گوشہ نشینی اور بندے پر اس کا مثبت اثر
عزلت و تنہائی سے یہاں میری مراد شر کے کامو ں اور فضول باتوں سے بچنا ہے۔ ایسی تنہائی تو سینہ کھول دیتی اور رنج و بلا کو دور کردیتی ہے۔ ابن تیمیہؓ فرماتے ہیں بندے کو عبادت، ذکر و فکر، تلاوت اور احتساب نفس کے لیے تنہائی کی ضرورت ہوتی ہے۔

عزلت و تنہائی سے یہاں میری مراد شر کے کامو ں اور فضول باتوں سے بچنا ہے۔ ایسی تنہائی تو سینہ کھول دیتی اور رنج و بلا کو دور کردیتی ہے۔ ابن تیمیہؓ فرماتے ہیں بندے کو عبادت، ذکر و فکر، تلاوت اور احتساب نفس کے لیے تنہائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ تنہائی میں وہ دعا و استغفار کرتاہے، برائی سے دور رہتا ہے ’’ابن الجوزی نے صید الخاطر میں تین فصلیں باندھی ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے۔
کہتے ہیں ’’راحت، عزت، شرف، شرو فساد سے دوری،منصب و مرتبہ کی حفاظت، عمر اور وقت کی حفاظت، کینہ پروروں اور حاسدین سے دوری، آخرت کے لیے تفکر، اللہ سے ملاقات کی تیاری، اطاعت کی فرصت، نفع بخشی میں جولان ِ فکر، گوہر حکمت نکالنے اور نصوص سے استنباط کرنے کے لیے میں نے کوئی نسخہ تنہائی و عزلت سے زیادہ تیر بہدف نہیں پایا۔عزلت کے بارے میں اس کے علاوہ بھی انہوں نے تذکرہ کیاہے جس کا مفہوم ہم نے قدرے تصرف کے ساتھ بیان کردیا ہے۔
عزلت میں پردہ ہے، عیوب پوشیدہ ہوجاتے ہیں۔ عزلت زبان کی غلطی، لغزش اور رعونت نفس کا پردہ ہے، محاسن کے چہرے کا حجاب ہے، گوہر فضیلت کا صدف ہے،مناقب کی کلیوں کا غلاف ہے۔ اگر یہ تنہائی کتاب کے ساتھ ہو تو کیا کہنے! عمر میں اضافہ ہو، مہلت میں وسعت آئے، خلوت میں آرام ملے،طاعت کا سفر ہو، غور و فکر کی سیاحت ہو۔ عزلت میں ہی تامل، تدبر اور تفکر کا مزہ آپ کو ملے گا۔ عزلت ہی میں آپ معانی او رلطائف کی تمنا کریں گے، مقاصد پر غور کریں گے، رائے کا محل اور ہیکل عقل کی تعمیر کریں گے۔ عزلت میں روح کو مزہ، قلب کو زبردست سرور ملتاہے اور دل میں نئی نئی امنگیں کروٹ لیتی ہیں۔عزلت میں ریاکاری کا موقع نہیں ملتا کیونکہ آپ کو صرف اللہ دیکھتاہے آپ کی باتیں کوئی انسان نہیں بلکہ علیم و خبیر سنتا ہے۔
جتنے بھی بڑے لوگ، جہاں گیری کرنے والے، عبقری، اساطین زمان اور تاریخ ساز ہستیاں، اہل فضل، زمانے کے با بصیرت لوگ، محفلوں کی جان گزرے ہیں، ان سب نے اپنی عظمت و بڑائی کے پودے کی سینچائی عزلت و تنہائی کے پانی سے کی تھی۔ یہاں تک کہ وہ پودا نشوونما پاکر اپنے تنے پر کھڑا ہوگیا اور اللہ کے حکم سے برگ و بارلایا۔
علی بن عبدالعزیز جرجانی کہتے ہیں :’’لوگ کہتے ہیں کہ تم ترش رو ہو حالانکہ انہوں نے ایسے شخص کو دیکھا جو ذلت کی جگہ سے دور رہتا ہے، جب کہا جاتا ہے کہ یہاں گھاٹ ہے تو کہتا ہوں کہ ہاں میں دیکھ رہا ہوں لیکن بندہ آزادی کے ساتھ پیاس برداشت کرلیتا ہے۔ میں علم کا حق ادا نہیں کرتا اگر کوئی لالچ دکھائی دے اور اسے میں اپنے لیے زینہ بنالوں، کیا میں علم کا پودا لگاؤں اور ذلت کا پھل پاؤں، تب تو جہل کی اتباع ہی بہتر ہوگی۔ اگر اہل علم نے علم کی حفاظت کی ہوتی تو وہ ان کی حفاظت کرتا اور اگر دلوں میں اس کی عظمت ڈالی ہوتی تو ان کی عظمت ہوتی لیکن انہوں نے علم کی اہانت کی اور اس کے چہرے کو حرص وآس سے گدلا کردیا، یہاں تک کہ وہ میلا ہوگیا۔‘‘
احمد بن خلیل حنبلی ؒ کہتے ہیں :جو بھی تفکرات سے راحت اور عزت چاہتا ہو، اسے تنہا رہنا چاہیے اور قلیل پر راضی۔ اس شخص کو آرام کہاں جو کینہ پروروں، حاسدوں کا نشانہ ہو، بخیل سے بھی اس کا پالا پڑتا ہو۔ افسوس کہ ہر طرح کے آدمی کو جان کر دکھ ہی ہوتا ہے۔ قاضی علی بن عبدالعزیز جرجانی ؒ کہتے ہیں ’’مجھے زندگی کی لذت تب تک نہیں ملی جب تک میں نے گھر میں گوشہ نشین ہوکر کتاب کو اپنا ہم نشین نہیں بنا لیا۔ علم سے زیادہ باعزت کوئی چیز نہیں۔ مجھے اس کے علاوہ کوئی ہم دم نہیں چاہیے۔ لوگوں سے ملنے جلنے میں تو ذلت ہے، اگر عزت چاہتے ہو تو انہیں چھوڑ کر تنہا رہو۔‘‘
ایک اور شاعر کہتا ہے : ’’میں تنہائی کا عادی اور خانہ نشین ہوں، اس لیے ہمیشہ سکون و راحت سے رہتا ہوں، میں نے لوگوں کا بائیکاٹ کردیا ہے، مجھے یہ پروا نہیں کہ فوج نے کوچ کردیا یا بادشاہ سوار ہوگیا۔‘‘
محدث حمیدی ؒ فرماتے ہیں ’’لوگوں کے میل جول سے قیل و قال کے علاوہ کیا ملتا ہے، اس لیے لوگوں سے ملنا جلنا کم کردو، سوائے اس کے کہ علم کا حصول یا اصلاح ِ حال مقصود ہو۔‘‘ابن فارس کہتے ہیں ’’لوگ میرا حال چال پوچھتے ہیں، میں کہتا ہوں اچھا ہے، ایک ضرورت پوری ہوتی ہے، اک رہ جاتی ہے، جب دل میں تفکرات کا اژدھام ہوجاتا ہے تو کہتا ہوں کہ کبھی تو ان سے نجات ملے گی۔ میری ہمدم بلی ہے، میری مونس و غم خوار میری کاپیاں ہیں اورمجھے چراغ سے عشق ہے۔‘‘
ایک کہاوت ہے کہ ’’عزلت چاہنے والے کوعزت ملتی ہے۔‘‘ اس بارے میں خطابی کی کتاب ’’العزلۃ‘‘ کا بھی مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔
٭٭٭