سوشیل میڈیابین الاقوامی

چپل تل کر کھلائی جا رہی ہے؟ وائرل ویڈیو پر لوگ حیران

اگرچہ یہ ویڈیو مصنوعی ذہانت کی تخلیق ہے اور حقیقت پر مبنی نہیں، لیکن یہ آج کے ڈیجیٹل دور میں وائرل ہونے والے "کنٹینٹ" کی ایک بہترین مثال ہے۔ یہ نہ صرف لوگوں کو حیرت میں ڈال دیتا ہے بلکہ یہ بھی سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ ہم کس عجیب و غریب دور میں داخل ہو چکے ہیں، جہاں اصلی اور نقلی میں فرق کرنا مشکل ہو گیا ہے۔

نئی دہلی: دنیا تیزی سے ٹیکنالوجی کے دور میں داخل ہو چکی ہے، جہاں روز نئی حیرت انگیز چیزیں سامنے آتی رہتی ہیں۔ سوشل میڈیا پر حالیہ دنوں ایک ایسا ویڈیو وائرل ہو رہا ہے جس نے دیکھنے والوں کے ہوش اُڑا دئے ہیں۔ ویڈیو میں ایک خاتون کو چپلیں (سینڈل) فرائی کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے، بالکل کسی اسنیک (Snacks) کی طرح۔

یہ عجیب و غریب منظر دیکھ کر لوگ حیران ہیں اور تبصرے کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ اب "فُلائنگ چپل” نہیں، بلکہ "فرائنگ چپل” کھانے کو ملے گی۔

ویڈیو دیکھنے سے بظاہر لگتا ہے کہ یہ چین کا ہے، جہاں اسٹریٹ فوڈ بہت مشہور ہے۔ مگر حقیقت میں یہ ویڈیو ایک مصنوعی ذہانت (AI) کے ذریعے بنایا گیا کلپ ہے، جو سچائی کے بجائے تخلیقی مواد کا حصہ ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق اس انوکھے اسنیک کی شروعات سب سے پہلے ملیشیا میں ہوئی تھی، نہ کہ چین میں۔

ویڈیو میں ایک اسٹریٹ فوڈ اسٹال دکھایا گیا ہے، جہاں بڑے بڑے الفاظ میں "وائرل کرسپی سینڈل” (Viral Crispy Sandal) لکھا ہوا ہے۔ وہاں نہ صرف لوگ یہ چیز دیکھنے آ رہے ہیں بلکہ کچھ لوگ اسے خرید کر کھانے کی بھی کوشش کر رہے ہیں۔

ویڈیو میں خاتون چپلوں کو تیل میں فرائی کرتی دکھائی دیتی ہے، جس طرح عام طور پر آلو یا دیگر اسنیکس کو تلا جاتا ہے۔ اس منظر کو دیکھ کر سوشل میڈیا صارفین نے طنز و مزاح بھرے تبصرے بھی کیے ہیں۔

سوشل میڈیا پر ردعمل
یہ ویڈیو انسٹاگرام پر truefacthindi نامی اکاؤنٹ سے شیئر کیا گیا ہے، جسے ہزاروں لوگوں نے دیکھا اور حیرت زدہ رہ گئے۔ ایک صارف نے لکھا:
"بھائی! ایسی چیزیں آخر کون کھاتا ہے؟”

ایک اور صارف کا کہنا تھا:
"یہ لوگ چپلوں کو اس طرح تل رہے ہیں جیسے یہ کوئی کھانے کی چیز ہو۔”

ایک دلچسپ تبصرہ کچھ یوں تھا:
"اب فلائنگ چپل نہیں، فرائنگ چپل!”

اگرچہ یہ ویڈیو مصنوعی ذہانت کی تخلیق ہے اور حقیقت پر مبنی نہیں، لیکن یہ آج کے ڈیجیٹل دور میں وائرل ہونے والے "کنٹینٹ” کی ایک بہترین مثال ہے۔ یہ نہ صرف لوگوں کو حیرت میں ڈال دیتا ہے بلکہ یہ بھی سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ ہم کس عجیب و غریب دور میں داخل ہو چکے ہیں، جہاں اصلی اور نقلی میں فرق کرنا مشکل ہو گیا ہے۔