہ سکتے۔ وہ ہمیشہ غلط فہمیوں کی آنچ پر سلگتے رہتے ہیں۔ وہ کبھی سکون کی دولت نہیں پاسکتے۔ احساس برتری اور خودپسندی ان کو تنہا کردیا کرتی ہے۔ وہ اپنی طاقت اور غرور کے نشے میں اس قدر گم ہوتے ہیں کہ وہ بھول جاتے ہیں کہ لوگوں کی محبت اور چاہت حاصل کئے بنا بھی کیا زندگی ، زندگی ہوسکتی ہے۔

دولت آپ کو آسائش تو دے سکتی ہے مگر سکون فراہم نہیں کرسکتی۔ احساسِ تفاخر اللہ کو بھی پسند نہیں۔ پھولوں سے بھری شاخیں ہمیشہ جھکی رہتی ہیں۔ اس بات کو ہمیشہ یاد رکھئے کہ بدگمانی اور غلط فہمی کا راستہ احساس برتری سے ہوکر گزرتا ہے۔ احساسِ برتری کے الجھے ہوئے اور خاردار راستے آپ کو لہولہان کرسکتے ہیں۔

 آپ کی پوری زندگی کو تباہ و برباد کرسکتے ہیں۔ لوگوں کی نفرتیں آپ کو اس راستے کا مسافر بنا دیتی ہیں جہاں آپ اور صرف آپ ہی ہوتے ہیں۔ آپ کے پاس کچھ باقی نہیں رہتا۔ صرف پچھتاوے رہ جاتے ہیں۔ اس لئے غلط فہمی کو دل میں پلنے نہ دیں۔ حقیقت آشکار ہونے پر ہمیں شرمندگی کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔ رشتوں کی ڈور بہت نازک ہوا کرتی ہے۔

جب انسان کسی سے متنفر ہوتاہے تو معمولی سی غلط فہمی کو بنیاد بناکر مفروضے گڑھنے لگتا ہے اس کا نتیجہ یہ ہوتاہے کہ تعلقات بگڑتے ہی چلے جاتے ہیں۔ اگر ہماری نیت نیک ہوگی ، ہم آپس کے تعلقات میں بہتری لانا چاہیں گے تو کبھی بھی معمولی باتوں کو اتنی اہمیت نہیں دیں گے کہ رشتے کمزور ہوجائیں۔ غلط فہمیاں اگر دل میں زیادہ دیر تک رہیں تو بدگمانیاں جنم لینے لگتی ہیں پھر فاصلے اتنے بڑھ جاتے ہیں کہ واپسی ناممکن ہوجاتی ہے۔

 بدگمانیاں، غلط فہمیاں اور برے وسوسے زندگی کی خوشیوں کو نیست و نابود کردیا کرتے ہیں۔ کوشش کیجئے کہ ہمیشہ مثبت سوچ کو اپنائیں۔ زندگی کے راستے پُرخار نہ ہوجائیں، ہر لمحہ ہر ایک کے لئے مسرتوں کے پھول چننے کی کوشش کیجئے۔

 زندگی حسین ہوتی چلی جائے گی۔ زندگی جو بہت مختصر ہے ، اپنی غلطیوں کی اصلاح کرتے رہے تو زندگی خودبخود خوشگوار ہوجائے گی۔ غلط فہمیاں زندگی کی خوشیوں کو دیمک کی طرح کھا جاتی ہیں۔ اس لئے زندگی بہت احتیاط سے گذاریئے، شرپسند لوگوں کی لگائی ہوئی آگ میں ہنستے بستے گھر جل جاتے ہیں، اس لئے بہت محتاط ہوکر زندگی گزاریئے۔

٭٭٭