انسانوں کو جوڑنے والارشتہ: مولانا ابو الکلام آزادؒ
قرآن کہتا ہے: خدا نے تمھیں ایک ہی جامہ انسانیت دیا تھا لیکن تم نے طرح طرح کے بھیس اور نام اختیار کرلیے اور رشتہ انسانیت کی وحدت سینکڑوں ٹکڑوں میں بکھر گئی۔ تمھاری نسلیں بہت سی ہیں، اس لیے تم نسل کے نام پر ایک دوسرے سے الگ ہوگئے ہو۔

قرآن کہتا ہے: خدا نے تمھیں ایک ہی جامہ انسانیت دیا تھا لیکن تم نے طرح طرح کے بھیس اور نام اختیار کرلیے اور رشتہ انسانیت کی وحدت سینکڑوں ٹکڑوں میں بکھر گئی۔ تمھاری نسلیں بہت سی ہیں، اس لیے تم نسل کے نام پر ایک دوسرے سے الگ ہوگئے ہو۔
تمھارے وطن بہت سے بن گئے ہیں، اس لیے اختلاف وطن کے نام پر ایک دوسرے سے لڑ رہے ہو۔ تمھاری قومیتیں بے شمار ہیں، اس لیے ہر قوم دوسری قوم سے دست و گریباں ہورہی ہے۔ تمہارے رنگ یکساں نہیں اور یہ بھی باہمی نفرت و عناد کا ایک بڑا ذریعہ بن گیا ہے۔
تمہاری بولیاں مختلف ہیں اور یہ بھی ایک دوسرے سے جدا رہنے کی بہت بڑی حجت بن گئی ہے۔ پھر ان کے علاوہ امیر و فقیر، نوکر و آقا، وضیع و شریف، ضعیف و قوی، ادنی و اعلی بے شمار اختلاف پیدا کرلیے گئے ہیں اور سب کا منشا یہی ہے کہ ایک دوسرے سے جدا ہوجاؤ اور ایک دوسرے سے نفرت کرتے رہو۔
ایسی حالت میں بتلاؤ وہ رشتہ کون سا رشتہ ہے جو اتنے اختلافات رکھنے پر بھی انسانوں کو ایک دوسرے سے جوڑ دے اور انسانیت کا بچھڑا ہوا گھرانا پھر سے از سر نو آباد ہوجائے؟ وہ کہتا ہے: صرف ایک ہی رشتہ باقی رہ گیا ہے اور وہ خدا پرستی کا مقدس رشتہ ہے۔ تم کتنے ہی الگ ہوگئے ہو، لیکن تمہارے خدا الگ الگ نہیں ہوسکتے۔
تم سب ایک ہی پروردگار کے بندے ہو۔ تم سب کی بندگی و نیاز کے لیے ایک ہی معبود کی چوکھٹ ہے۔ تم بے شمار اختلافات رکھنے پر بھی ایک ہی رشتہ عبودیت میں جکڑے ہوئے ہو۔
تمھاری کوئی نسل ہو، تمہارا کوئی وطن ہو، تمہاری کوئی قومیت ہو، تم کسی درجے میں اور کسی حلقے کے انسان ہو، لیکن جب ایک ہی پروردگار کے آگے سر نیاز جھکادو گے تو یہ آسمانی رشتہ تمہارے ارضی اختلافات مٹادے گا۔ تم محسوس کروگے کہ تمام دنیا تمہارا وطن ہے۔ تمام نسل انسانی تمھارا گھرانا ہے اور تم سب ایک ہی رب العالمین کی عیال ہو۔
(ترجمان القرآن، تفسیر سورة الفاتحة: ج :۱، ص :۳۶۰-۳۶۱)
٭٭٭