مقصد وہی مگر انداز بدل گیا،نئی ٹکنالوجی اورایجادات نے حیدرآباد کے سحری خوانوں کا کام آسان کردیا
حیدرآباد: مقصد وہی ہے لیکن انداز اور طریقہ بدل گیا ہے۔نئی ایجادات نے شہر میں رمضان المبارک میں پہلے کی بہ نسبت سحری جگانے والوں کے کام کو مزید آسان کردیا ہے۔
حیدرآباد: مقصد وہی ہے لیکن انداز اور طریقہ بدل گیا ہے۔نئی ایجادات نے شہر میں رمضان المبارک میں پہلے کی بہ نسبت سحری جگانے والوں کے کام کو مزید آسان کردیا ہے۔
ماہ صیام کے آغاز کے ساتھ ہی شہر میں سہری میں جگانے کا سلسلہ چل پڑتا ہے، یہ روایت کافی قدیم ہے۔پہلے زمانہ میں ڈھول، تاشے اور دیگر اشیاپیٹھ کر لوگوں کو سحری کیلئے جگایاجاتا تھا۔
لیکن وقت کی تبدیلی اور بدلتی ہوئی معاشرتی ضروریات کے تحت سحری میں جگانے والوں کے طریقہ کار میں بھی نمایاں تبدیلی آگئی ہے۔
بعض مقامات پر یہ دیکھا گیا ہے کہ یہ لوگ سحری جگانے کے لئے رکشہ پر ایمپلی فائر کو رکھتے ہوئے مائیک کے ذریعہ لوگوں کو سحری کیلئے بیدارکرنے کاکام کرر ہے ہیں۔
ان کاماننا ہے کہ ثواب کی نیت سے سحری میں جگانے کاکا م وہ کئی برسوں سے کرتے آرہے ہیں۔کئی لوگوں نے کہاکہ وہ گزشتہ دو تاتین دہائیوں سے لوگوں کو بیدار کرنے کاکام کر رہے ہیں تاہم وقت کے بدلنے کے ساتھ ساتھ اٹھانے کیلئے اختیارکئے جانے والے طریقہ کار میں بھی نمایاں تبدیلی ہوئی ہے۔
رمضان کی رونقوں کو دوبالاکرنے میں سحری جگانے والوں کا ہمیشہ سے ہی نمایاں رول رہا ہے تاہم یہ دیکھا جارہا ہے کہ یہ فریضہ انجام دینے والے سحر خوانوں کی تعداد ہرگذرتے سال کے ساتھ کم ہوتی جارہی ہے۔
بعض سحری خواں جو اپنی شناخت ظاہر نہیں کرنا چاہتے تھے نے کہاکہ وہ تقریبا 30تا40سال سے سحری میں لوگوں کو جگانے کام کررہے ہیں۔
وہ کہتے ہیں ‘میں گذشتہ قریب 25برس سے لوگوں کو سحری کے وقت جگانے کا فریضہ سرانجام دے رہا ہوں۔
مجھے یہ فریضہ انجام دینے سے قلبی سکون ملتا ہے ‘۔یہ پوچھے جانے پر کہ ‘کیا اس جدید دور میں سحرخوانی کی کوئی مطابقت ہے ‘ توان کا جواب میں کہنا ہے،اگرچہ کہ لوگوں نے اپنے سل فون میں الارم سیٹ کرنے کو ترجیح دی ہے لیکن اب بھی وہ گلی گلی گھوم کرلوگوں کو جگانے کی روایت کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔
وہ ٹکنالوجی پر سحرخوانی کی روایت کو ترجیح دیتے ہیں۔ ہم لوگوں کے لئے الارم کا کام کرتے ہیں ‘۔شہر کے کئی سحرخوان افرادکا کہنا ہے کہ انہیں مقامی لوگ رمضان کے اواخر بالخصوص عیدالفطر کے موقع پر نقدی اور ضروریات زندگی کی چیزیں فراہم کرتے ہیں۔
انہوں نے بتایا ‘لوگوں میں سحرخوانوں کے تئیں عزت و احترام میں کوئی کمی نہیں آئی ہے تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ ہر گذرتے سال کے ساتھ سحرخوانوں کی تعداد میں کمی آرہی ہے ‘۔
ایک سحر خوان نے نتایا ‘اگرچہ عیدالفطر کے موقع پر لوگ ہمیں اس کام کے عوض پیسہ اور ملبوسات و گھریلو استعمال کی چیزیں انعام کے طور پر دیتے ہیں لیکن سحری کے وقت لوگوں کو جگانے سے ہمیں دلی سکون ملتا ہے ‘۔