حیدرآباد

تلنگانہ میں گاڑیوں کی تعداد میں زبردست اضافہ، ہر دو میں سے ایک شخص کا اپنی گاڑی پر سفر!

ماہرین کے مطابق، گاڑیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کی ایک بڑی وجہ بینکوں اور خانگی فینانس کمپنیوں سے قرضوں کی آسان فراہمی ہے۔ نوجوان ملازمین نوکری ملتے ہی ای ایم آئی کے تحت گاڑیاں خریدنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔

حیدرآباد: گزشتہ ایک دہائی میں تلنگانہ میں رجسٹرڈ گاڑیوں کی تعداد میں زبردست اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 2 جون 2014 کو، جب تلنگانہ ریاست کی تشکیل عمل میں آئی تھی، 72 اعشاریہ 52 لاکھ گاڑیاں رجسٹرڈ تھیں۔

متعلقہ خبریں
پہلگام حملے کی مذمت پر اسد الدین اویسی کو خراجِ تحسین، مدینہ سرکل پر پورٹریٹ کو دودھ سے نہلایا گیا
مہدی پٹنم میں اسکائی واک کے تعمیری کام تیزی سے جاری
پیپر ایکسپو 2025 – ہندوستان کی پہلی قومی پیپر نمائش، حیدرآباد میں منعقد ہوگی
مرحومین کی طرف سے قربانی جائز، ثواب کا ذریعہ ہے: مفتی صابر پاشاہ قادری
اللہ تعالیٰ کے ذکر سے دلوں کو اطمنان ملتا ہے،مولانا حافظ پیر شبیر احمد صدر جمعیۃ علما تلنگانہ کا بیان

لیکن گزشتہ دس برسوں میں یہ تعداد دو اعشاریہ پانچ گنا بڑھ کر ایک اعشاریہ 72 کروڑ یعنی 17 اعشاریہ 2 تک پہنچ چکی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سالانہ اوسطاً 10 لاکھ  نئی گاڑیاں سڑکوں پر آرہی ہیں۔

ماہرین کے مطابق، گاڑیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کی ایک بڑی وجہ بینکوں اور خانگی فینانس کمپنیوں سے قرضوں کی آسان فراہمی ہے۔ نوجوان ملازمین نوکری ملتے ہی ای ایم آئی کے تحت گاڑیاں خریدنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ، متوسط طبقہ نہ صرف موٹر سائیکل بلکہ کاروں کی خریداری میں بھی زیادہ دلچسپی لے رہا ہے۔

تلنگانہ میں رجسٹرڈ گاڑیوں میں سب سے زیادہ تعداد حیدرآباد، رنگا ریڈی، اور میڑچل میں دیکھی گئی، جہاں مجموعی طور پر82 اعشاریہ 45 لاکھ  گاڑیاں رجسٹرڈ ہیں، جو ریاست میں موجود تمام گاڑیوں کا تقریباً 50 فیصد بنتی ہیں۔

دوسری طرف، سب سے کم رجسٹرڈ گاڑیوں والے اضلاع میں ملگ53 ہزار 430 ، بھوپال پلی80 ہزار 10 اور آصف آباد 88 ہزار 768 شامل ہیں۔

ٹرانسپورٹ ڈپارٹمنٹ کے مطابق، تلنگانہ میں تقریباً ہر دو میں سے ایک شخص کے پاس اپنی گاڑی موجود ہے، جو کہ ریاست میں ٹریفک کے بڑھتے ہوئے دباؤ کی ایک بڑی وجہ بھی بن رہی ہے۔

گاڑیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے ساتھ ہی سڑکوں پر ٹریفک کے مسائل اور آلودگی میں بھی اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے، جس پر حکام مستقبل میں قابو پانے کے لیے اقدامات کر رہے ہیں۔