مضامین

ظلم سہنے سے بھی ظالم کی مدد ہوتی ہے

نریندر مودی اگر واجپائی جی کی پارلیمنٹ میں کی گئی اس تقریر کو سنتے اور سمجھتے تو وہ ہرگز یہ نہیں کہتے کہ ملک کو آزادی2014ءمیں ان کے اقتدار میں آنے کے بعد ہی ملی۔ اٹل بہاری واجپائی نے پارلیمنٹ میں کی گئی اپنی تاریخی تقریر میں یہ کہا تھا کہ ’’ پچھلے 50 برسوں میں ہم نے بے حد ترقی کی ہے۔ جس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا ہے‘‘۔

ڈاکٹر شجاعت علی صوفی

متعلقہ خبریں
چائے ہوجائے!،خواتین زیادہ چائے پیتی ہیں یا مرد؟
مشرکانہ خیالات سے بچنے کی تدبیر
ماہِ رمضان کا تحفہ تقویٰ
دفاتر میں لڑکیوں کو رکھنا فیشن بن گیا
بچوں پر آئی پیڈ کے اثرات

اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ ملک سرحدوں سے نہیں بنتے ہیں ‘ ملک دیواروں سے نہیں بنتے ہیں بلکہ قومیں بنتی ہیں عوام کے اتحاد سے ۔ کسی بھی ملک میں پیدا ہونے والے معاشی اور سیاسی بحران پر قابو تو پالیاجاسکتا ہے لیکن سماجی انتشار پر بروقت کنٹرول نہیں کیا جاتا تو قوم نراج کا شکار ہوجاتی ہے۔ اس وقت ملک میں جھوٹ اور سیاسی مکاری کادور دورہ ہے۔ حکمران جماعت کی جانب سے سوشیل میڈیا کا استعمال اس قدر بڑھ گیا ہے کہ سچ‘ جھوٹ کے اندھیروں میں گم ہوجارہی ہے۔ بی جے پی کے اکثریتی لیڈروں کا اور خاص طور پر نریندر مودی کا یہ دعویٰ ہے کہ پچھلی حکومتوں میں ترقی صفر رہی جبکہ اس پارٹی کی ایک مداح اور ناکام اداکارہ تو یہ کہتی ہے کہ ملک کی ترقی صرف 2014ء سے شروع ہوئی ہے۔ جس مدت کا یہ لوگ ذکر کرتے ہیں اس میں اٹل بہاری واجپائی کی چھ سال سے بھی زائد مدت کی سرکار بھی شامل ہے۔

نریندر مودی اگر واجپائی جی کی پارلیمنٹ میں کی گئی اس تقریر کو سنتے اور سمجھتے تو وہ ہرگز یہ نہیں کہتے کہ ملک کو آزادی2014ء میں ان کے اقتدار میں آنے کے بعد ہی ملی ہے جبکہ سچائی یہ ہے کہ آزادی زمین دوز ہورہی ہے۔ اٹل بہاری واجپائی نے ماضی میں پارلیمنٹ میں کی گئی اپنی تقریر میں کہا تھا کہ ’’پچھلے 50برسوں میں ہم نے بے حد ترقی کی ہے۔ جس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ اگر ہم یہ کہتیہیں کہ اس دوارن ملک نے ترقی نہیں کی ہے تو ہم قوم کی‘ کسانوں‘ مزدوروں اور عام آدمی کی بے عزتی کرتے ہیں۔ اس طرح کا الزام کوئی اچھا برتاؤ نہیں کہلائے گا۔ میں ان لوگوں میں سے ہی نہیں ہوں جو پچھلی سرکاروں کی طرف سے کی گئی ترقی سے انکار کردوں۔ ہاں! چناؤ کے دوران ہم نے ان سرکاروں پر کڑی سے کڑی تنقید کی ہے‘‘۔

موجودہ سرکار ہر میدان میں جھوٹ کا سہارا لے رہی ہے۔ ایسی ایسی باتیں اپنے مخالفین کے منہ میں ڈال رہی ہے جنہوں نے ایسا کرنے کا تصور بھی نہیں کیا۔ راہول گاندھی کے لندن کے دورہ ہی کی مثال لے لیجئے جس میں انہوں نے یہ ضرور کہا تھا کہ ہندوستان میں جمہوریت تباہی کے دہانے پر ہے۔ راہول نے ہرگز یہ نہیں کہا تھاکہ امریکہ اور انگلینڈ جیسی طاقتوں کو ہمارے ملک میں مداخلت کرنا چاہیے۔ بھارتے جنتا پارٹی یا اس کی سرکار کے خلاف تنقید کرنا ان کی نظروں میں ملک کے خلاف تنقید کرنے کے برابر ہوگیاہے۔ تنقید کرنے والوں کو وہ غدار اور ملک دشمن قراردیتے ہیں۔ اس طرح کا رجحان ملک کے لئے اور خاص طور پر جمہوریت کے لئے خطرناک ثابت ہوگا۔ جمہوری اقدار کی قدر کرنے کا دعویٰ کرنے والی بھارتیہ جنتا پارٹی اگر پارلیمنٹ کو چلنے نہیں دیتی تو کیا اس کو جمہوریت کہا جائے گا؟ راہول گاندھی جب بھی بولنے کے لئے ایوان میں کھڑے ہوتے ہیں تو شور شرابہ کرکے ان کی بات کو روک دیا جاتا ہے۔ حد تو یہ ہوگئی ہے کہ جن باتوں کو انہوں نے ایوان میں اٹھایا اسے لوک سبھا کے ریکارڈز سے ہی حذب کردیا گیا۔ لوک سبھا کی تاریخ میں ایسے واقعات کبھی دیکھنے میں نہیں آئے اگر اپوزیشن لیڈر کوئی الزام لگاتا ہے تو سرکار کی یہ ذمہ داری ہوجاتی ہے کہ وہ اس کی تحقیقات کروائے یا پھر یہ کہے کہ اپوزیشن کا الزام غَط ہے۔ کسی عمل یا جواب دہی کی عدم موجودگی سے یہ صاف ظاہر ہوجاتا ہے کہ بی جے پی اڈانی کے معاملے میں Back foot پر ہے۔

سابق صدر جمہوریہ بھارت رتن پرنب مکرجی نے یہ کہا تھا کہ چاہے کچھ بھی ہوجائے پارلیمنٹ کی اہمیت کو نہیں گھٹانا چاہیے کیو ںکہ پارلیمنٹ جمہوریت کی روح ہے ۔ اگر جمہوریت سے روح نکال لی جاتی ہے تو پھر بچے گا کیا اور ملک چلے گا کیا۔

عام آدمی کے ذہن میں یہ خیال آرہا تھا کہ کوئی آگے آئے اور ملک میں محبت‘ ا تحاد ‘ اتفاق اور بھائی چارہ کی کوئی ایسی مہم چلائے جس سے ملک کی غیر موزوں فضا میں تبدیلی ا ٓئے تو راہول گاندھی ہوا کا ایک خوشگوار جھونکا بن کر عوام کے سامنے آئے اور انہوں نے اپنی بھارت جوڑو یاترا کے ذریعہ ملک میں پھیلی ہوئی نراج کی کیفیت کو کافی حد تک کم کرنے کی کوشش کی اور اس میں انہیں کامیابی بھی ملی۔ ان کی اس یاترا سے پہلے ملک کی کیفیت بقول شاعر ایسی تھی کہ

سانس لیتے ہوئے انسان بھی ہیں لاشوں کی طرح
اب دھڑکتے ہوئے دل کی بھی لحد ہوتی ہے

لوگ اب سچائی کی تلاش میں ہیں اور احتجاج کرنے کی ہمت بھی کررہے ہیں وہ بھی ایسے وقت جب ظالم حکومت نے ان کی شخصی آزادیوں کو پامال کررکھا ہے۔

اپوزیشن جماعتوں کو اس بات کا احساس ہوچکا ہے کہ انہیں بھارتیہ جنتا پارٹی جیسی طاقت کے خلاف متحد ہوکر ہی لڑنا ہے۔ مختلف ڈھنگ اور مختلف طریقوں سے وہ یکجا ہورہے ہیں۔ ان کے سیاسی پینتروں کو میڈیا اور ملک کے نام نہاد دانشور سمجھ نہیں پارہے ہیں۔ وہ اس بات کا تہیہ کرچکے ہیں چاہے کتنی ہی قربانیاں دینی پڑیں وہ بی جے پی کو شکست دے کر ہی دم لیں گی۔ بی جے پی نے ملک کو ہر محاذ پر نقصان پہنچایا ہے خاص طور پر ہمارے اتحاد کو جو زک پہنچائی ہے اس کا علاج برسوں تک کرنا پڑے گا۔

بھارتے جنتا پارٹی کو یہ سوچنا چاہیئے کہ اقتدار ایک مستقل شئے نہیں ہوتی۔ عروج کے بعد زوال آتا ہے۔ ہمیشہ عروج پر رہنا ناممکن ہے۔ اقتدار کی ہوس میں اگر وہ ملک کی بنیاد کو ہلادیتے ہیں تو اس کا خمیازہ انہیں خود بھی بھگتنا پڑے گا۔ دنیا کی تاریخ بتاتی ہے کہ تاناشاہی شروع تو ہوتی ہے لیکن چلتی نہیں۔ ہٹلر کی تاناشاہی سے سارا عالم واقف ہے۔ ہندوستان کے پس منظر میں دیکھیں تو کیا راون بچ سکا۔ پھر اگر عالمی سطح پر پرکھیں تو نہ فرعون بچ سکا‘ نہ چنگیز اور نہ نمرود۔ یہ قدرت کا قانون ہے وہ ظالموں کو تھوڑی سی ڈھیل تو دیتی ہے لیکن پنپنے نہیں دیتی۔ گھٹن کے ماحول کے باوجود اب ہندوستانیوں میں یہ احساس جڑپکڑرہا ہے کہ انہیں ظلم کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا ہے۔ بقول مظفر وارثی :

کچھ نہ کنے سے بھی چھن جاتا ہے ا عجاز سخن
ظلم سہنے سے بھی ظالم کی مدد ہوتی ہے
۰۰۰٭٭٭۰۰۰