دہلی

وقف ترمیمی بل، جے پی سی کو 8 لاکھ درخواستیں موصول

وقف (ترمیمی) بل کا جائزہ لینے والی مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کو اب تک اداروں اور عوام کی جانب سے 8 لاکھ درخواستیں موصول ہوئی ہیں۔ ذرائع نے یہ بات بتائی۔

نئی دہلی: وقف (ترمیمی) بل کا جائزہ لینے والی مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کو اب تک اداروں اور عوام کی جانب سے 8 لاکھ درخواستیں موصول ہوئی ہیں۔ ذرائع نے یہ بات بتائی۔

متعلقہ خبریں
مدرسہ دارالعلوم رشیدیہ کی جانب سے وقف ترمیمی بل کے خلاف شعور بیداری مہم

کمیٹی کی تیسری میٹنگ جمعرات 5 ستمبر کو منعقد ہوئی جس میں تین وزارتوں شہری امور، روڈ ٹرانسپورٹ اور ریلویز نے قانون سازی کے مضمرات پر پریزنٹیشن دیئے۔ وزارتِ شہری امور نے اِس بنیاد پر ترمیمات کی حمایت کی کہ اِس کی وجہ سے مقدمہ بازی میں کمی آئے گی۔

اُس کا موقف تھا کہ برطانوی حکومت نے نئے دارالحکومت کے لئے 341 مربع کیلو میٹر اراضی حاصل کرتے ہوئے معاوضہ ادا کیا تھا لیکن 1970 اور 1977 کے دوران وقف بورڈ نے نئی دہلی کے علاقہ(این سی آر) میں 138 جائیدادوں پر دعوے کئے جس کی وجہ سے طویل قانونی جنگیں شروع ہوئیں۔

ارکان نے وزارت کے اِس دعویٰ کی تردید کی۔آل انڈیا مجلس اتحادالمسلمین (اے آئی ایم آئی ایم) کے رکن پارلیمنٹ اسدالدین اویسی نے کہا کہ وزارت یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ بے ترتیب جائیدادوں کو وقف کے طور پر نوٹیفائی نہیں کیا جاسکتا۔ ایسا واضح اور جامع ثبوت ہونا چاہئے جس سے معلوم ہو کہ مخصوص جائیدادیں وقف ہیں۔ اگر کسی جائیداد کو غلط طور پر وقف نوٹیفائی کیا جاتا ہے تو فریق مخالف کو اِسے چالینج کرنے کا پورا موقع مل جاتا ہے۔

تاہم وزارت یہ بتانے کی کوشش کررہی ہے کہ اگر یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ جائیداد سرکاری ملکیت ہے تو کوئی سوال نہیں کیا جانا چاہئے اور تمام دعوے ختم ہوجائیں۔ ذرائع کے مطابق ارکان نے وزارت کے بیان کو ناکافی پایا اور اُس سے مختلف سوالات کئے۔ ڈی ایم کے رکن پارلیمنٹ اے راجہ نے نشاندہی کی کہ وقف ایکٹ 1913 میں منظور کیا گیا تھا جس کا وزارت کی طرف سے دیئے گئے پریزنٹیشن میں کوئی ذکر نہیں کیا گیا ہے۔

اپوزیشن ارکان نے یہ بھی جاننے کا مطالبہ کیا کہ حکومت 17 ویں صدی سے موجود مساجد جیسی جائیدادوں پر ملکیت کا دعویٰ کس طرح کرسکتی ہے۔ اِس معاملہ پر بی جے پی ارکان پارلیمنٹ کے جوابی سوالات بھی ہوئے۔ بی جے پی رکن پارلیمنٹ میدھا وشرام کلکرنی نے ملک بھر کی تمام مزارات (مزار یا مقبرہ) کی فہرست اور اُن کی اصل تفصیلات طلب کیں۔

انہوں نے خاص طور پر اُن مزاروں کی فہرست دینے کا مطالبہ کیا جو 7 ویں صدی عیسوی سے پہلے وجود میں آئی تھیں۔ تاریخی بیانات کے مطابق ہندوستان میں اسلام اسی وقت آیا تھا۔ وزارت نے یہ بھی بتایا کہ تقریبا 9 لاکھ ایکڑ اراضی وقف کے دائرہ میں آتی ہے۔ تاہم ارکان نے اِن اعداد و شمار کی تردید کی اور دعویٰ کیا کہ وزارت کو تفصیلی بریک اپ دینا چاہئے۔

میٹنگ کے دوران ایک رکن نے اس بات کو اُجاگر کیا کہ اِس نام نہاد 9 لاکھ ایکڑ اراضی کے منجملہ 7 لاکھ ایکڑ یا اس سے زیادہ اراضی کو قبرستانوں کے لئے استعمال کیا جانا چاہئے۔ جبکہ مزید ایک لاکھ ایکڑ یا اس سے زیادہ اراضی مساجد کے لئے استعمال کی جانی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ اراضی کے استعمال کی اصل تصویر اس کی تفصیلات سے ہی واضح ہوگی۔

ذرائع کے مطابق ارکان نے چیرمن اور بی جے پی رکن پارلیمنٹ جگدمبیکاپال کی جانب سے ہفتہ میں دو مرتبہ میٹنگ طلب کرنے پر احتجاج کیا۔ ایک موقع پر اپوزیشن ارکان احتجاجا واک آؤٹ کرنے کا منصوبہ رکھتے تھے تاہم انہوں نے بحث کی خاطر رکنے کا فیصلہ کیا۔ ایک رکن نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر کہا کہ اگر وہ (جگدمبیکاپال) ہر جمعرات اور جمعہ کو میٹنگ طلب کرتے رہیں تو ہمیں عوام اور حکومت کی طرف سے کی گئی گزارشات کا مطالعہ کرنے کا وقت نہیں ملے گا اور اِس معاملہ کو اسپیکر لوک سبھا سے رجوع کرنے پڑے گا۔