تقسیم ترکہ ۔ یہ کیسا ظلم ہے: شریعت کی آڑ لینے کیلئے کیا یہی اصول رہ گیا ہے
میں ایک خانگی اسکول میں ٹیچر ہوں‘ میں نے ایم۔اے‘ بی ۔ایڈ کے امتحان پاس کئے اور اسکول میں ملازمت کررہی ہوں۔ میری شادی پچیس سال پہلے ہوئی لیکن بدقسمتی سے شادی شدہ زندگی کے مجھے صرف چھ سال ہی مل سکے۔ میرے شوہر اچانک انتقال کرگئے۔
سوال:- میں ایک خانگی اسکول میں ٹیچر ہوں‘ میں نے ایم۔اے‘ بی ۔ایڈ کے امتحان پاس کئے اور اسکول میں ملازمت کررہی ہوں۔ میری شادی پچیس سال پہلے ہوئی لیکن بدقسمتی سے شادی شدہ زندگی کے مجھے صرف چھ سال ہی مل سکے۔ میرے شوہر اچانک انتقال کرگئے۔ اس چھ سالہ زندگی میں مجھے ایک لڑکا اور ایک لڑکی تولد ہوئیں جنہیں میں نے میری کمائی اور خسر مرحوم کی مدد سے تعلیم دلوائی ۔لڑکی نے میرٹ سے ایم بی بی ایس پاس کیا ہے۔
میرے خسر ایک نیک اور ولی صفت انسان ہونے کے علاوہ ایک موظف گزیٹیڈ آفسر تھے ۔ان کے دو بیٹے یعنی میرے مرحوم شوہر اور ایک دیور‘ خسر صاحب مرحوم مجھ پر تمام زندگی مہربان رہے اور مجھے اپنے 200 مربع گز مکان میں رہنے دیا وہ اپنا سارا پنشن میرے بچوں پر صرف کرتے تھے۔ آج سے دوسال پہلے انہوں نے مجھ سے کہا کہ یہ مکان میں نے اپنی کمائی سے اپنی بیوی یعنی تمہاری ساس کے نام خریدا تھا ‘ چھوٹے بیٹے کی نیت پر شک تھا لہٰذا انہوں نے یہ مکان مجھے بطور ہبہ واپس کردیا تھااور اب میں اس مکان کا تنہا مالک ہوں ‘ میں سوچ رہا ہوں کہ اگر میں گزرجاؤں تو چھوٹا بیٹا تمہیں اور تمہارے بچوں کو محروم کردے گا کیوں کہ شرعی قانونِ وراثت کے مطابق قریبی وارث دور کے وارث کو محروم کردیتا ہے۔
اگرچہ کہ وہ امریکی شہری ہے اور کئی جائیدادوں کا مالک بھی ہے لیکن اس کی نیت ٹھیک نہیں۔ لہٰذا میں نے ارادہ کیا ہے کہ یہ مکان جو میرا ہے اس کا نصف حصہ میں تمہارے اور تمہارے بچوں کے نام کردوں تاکہ میرے بعد تم کو اور تمہارے بچوں کو اس مکان سے شریعت کی آڑ لے کر بے دخل نہ کردیا جائے۔ لہٰذا خسر صاحب مرحوم نے میرے اور میرے بچوں کے نام پر نصف حصہ مکان ہبہ کردیا اور دستاویزات میرے حوالے کردیئے۔ آج سے کچھ دنوں قبل خسر صاحب انتقال کرگئے۔ انہیں اپنی صحت کا پورا اندازہ تھا لہٰذا انہوں نے جوکچھ بھی کیا ہوگا کچھ سوچ سمجھ کر کیا ہوگا۔
دوسرا پہلو یہ ہے انتقال کے کچھ دنوں بعددیور صاحب تشریف لائے اور کہنے لگے کہ آپ اپنے بچوں کے ساتھ اس مکان کا تخلیہ کردیں کیوں کہ آپ کا اس مکان میں کوئی حق نہیں بنتا اور نہ ہی آپ کے بیٹے اس مکان کےوارث بن سکتے ہیں کیوں کہ ان کی والدہ اپنے والد کی زندگی ہی میں فوت ہوگئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ اگر آپ شرعی طور پر ثابت کریں کہ اس مکان پر آپ کا اور آپ کے بچوں کا حق بنتا ہے تو کچھ نہ کہوں گا ‘ وہ بڑے سخت گیر انسان ہیں ۔ وہ امریکن شہری ہیں۔ کئی جائیدادوں کے مالک ہیں ‘ اس کیس کا دردناک پہلو یہ بھی ہے کہ میرے دیور میرے بہنوئی بھی ہیں کیوں کہ میری ایک بہن کی شادی ان سے ہوئی ہے ۔ یعنی دو بھائیوں کی شادیاں دو بہنوں سے ہوئی تھیں۔ اس ضمن میں میری بہن بھی جو کہ ان کی بیوی ہے مجھ سے ناراض ہے اور اپنے شوہر کی طرفداری کررہی ہے۔ خون سفید ہوگیا ہوگا۔
اب میں ایک مشکل حالات کا سامنا کررہی ہوں۔ شوہر نہیں رہے ‘ خسر کا سہارا تھا چلاگیا۔ اب میں کیا کروں‘ کہاں جاؤں‘ میری مدد کیجئے اور مجھے ظلم سے بچائیے۔ ایک مجبور بیوہ۔ حیدرآباد
جواب:- یہ ایک حقیقت ہے کہ بعض شرپسند دینِ اسلام کے پیرو ہونے کا دعویٰ کرنے والے ‘ صرف اسی اصولِ وراثت (Exclusion) کی ہی پیروی کرتے ہیں اور وہ بھی بڑی سختی کے ساتھ کیوں کہ اس اصول کی پاسداری میں ان کے مفادات مضمر ہوتے ہیں۔ دوسرے اوامر کو سراسر فراموش کرجاتے ہیں۔ نہ نماز‘ نہ روزہ‘ نہ حج ‘ نہ زکواۃ ‘ نہ صلۂ رحمی۔ دوسروں کے مال کو کمالِ بے دردی سے ہڑپ کرجاتے ہیں۔ لیکن اس اصول کی سختی سے پابندی کرتے ہیں اور ایک فتویٰ ہاتھ میں لے کر اپنا حق جتاکردوسروں کا حق سلب کردیتے ہیں۔
یہ اصول ایک سنہری اصول ہے جس پر عیسائیوں اور اہلِ ہنود نے سخت تنقید کی ہے جو حق پرستی نہیں ہے۔ اللہ تبارک تعالیٰ نے مسلم صاحبِ جائیداد کو مکمل اختیار عطا کئے ہیں کہ وہ اپنی زندگی میں ہی اپنی جائیداد کو کسی کے بھی حق میں بذریعۂ ہبہ تقسیم کردے۔ پیدا ہوتے ہی کوئی حقدار نہیں بن جاتا۔ حقِ وراثت مالکِ جائیداد کے انتقال کے بعد پیدا ہوگا۔ اگر یہ اصول نہ ہوتا یعنی قریب تر وارث کا بعید تر وارث کو محروم کرنا ‘تو اتنے وارث پیدا ہوجاتے کہ کسی کے حصہ میں کچھ بھی نہ آتا۔ دور دور کے ورثاء کھڑے ہوجاتے اور جائیداد ایسی ہوجاتی جیسے چیونٹیوں سے بھرا ہوا کباب‘ کسی کو کچھ بھی نہ ملتا۔
آپ کے خسر مرحوم نے شائد یہی سمجھ کر اپنی بیوی سے متذکرہ جائیداد اپنے نام پر بذریعہ ہبہ حاصل کی۔ دوسرے معنوں میں وہ ہی اس جائیداد کے مالک تھے جو انہوں نے اپنی بیوی کے نام پر اپنے پیسوں سے خریدی تھی گویا وہ جائیداد ایک امانت تھی جو ان کی بیوی کے نام پر تھی اور بیوی کے انتقال کے بعد اصولی طور پر جائیداد ان کے نام پر واپس آگئی۔ اگر ان کی بیوی نے اپنی کمائی سے وہ جائیداد خریدی ہوتی تو دوسری بات ہوتی لیکن ملازمین سرکار عموماً اپنی کمائی سے جائیدادیں اپنی بیوی کے نام پر ہی خریدتے ہیں کیوں کہ ملازمت کے ضوابط کی روشنی میں حکومت سے ا جازت حاصل ہونے کے بعد ہی کوئی ملازمِ سرکار اپنے نام پر جائیداد خریدتا ہے۔
چونکہ ان کی امانت ان کے پاس واپس آگئی‘ انہوں نے بجا طور پر اپنی جائیداد کا ایک حصہ اپنے پوتوں اور بہو کے نام بذریعہ ہبہ منتقل کردیا جس میں کوئی قباحت نہیں تھی۔
آپ کے ساتھ ظلم ہورہا ہے۔ آپ اسی گھر میں رہیں اور کسی بھی صورت میں اس مکان کا تخلیہ نہ کریں۔ اگر فریقِ مخالف اپنے رویہ میں کوئی تبدیلی نہیں لاتا تو اسے کہیئے کہ عدالت سے رجوع ہو۔ ایسے لوگوں کو توفیق بھی نہیں ہوتی کیوں کہ اللہ تبارک تعالیٰ نیتوں سے بخوبی واقف ہے۔
جنہیں طلب ہے جہاں بھر کی انہی کا دل اتنا تنگ کیوں ہے؟
صاحبِ موصوف کے پاس دولت ہے‘ اولاد ہے‘ طاقت ہے‘ جائیدادیں ہیں‘ وہ خود امریکی شہری ہیں اور ان کے بچے بھی۔ وسیع دولت و جائیدادیں لیکن دل اتنا تنگ کہ بیوہ بھاوج اور یتیم بھتیجوں کے ساتھ یہ بے رحمی اور وہ بھی شریعت کی آڑ میں۔ استغفراللہ۔
ہمیں ایک واقعہ یادآرہا ہے۔ ایک خاتون آفس آئیں اور کہنے لگیں کہ میرا تین سو مربع گز کا مکان واقع عقب شہران ہوٹل مچھلی کمان ‘ ایک صاحب نے ناجائز قبضہ کرلیا ‘ مقدمہ چلا اور میں ہارگئی۔ ہائیکورٹ میں سکنڈ اپیل چل رہی تھی جس میں ہارگئی۔ یہ کاغذات ہیں۔ اب کیا ہوسکتاہے۔ کیا سپریم کورٹ جاسکتی ہوں۔ ہم نے جواب دیا سپریم کورٹ میں کامیابی کا ذرا بھی امکان نہیں۔ بس صبر کیجئے اور سب اللہ پاک پر چھوڑدیجئے۔
ایک سال بعد پھر وہی خاتون کسی دوسرے کام سے آئیں۔ اچانک وہ بات یادآگئی۔ ہم نے پوچھا بی بی ! آپ کے مکان کا کیاہوا۔ یہ بات سن کر سخت حیرت ہوئی جب اس خاتون نے کہا کہ ہمارا مکان واپس مل گیا۔ اور حیرت ہوئی! پوچھا وہ کیسے۔ اس پر خاتون نے یہ واقعہ سنایا۔
آج سے چھ مہینے پہلے اپولو ہاسپٹل سے فون آیا کہ ایک مریض آپ سے بات کرنا چاہتا ہے۔ ہاسپٹل پہنچی تو دیکھا وہی صاحب بستر پر پڑے ہیں اور زبردست ہارٹ اٹیک کے بعد وینٹی لیٹر پر ہیں۔ انہوں نے ایک ہینڈ بیگ دیا اور کہا کہ بی بی یہ آپ کے مکان کے کاغذات ہیں اور یہ مکان کی کنجی ۔ یہ مکان آپ کا ہی ہے جس پر میں نے غاصبانہ قبضہ کیاتھا۔ آج میں آپ کو یہ امانت واپس کررہا ہوں۔ ان کاغذات پر میرے بیٹوں کی بھی دستخط ہے جو میرے اس فیصلہ سے راضی ہیں۔ آپ مجھے معاف کردیں اور اگرچاہیں تو میں ہرجانہ بھی ادا کرنا چاہتا ہوں۔ میں نے انہیں اسی وقت معاف کردیا۔ اللہ پاک بھی انہیں معاف فرمائے۔ پھر بعد میں وہ صحت یاب ہوگئے اور اب خوش آباد ہیں۔
یہ ہے توفیق من جانب اللہ۔