قادیانی پوسٹوں کا پوسٹ مارٹم
اس وقت سوشیل میڈیا کسی بھی چیز کوجاننے، سمجھنے اور سیکھنےکا ایک اہم ذریعہ مانا جارہا ہے، سوشیل میڈیا کے استعمال میں سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ آدمی کو حق و باطل کا شعور، صحیح اور غلط کی تمیز ، سچ اور جھوٹ کی پہچان ہونا چاہئے، بالخصوص مذہبی عقائد و معلومات کو جاننے کے سلسلہ میں اس پر مکمل اعتماد اور بھروسہ نہیں کیا جاسکتا۔
محمد انصار اللہ قاسمی
(آرگنائزر مجلس تحفظ ختم نبوت)
اس وقت سوشیل میڈیا کسی بھی چیز کوجاننے، سمجھنے اور سیکھنےکا ایک اہم ذریعہ مانا جارہا ہے، سوشیل میڈیا کے استعمال میں سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ آدمی کو حق و باطل کا شعور، صحیح اور غلط کی تمیز ، سچ اور جھوٹ کی پہچان ہونا چاہئے، بالخصوص مذہبی عقائد و معلومات کو جاننے کے سلسلہ میں اس پر مکمل اعتماد اور بھروسہ نہیں کیا جاسکتا، اس لئےکہ سوشیل میڈیا پر اہل حق سے زیادہ اہل باطل کا مواد اپلوڈ ہوتا ہے،چنانچہ قادیانی فتنہ کے بشمول مختلف گمراہ اور خارجِ اسلام فرقے مسلمانوں کو دین و ایمان سے محروم کرنے کے لئے سوشیل میڈیاکو ایک موثر ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں، اس کی ایک مثال یہ چند قادیانی پوسٹ ہیں، جو گذشتہ چند مہینوں سے یادگیر صبوبہ کرناٹک میں قادیانی مسلم نوجوان کے گروپوں میں پھیلارہے ہیں اور انھیں اسلام کے بنیادی عقیدہ ختم نبوت سے متعلق شک وشبہ میں مبتلا کرنے کوشش کررہے ہیں، تحریکِ ختم نبوت کی قدیم، نہایت اہم اور سرگرم شخصیت محترم جناب مولانا ابرارالحسن رحمانی (نائب مہتمم دارالعلوم رحمانیہ و سرپرست مجلس تحفظ ختم نبوت یادگیر) نے راقم سطور کو یہ قادیانی پوسٹ ارسال کیئے اور ان کے جوابات لکھنے کے لئے فرمایا، مولانا محترم کے کی خواہش یہ جوابات لکھے گئے ، خدا کرے یہ جوابات قادیانی افراد کے لئے ہدایت کا اور عام مسلمانوں کے لئے ہدایت پر استقامت کا ذریعہ بنیں ،قارئین جوابات ملاحظہ فرمائیں :
1۔ ملا علی قاری ؒ کی عبارت میں ’’احمدیہ‘‘ کے لفظ سے کیا قادیانی فرقہ مراد ہے؟
ملا علی قاری ؒ کی تشریح میں ’’الااحمدیہ‘‘ کے لفظ سے قادیانیوں کو دھوکہ ہوگیا اور یہی دھوکہ وہ دوسروں کو بھی دینا چاہتے ہیں، قادیانیوں نے جس طرح آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تاجِ ختم نبوت پر ڈاکہ ڈالنے کی سازش کی ہے، اسی طرح آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسم گرامی ’’احمد‘‘ کو بھی غصب کرنے کی کوشش کی ہے، اصل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے کئی نام بیان فرمائے، آپؐ نے فرمایا: میں محمد ہوں اور میں احمد ہوں (صحیح مسلم حدیث نمبر: ۲۳۵۴) قرآن مجید میں بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زبانی اسی ’’احمد ‘‘ نام کے ساتھ نبیؐ کی تشریف آوری کی خوش خبری سنائی گئی ان دوناموں کی مناسبت سے ملا علی قاری ؒ نے ’’المحمدیہ‘‘ اور ’’’الااحمدیہ‘‘ کے الفاظ استعمال کئے ہیں۔
دوسرے یہ کہ ملا علی قاری ؒ کے زمانہ میں تو قادیانی گروہ کا وجودہی نہیں تھاتو وہ کیسے ملاعلی قاریؒ کی تشریح کا مصداق ہوسکتا ہے ، پھر یہ کہ ’’احمد‘‘ قادیانیوں کے پیشوا کا نام نہیں ، نام کا ایک جز ہے، مرزا قادیانی نے اپنے مجدد ہونے کے دعوی کو صحیح ثابت کرنے کے لئے علم الاعداد کے لحاظ سے اپنا مکمل نام ’’ غلام احمد قادیانی‘‘ لکھا ہے (تفصیل دیکھئے: روحانی خرائن، ج :۱۵، ص: ۱۵۷۔۱۵۸ ) اس لئے قادیانی اچھی طرح سوچ لیں اگر وہ اپنے پیشوا کو صرف ’’احمد‘‘مانتے ہیں تو پھر وہ اپنے پیشوا کو ’’تیرھویں صدی کا مجدد‘‘ نہیں مان سکیں گے۔
بہر حال جزوی طور پر نام کے اشتراک کی وجہ سے ملا علی قاریؒ کی تشریح میں اپنے آپ کو’’الااحمدیہ‘‘ کا مصداق بتانا گویا ایسا ہی ہے ،جیسے عظیم نام کا کوئی آدمی مشہور و معروف امیر ترین شخص ’’عظیم پریم جی‘‘ کی وپرو کمپنی پر اپنے مالکانہ حقوق و اختیارات کا دعویٰ کرنے لگے، پس جیسے اِس شخص کا دعویٰ سراسر حماقت و نادانی ہے، اسی طرح احمد نام کے جزوی اشتراک کی وجہ سے مرزا غلام قادیانی کو احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام مناصب اور مناقب کا مصداق بتلانا کھلی ہوئی گمراہی اور انتہا درجہ کی شرارت وشرانگیزی ہے۔
پس اگر قادیانی ملا علی قاریؒ کی وضاحت کردہ ’’طریقہ احمدیہ‘‘ پر گامزن رہ کر نجات یافتہ گروہ میں شامل ہونا چاہتے ہیں تو انھیں صحیح اور حقیقی معنوں میں ’’احمدی‘‘ بننا ہوگا، سچے اور حقیقی ’’احمدی‘‘ تو مسلمان ہیں، جو دل و جان سے بغیر کسی تاویل کے محمد مصطفیٰ احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی مانتے ہیں، کیا قادیانی غلام احمد کی غلامی سے نکل کر احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں آنے کے لئے تیار ہیں؟
2۔ کیا احادیث کی کتابوں میں ’’مسیح موعود‘‘ کے الفاظ ہیں؟
قادیانیوں نے یہ حوالہ دے کر واضح طور پر اپنے آپ کو آقاء دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم کی اس وعید کا مصداق ٹہرایا ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے جانتے بوجھتے مجھ پر جھوٹ باندھا یعنی میری طرف ایسی بات منسوب کی جو میں نے نہیں کہی، اُس کو اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالینا چاہئے۔ (صحیح بخاری، حدیث نمبر: ۱۱۰)
پوری قادیانی جماعت کو کھلا چیلنج ہےکہ وہ اس پوسٹ جن میں کتابوں کا حوالہ دے رہے ہیں کیا ان کے عربی متن (Text) میں وہ ’’مسیح موعود‘‘ کا جملہ بتا سکتے ہیں، پھر انھیں اتنی بھی عقل نہیں ہے کہ وہ صحیح بخاری کے حوالہ میں ’’باب و اذکر فی الکتاب مریم‘‘ کا حوالہ دے رہے ہیں، انھیں بتانا چاہئے کہ اُن کے ’’مسیح موعود‘‘ مریم کب بن گئے ، چور چاہئے کتنا ہی چالاک کیوں نہ ہو وہ اپنی چوری کا کچھ نہ کچھ ثبوت چھوڑ ہی جاتا ہے، اصل میں صحیح بخاری کے اس باب میں سورہ مریم کی آیات کی تفسیر میں حضرت مریم علیہ السلام اور آپ کے فرزند حضرت عیسیٰ ابن مریم کا تذکرہ ہے، نبوت کا اور نبیوں کے آنے کا دور دور تک کوئی ذکر ہی نہیں ہے، قادیانیوں نے پوری بے غیرتی و بےشرمی کے ساتھ ان کتابوں کے حوالہ دے کر زبردستی ’’مسیح موعود‘ کا جملہ داخل کردیا، وہ تو غنیمت ہے کہ ان لوگوں نے حوالہ میں واذکرفی الکتاب ’’مسیح موعود‘‘ نہیں لکھ دیا۔
قادیانیو! کچھ شرم کرو! عقل و انصاف کا اتنا خون کیوں کرتے ہو؟؟ ہدایت اور سچائی سے تمہیں ایسی بھی کیا دشمنی اور نفرت ہے کہ تم تھوڑی دیر کے لئے بھی غور و فکر نہیں کرتے اور حق کو پانے کی کوشش کیوں نہیں کرتے؟
3۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا حلیہ:
اس پوسٹ میں قادیانیوں کی طرف سے جو حوالہ دیا گیا ہے ، یہ بھی آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر صریح بہتان ہے آپؐ نے حضرت عیسیٰ ابن مریم کا حلیہ بیان فرمایا ، جو قیامت کے قریب زمانہ میں آسمان سے نازل ہوں گے، جن کی تفصیل ’’باب نزول عیسیٰ‘‘ کے عنوان سے حدیث کی کتابوں میں موجود ہے، یہاں پر بھی پورے قادیانی گروہ کو کھلا چیالنج ہے کہ وہ صحیح بخاری میں کسی ایک جگہ بھی ’’مسیح موعود‘‘ کے الفاظ بتادیں، اصل میں یہ قادیانیوں کی اپنی من گھڑت اصطلاح ہے، پورے ذخیرہ احادیث میں یہ اصطلاح استعمال ہی نہیں ہوئی ہے،اس حوالہ میں بھی قادیانیوں پھر وہی حماقت کی جو اس سے پہلے کے پوسٹ میں کرچکے ہیں یعنی صحیح بخاری کے حوالہ ’’باب و اذکر فی الکتاب مریم‘‘ سے خود واضح ہے کہ اس روایت میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے مراد ’’عیسیٰ ابن مریم‘‘ ہے ،جب کہ اس حدیث کے حوالہ سے قادیانی جس مرزا غلام قادیانی کو ’’مسیح‘‘ منوانا چاہ رہے ہیں وہ ’’ابن مریم نہیں‘‘ ’’ابن چراغ بی بی ‘‘ ہے،حوالہ میں پیش کی گئی حدیث کا صحیح اور مکمل ترجمہ اس طرح ہے:
’’حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے عیسیٰ موسیٰ اور ابراہیم کو دیکھا، عیسیٰ سُرخ رنگ گھنگھنریالے بال اور کشادہ سینے والے ہیں اور موسیٰ گندمی رنگ ، طاقتور جسم اور سیدھے بالوں والے ہیں، گویا وہ زطّی قوم کے آدمیوں کی طرح ہیں‘‘(صحیح بخاری، حدیث نمبر: ۳۴۳۸)
قادیانی اس حدیث کو خوب اچھی طرح ایک بار نہیں دس بار پڑھیں، اس میں گذشتہ پیغمبروںحضرت عیسیٰ علیہ السلام، حضرت موسی علیہ السلام اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کا تو ذکر ہے، لیکن قادیانیوں کے مزعومہ ’’مسیح موعود‘‘ کا دور دور تک کوئی نشان ہی نہیں۔البتہ اس حدیث سے اگلی والی حدیث میں دجال کا ذکر ہے، اس کے لئے بھی حدیث میں ’’مسیح‘‘ کا لفظ آیا ہے، اس حدیث میں آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’مسیح دجال‘‘ کا حلیہ بیان کرتے ہوئے فرمایا : اللہ تعالی کانا نہیں ہے، لیکن آگاہ رہو مسیح دجال سیدھے جانب والی آنکھ سے کانا ہوگا گویا کہ اُس کی آنکھ انگور کے خوشہ میں ابھرے ہوئے دانہ کی طرح ہوگی۔(صحیح بخاری، حدیث نمبر:۳۴۳۹)
اب نہ مرزا غلام قادیانی رہا اور نہ اُس کو دیکھنے والے رہے، لیکن اس کی تصویرقادیانی بہت ہی عقیدت و محبت سے چھاپتے ہیں، اس تصویر کو دیکھنےپر معلوم ہوگا کہ یہ شخص بھی ایک آنکھ سے کانا ہے اوراس کی حیثیت اندھے قادیانیوں میں کانا راجا کی ہے، اس لئے مرزا قادیانی ’’عیسیٰ مسیح‘‘ ہونے سے تورہا لیکن وہ ’’مسیح دجال‘‘ کے حلیہ اور اُس کے فتنہ کو سمجھنے کے لئے اچھا نمونہ ضرور ہے۔
4۔ قادیانی فرقہ کی نام نہاد خلافت:قادیانیوں نے اپنی پوسٹوں میں ’’خلافت علی منہاج النبوۃ‘‘ کی روایت پیش کرتے ہوئے اُس کو اپنی خود ساختہ ’’خلافتِ احمدیہ‘‘ پر فٹ کرنے کی احمقانہ کوشش کی ہے، اس سلسلہ میں دو باتیں پیش خدمت ہیں:
۱) قادیانی گروہ کی نبوت بجائے خود نبوت محمدی کے خلاف بغاوت ہے تو اُس کی نام نہاد خلافت، خلافت علی منہاج النبوت کی مصداق کیوں کرہوسکتی ہے، قادیانیوں نے اپنے پیشوا مرزا غلام قادیانی کے جھوٹے دعوی نبوت کی بنیاد پر اسلام کے مدمقابل جب اپنی ہر چیز الگ بنالی ہے، عقائد سے لے کر عبادات تک ، معاشرت سے لے کرتعلیمات تک اور شخصیات سے لے کر مقاماتِ مقدسہ تک اپنے لئے الگ نظریات اور تصورات قائم کرلئیے ہیں تو پھر تعصب و تشدد پر مبنی اپنی خود ساختہ خلافت کے ظالمانہ ، جابرانہ اور غیر انسانی نظام کو اسلام کے تصورِ خلافت سے کیوں جوڑا جارہا ہے؟؟
۲) قادیانیوں کا اپنی نام نہاد خلافت کو خلافت علی منہاج النبوۃ سے جوڑنا ’’ریشم میں ٹاٹ کا پیوند‘‘ لگانے کے مترادف ہے، حقیقت پسند اور منصف مزاج افراد کو قادیانیوں کے خود ساختہ خلافت کی اصلیت وسچائی کو سمجھنے کے لئے خود قادیانی افراد کی لکھی ہوئی حسب ذیل کتابوں کا ضرور مطالعہ کرنا چاہئے:
(۱) ربوہ کا مذہبی آمر (۲) تاریخ محمودیت کے چند پوشیدہ اوراق (۳) شہر سدوم
قادیانی فرقہ میں اُن کے نام نہاد خلیفہ کا انتخاب کس طرح ہوتا ہے؟ اس کی وضاحت ایک خوش نصیب وسعادت مند فرد جناب مرزا محمد سیلم اختر نے کی ہے، ان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا خاص کرم اور فضل ہوا کہ موصوف قادیانیت کی تاریکی سے نکل کر اسلام کی روشنی میں آگئے، ’’گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے‘‘کے مصداق قادیانیوں کے یہاں نام نہاد خلیفہ کی حیثیت اور اُس کے طریقہ انتخاب سے متعلق لکھتے ہیں:
’’خلیفہ صاحب [مرزا بشیر الدین محمود]۱۹۵۶ء میں اپنی جانشینی کے سلسلہ میں زبردست تقاریر کیں اور اپنے جانشین کے متعلق وصیت کی کہ اس کا انتخاب پوپ کی طرح ہو اور یہ اعلان بھی کردیا کہ میں اسلامی شوریٰ کے طریق کو منسوخ کرتا ہوں اورآپ حیران ہوں گے کہ کمال بےغیرتی کے ساتھ ساری جماعت ایک اسلامی حکم کی منسوخی کا اعلان سنتی رہی اور بالکل ٹس سے مس نہ ہوئی، موجودہ خلیفہ [مرزا ناصر احمد]کا انتخاب اسلامی شوریٰ کے طریق پر نہیں ہوا، بل کہ پوپ کے انتخاب کی طرح ہوا ہے ، سچ ہے انگریز کی اس پروردہ جماعت کو اپنی خلافت کی سند بھی اپنے آقا ئے ولی نعمت ہی سے لانی چاہئے تھی۔‘‘
(مضمون،بعنوان ’’ شہرنامراد‘‘ از مرزا محمد سلیم اختر (سابق احمدی) مندرجہ کتاب ’’ربوہ وقادیان جو ہم نے دیکھا‘‘، ص: ۲۷۵از جناب متین خالد)
فریب خوردہ قادیانی اپنی اس نام نہاد خلافت احمدیہ پر جتنا ناز کریں کم ہے، کیوں کہ قرآن مجید میں ایسے ہی لوگوں کے بارے میں فرمایا گیا: فَزَيَّنَ لَـهُـمُ الشَّيْطَانُ اَعْمَالَـهُـمْ فَهُوَ وَلِيُّـهُـمُ الْيَوْمَ وَلَـهُـمْ عَذَابٌ اَلِيْـمٌ (النحل: ۶۳) پھر شیطان نے ان کے سامنے ان کی بداعمالیوں کو خوش نما کرکے دکھادیا، تو آج بھی شیطان ہی ان کا رفیق ہے اور ان کے لئے درد ناک عذاب ہے۔
5۔ قادیانی اخلاقیات: قادیانیوں نے اپنی پوسٹ میں علماء اسلام کے خلاف خوب بھڑاس نکالی اور عام لوگوں کو تہذیب و شرافت اور انسانیت کا پاٹھ پڑھانے لگے، اس پر سوائے اس کے اور کیا کہا جاسکتا ہے کہ؎
اتنی نہ بڑھا پاکی داماں کی حکایت
دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قبا دیکھ
قادیانی افرادکی خدمت میں خود ان ہی کے لٹریچر سے ’’اخلاق،تہذیب و شرافت‘‘ کی کچھ مثالیں پیش خدمت ہیں، تاکہ واضح ہوجائے قادیانیوںکے یہاں ’’اخلاقیات‘‘کس چڑیا کا نام ہے؎
تم ہی ذرا اپنی ادائوں پر غور کرو
ہم عرض کریں تو شکایت ہوگی
مرزا غلام قادیانی نے اپنی زندگی موقع بہ موقع مختلف پیشن گوئیاں کی اور ان پیشن گوئیوں کو اپنی صداقت وسچائی کا معیار ٹھہرایا، اس شخص نے لکھا ہے :
’’بد خیال لوگوں کو واضح ہوکہ ہمارا صدق وکذب جانچنے کے لئے ہماری پیش گوئی سے بڑھ کر اور کوئی محک امتحان نہیں ہوسکتا‘‘(روحانی خزائن، ج : ۵، ص: ۲۸۸)
1) مرزا غلام قادیانی نے اپنی صداقت وسچائی کو ثابت کرنے کے لئےمشہور اہل حدیث عالم دین حضرت مولانا ثناء اللہ امرسری کی موت کے بارے میں پیش گوئی کی (دیکھئے : روحانی خزائن، ج : ۲۲، ص: ۳۳۷)پادری عبداللہ آتھم کے بارے میں ہلاک ہونے کی پیش گوئی کی ( دیکھئے: روحانی خزائن ، ج:۶،ص: ۲۹۲)ڈاکٹر عبدالحکیم خان (مرزا قادیانی کے سابق مرید، بعد میں مشرف باسلام ہوئے) کی موت کی پیشین گوئی کی (دیکھئے: روحانی خزائن، ج: ۲۲، ص:۳۳۸)
مرزا غلام قادیانی کی پیش گوئیاں پوری ہوئیں بھی یا نہیں، یہ ایک الگ اور دلچسپ موضوع ہے، البتہ ان پیشن گوئیوں کے پسِ پردہ مرزا قادیانی کی جو سوچ اور ذہینت واضح ہوتی ہے، اُس کو قادیانی اسلوب میں یہی کہاجائے گا کیا مرزا قادیانی کی صداقت اتنی کمزور ہوچکی ہے جب تک کسی کی موت کی پیشن گوئی نہ کی جائے ، تو وہ خطرہ میں رہتی ہے اور پیشن گوئی کے نتیجہ میں جب تک کوئی مخالف ہلاک نہ ہوجائے تو مانو قادیانیت کی سچائی دم توڑنے کو ہے۔
2) مرزا غلام قادیانی نے طاعون وباء کی پیشین گوئی کی اور کہا:
’’طاعون ہماری جماعت کو بڑھاتی ہے اور ہمارے مخالفوں کو نابود کرتی جاتی ہے، ہر مہینہ میں کم از کم پانچ سو آدمی اور کبھی ہزار آدمی بذریعہ طاعون ہماری جماعت میں داخل ہوتا ہے…..‘‘ (روحانی خزائن، ج : ۲۲، ص: ۵۷۰)
۱۹۰۵ءمیں مرزا قادیانی نے زلزلہ کی پیشین گوئی کی اور کہا: ’’آج رات تین بجے کے قریب خدا کی پاک وحی مجھ پر نازل ہوئی ، جو ذیل میں لکھی جاتی ہے:
تازہ نشان، تازہ نشان کا دھکہ، زلزلۃ الساعۃ ،مخلوق کو اس نشان کا دھکہ لگے گا ،وہ قیامت کا زلزلہ ہوگا‘‘ (مجموعہ اشتہارات، ج: ۳ ، ص: ۵۲۲)
یہاں پر بھی سوال پیشن گوئیوںکے پورے ہونے کا نہیں ہے، اصل مسئلہ لوگوں کے ساتھ رحمدلی اور خیرخواہی کا ہے، دنیا میں نبیوں کا آنا تو انسانوں کے رحمت ہے، آقا دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم کو ’’رحمۃ اللعالمین‘‘ فرمایا گیا، مگر واہ رے! قادیانیوں کا جھوٹا نبی !! اس کے پاس تو انسانوں کو دینے کے لئے ہلاکت خیز بیماریوں اور تباہ کن زلزلوں کے علاوہ کچھ نہیں ہے؟، جب تک دنیا میں جب تک کوئی زلزلہ وباء اور طوفان نہ آجائے قادیانیت کی صداقت کانشان ظاہر ہی نہیں ہوگا، اس لئے کرونا کے دور میں اور دوسرے آفات سماوی کے موقع پر یہ بات دیکھنے کو ملی ادھر طوفان وزلزلہ آیا اور اُدھر فوراً قادیانی ’’کسی کی جان گئی کسی کی اداٹھہری‘‘ کےمصداق نہایت ہی بھونڈے اور مضحکہ خیز انداز میں اُس میں اپنے ’’حضرت مسیح موعود‘‘ کی صداقت کا نشان ڈھونڈنے لگے۔
ابھی دنیا میں اتنا برا وقت نہیں آیا کہ اپنے مخالفین کے لئے وباوں ، بیماریوں ، زور آور حملوں ، زلزلوں اور طوفانوں کی تمناکرنے والے قادیانی جیسے متشدد اور متعصب لوگ مسلمانوں کو اختلاف کے آداب اور انھیں پیار و محبت کا سبق پڑھانے لگے۔
3) قادیانی پوسٹ میں مذہبی گفتگو کے سلیقہ اور اظہار خیال میں سنجیدگی کی بات کہی گئی، مگر بہتر ہوتا کہ وہ ایک نظر اپنے مذہبی پیشوا ورہنما کی گفتگو پر بھی ڈال لیتے، اپنے سے اختلاف کرنے والوں کے بارے میں ذرا قادیانی پیشوا کی گفتگو کا انداز ملاحظہ ہو:
الف: ’’…..اور ہماری فتح کا قائل نہیں ہوگا تو صاف سمجھا جائے گا کہ اُس کو ولد الحرام بننے کا شوق ہے اور وہ حلال زادہ نہیں…..‘‘ (روحانی خزائن، ج: ۹، ص: ۳۱۔۳۲)
ب: ’’یہ جھوٹے ہیں اور کتوں کی طرح جھوٹ کا مردار کھارہے ہیں…..‘‘ (حوالہ سابق، ج: ۱۱، ص: ۳۹)
ج : ’’دشمن ہمارے بیاباں کے خنزیر ہوگئے اور ان کی عورتیں کتیوں سے بڑھ گئی ہیں‘‘ (روحانی خزائن، ج: ۱۴، ص: ۳۵)
جب قادیانی سخت کلامی کی وجہ سے اپنی دل آزادی محسوس کرتے ہیں، تو اندازہ لگائیے مرزا قادیانی کے اس گھٹیا اور گھنائونے اندازِ گفتگو سے عام مسلمانوں کی کتنی شدید دل آزادی ہوگی؟
قادیانیوں کو اپنے بڑوں کے پاس جاکر یہ کہنا چاہئے ’’ہمارے حضرت مسیح موعود اپنے مخالفین سے بات کرتے وقت ان الفاظ کا چنائو کیوں نہیں کیا ’’ مجھے آپ لوگوں سے اتفاق نہیں ہے‘‘ خدا کے لئے اپنے سوتے ہوئے ضمیر کو جگائیں !اُس کی سچائی کو پہچانیں! اندھا دھند اپنے نام نہاد مربیوّں کی تقلید کرکے آپ مذہب اور انسانیت سے تو نکل چکے، کہیں ایسانہ ہو کہ گمراہی پر اصرار کی وجہ سے مذہب اور انسانیت کی طرف آپ کی واپسی مشکل ہوجائے۔
قرآن مجید میں گذشتہ انبیاء کرام کے تذکرہ میں وہ الفاظ اور جملے بھی نقل کئے گئے جو انبیاء کرام نے اپنی قوم کی طعن و تشنیع طنزو تعریض اور تمسخر و استہزا کے جواب میں کہے، مثلاً : حضرت ہود علیہ السلام کی قوم نے آپ علیہ السلام کونعوذ بااللہ جھوٹا اور بے وقوف کہا، اس کے جواب میں آپ علیہ السلام نے صرف اتنا کہا:
أُبَلِّغُكُمْ رِسَـٰلَـٰتِ رَبِّى وَأَنَا۠ لَكُمْ نَاصِحٌ أَمِينٌ (الاعراف: ۶۸)’’تم کو اپنے رب کا پیغام پہونچاتا ہوں اور میں تمہارے حق میں خیر خواہ اور امانت دار ہو‘‘
اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے اپنے سچے اور برگذیدہ نبی حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت ہارون کو فرعون کے یہاں جاتے وقت حکم فرمایا تھا : تم دونوں اُس سے نرم گفتگو کرو، شاید کہ وہ نصیحت حاصل کرلے، (طہٰ) آقاء دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک زندگی کا ایک خاص وصف اور امتیاز یہ تھا کہ آپؐ نہ فحش گفتگو فرماتے اور نہ ہی فحش گفتگو کو پسند فرماتے، ’’لکم یکن فاحشا ولاا متفحشا‘‘۔
بہر حال ایک طرف سچے نبیوں کی گفتگو کا اسوہ ہے اور دوسری طرف جھوٹے مدعی نبوت مرزا غلام قادیانی کی بے ہودہ اور بازاری گفتگو کا نمونہ ہے، اب یہ قادیانیوں کے عقل وشعور پر منحصر ہے کہ وہ اِن دونوں میں سے کسی کو اختیار کرتے ہیں، کیوں کہ پسند اپنی اپنی ،نصیب اپنا اپنا۔
4) اسلام سے بغاوت کے جرم میں پھانسی دینے کا تعلق اسلام کی طاقت یا کمزوری سے نہیں ہے، اسلام تو ہمیشہ سے طاقتور ہے اور رہےگا، اصل مسئلہ اسلام کے دفاعی نظام کا ہے اور علماء اسلام اِس دفاعی نظام کا اہم ترین حصہ ہیں، جب کوئی گمراہ اور کفریہ عقائد و نظریات سے اسلام کے فکری سرحدوں پر حملہ آور ہوگا تو اسلام کی فکری سرحدوں کے محافظ اور پہریدار ہونے کی حیثیت سے علماء اسلام پوری قوت سے اس کا مقابلہ کریں گے اور اس سلسلہ میں کسی کی لعنت و ملامت اور طنزواستہزا کی پروانہیں کریں گے،علماء اسلام کی اس پوزیشن کو سمجھنے کے لئے کسی بھی ملک کی سلامتی کو سامنے رکھا جائے،ملک کی سالمیت کا پورا انحصار ملک کے دفاعی نظام کے استحکام پر ہوتا ہے، دفاعی نظام پر مامور افراد ہمیشہ چوکس و چوکنارہتے ہیں، انتہائی ہائی پروفائل سیکورٹی زون میں معمولی مکھیوں اور مچھروں کی بنبناہٹ سے خطرہ کا الارم بجنا شروع ہوجاتا ہے، یہاں کوئی نادان یہ نہیں کہہ سکتاکہ یہ بھی کوئی تُک ہے اتنی معمولی سی بنبناہٹ پر سکیورٹی فورس حرکت میں آجائے،اس لئے جب کسی ملک کے شہری کو بغاوت کے جرم میں پھانسی کی سزا سنائی جائے تو اُس کو ملک کے دفاعی نظام کے انتہائی مضبوط اور فعال ہونے پر محمول کیا جاتا ہے، کوئی قادیانی جیسا احمق ہی اِس سزا کو ملک کی کمزوری سمجھے گا۔
اللہ تعالیٰ ہمیں ایمان پر ثابت قدمی عطافرمائے، ہر طرح کی گمراہی اور کنفیوژن سے ہماری حفاظت فرمائےاور جو لوگ ایمان کے مقابلہ میں کفر کا سودا کربیٹھے ہیں، اللہ تعالیٰ ان میں صداقت وسچائی کی تحقیق وتلاش کا جذبہ پیدا کرے اور انھیں قبولِ حق کا حوصلہ عطا فرمائے۔
اللہم أرنا الحق حقاً، وارزقنا اتباعہ، وأرنا الباطل باطلاً، وارزقنا اجتنابہ…….
٭٭٭