مضامین

کیا منریگا کو ختم کرنے کی تیاری ہے؟

ہرجندر

بھلے ہی ملک کے 11 کروڑ سے زیادہ کسانوں کو پردھان منتری کسان سمان ندھی کا فائدہ مل رہا ہے، لیکن آج بھی دیہی علاقوں میں غریبوں کا سب سے بڑا سہارا مہاتما گاندھی دیہی روزگار گارنٹی اسکیم یعنی منریگا ہی ہے، لیکن مرکزی حکومت کے آخری دو بجٹوں کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ اس اسکیم کو مرحلہ وار ختم کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ویسے تو پچھلی حکومتوں کی اسکیموں کو نظرانداز کرنا کوئی نئی بات نہیں ہے، لیکن خود وزیر اعظم نریندر مودی نے مرکز میں اپنی حکومت بنتے ہی منریگا پر جس طرح تنقید کی، اس سے پہلے اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ فروری 2015 میں وزیر اعظم نے پارلیمنٹ میں کہا تھا کہ منریگا یو پی اے کی ناکامی کی یادگار ہے۔ اسی وقت سے یہ خیال کیا جا رہا تھا کہ یہ اسکیم آہستہ آہستہ اپنے زوال کی طرف بڑھے گی۔
پارلیمنٹ میں پیش کیے گئے 2023-24 کے بجٹ نے اس پر مہر ثبت کردی ہے۔ سال 2021-22میں اس اسکیم کے تحت 98,467 کروڑ روپے خرچ کیے گئے، لیکن 2022-23 کے بجٹ میں اس اسکیم کے لیے 73,000 کروڑ روپے کی گنجائش رکھی گئی تھی۔ تاہم، اس سال کے لیے اس اسکیم کے تحت اخراجات کے لیے پیش کیا گیا نظرثانی شدہ تخمینہ 89,400 کروڑ روپے ہے، لیکن اب 2023-24 کے بجٹ میں اس اسکیم کے لیے صرف 60,000 کروڑ روپے مختص کیے گئے۔ یعنی بجٹ کے تخمینے کے مطابق اس میں تقریباً 18 فیصد کمی کی گئی ہے۔اور اگر نظر ثانی شدہ تخمینوں کو دیکھیں تو یہ کمی 32 فیصد سے زیادہ ہے۔اسی دوران یہ خبر بھی آئی ہے کہ حکومت نے اس اسکیم کے تحت اجرت کے قوانین میں بھی تبدیلی کی ہے۔ اب روزگار گارنٹی اسکیم کے تحت کام کرنے والے مزدوروں کو موبائل ایپ کے ذریعے اپنی حاضری درج کرانی ہوگی۔ اس سے قبل یہ حاضری مسٹر رول پر درج کی جاتی تھی۔
کانگریس پارٹی کا الزام ہے کہ یہ جان بوجھ کر کیا جا رہا ہے، جس کی وجہ سے اسکیم میں کام کرنے والے مزدوروں کی تعداد بہت کم ہو سکتی ہے، کیوں کہ اب صرف وہی لوگ اس سے فائدہ اٹھا سکیں گے جن کے پاس ایسا موبائل فون ہوگا جس پر یہ ایپ انسٹال ہوسکے گی۔
اس دوران کئی ریاستیں شکایت کر رہی ہیں کہ انہیں منریگا اسکیم کے لیے فنڈز نہیں دیے جا رہے ہیں۔ خاص طور پر مغربی بنگال نے کئی بار اس کی شکایت کی ہے، لیکن اسے ابھی تک اس کی رقم نہیں ملی ہے۔
جب دہلی میں پہلی بار مودی حکومت بنی تو نتن گڈکری کو دیہی ترقی کا وزیر بنایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ اسکیم غریب اور قبائلی اضلاع تک محدود ہونی چاہیے۔ پھر ماہر اقتصادیات اروند پنگڑیا کو نیتی آیوگ کا نائب چیئرمین بنایا گیا، جو شروع سے ہی اس اسکیم کے خلاف تھے۔ تاہم، بعد میں جب کابینہ کی تشکیل نو کی گئی اور راو¿ بیرندر سنگھ کو دیہی ترقی کی وزارت دی گئی، تو انہوں نے اس منصوبے میں کوئی تبدیلی کرنے سے انکار کردیا۔ بعد میں جب کووڈ کی وبا پھیلی تو یہ اسکیم نہ صرف دیہی غریبوں کے لیے سب سے بڑا سہارا بن گئی بلکہ اس نے ان لوگوں کی بھی مدد کی جنہیں لاک ڈاو¿ن کے دوران شہروں سے اپنے گاو¿ں لوٹنا پڑا۔ اس دوران اس پر ہونے والے اخراجات میں بھی اضافہ ہوا۔ اب ایک بار پھر اس اسکیم کا دائرہ مختلف طریقوں سے تنگ کیا جا رہا ہے۔