ہمارے دین کی پہچان مسجد اقصیٰ
بیت المقدس فلسطین کا قدیم اوراہم تاریخی مقام ہے۔ اس کواسلام میں بڑی فضیلت و اہمیت حاصل ہے۔یہ واحد گھر ہے جس کو مسلمان، یہودی اور عیسائی تینوں ہی اپنا مانتے اورمقدس سمجھتے ہیں ۔

محمد ابراہیم خلیل سبیلی
فون نمبر:9908922786
بیت المقدس فلسطین کا قدیم اوراہم تاریخی مقام ہے۔ اس کواسلام میں بڑی فضیلت و اہمیت حاصل ہے۔یہ واحد گھر ہے جس کو مسلمان، یہودی اور عیسائی تینوں ہی اپنا مانتے اورمقدس سمجھتے ہیں ۔یہودی اس لئے مقدس سمجھتے ہیں کہ یہ ان کیلئے جائے موعود، انبیاء کا مدفن اور یہودی مذہب کے مقدس مقامات کا مرکز ہے، خاص کر القدس اور الخلیل وغیرہ۔ عیسائی اس لئے مقدس سمجھتے ہیں کہ حضرت مریم ؑیہیں رہا کرتی تھیں، حضرت عیسی ؑکی پیدائش بھی یہیںہوئی اور اسی جگہ انہوں نے دعوت کا کام بھی کیا ۔
ان کے اہم مقامات کا مرکزبھی یہی ہے، خاص کر بیت لحم اور الناصرہ وغیرہ ۔ لیکن حقیقت کی نظر سے دیکھا جائے تو یہ صرف اور صرف اسلام اور مسلمانوں کا گھر ہے کیونکہ مسلمانوں کا ایمان ہے کہ حضرت داؤد ؑ، حضرت سلیمان ؑ اور بنی اسرائیل کے تمام انبیاء و صلحاء کے وہی حقیقی جانشین اور وارث ہیں اوران کے بعد توحید کا پرچم بلند کرنے والے اور انبیا ء کی بتلائی ہوئی سیدھی راہ پر چلنے والے بھی مسلمان ہی ہیں۔ اور نصوص سے بھی پتہ چلتا ہے کہ یہودی اور عیسائی سیدھے راستہ سے ہٹ چکے ہیں۔ انہوں نے اپنی مقدس کتابوں میں تحریف کرکے اپنے آپ پر ظلم کیا اور یہودی ہزاروںانبیاء کو قتل کرکے اللہ کے غضب کے مستحق ہوئے ہیں۔
تمام مسلمان اس بات کوجانتے ہیں کہ اللہ تعالی نے سفر معراج کی ابتداء بیت المقدس سے کی ہے۔ روایات کے مطابق سفر اسراء کا آغاز مسجد حرام سے ہوا اورمسجد اقصی میں تمام انبیاء کی امامت پر اختتام کو پہنچا۔ اگر اللہ تعالی چاہتا تو مسجد حرام سے سیدھے آسمانوں کی طرف سفر ہو سکتا تھا، لیکن درمیان میں بیت المقدس کو لا کر اور رسول اللہ کی امامت کے ذریعہ یہ عظیم پیغام دیا کہ اسلام میں بیت المقدس اور مسجد اقصی کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ بیت المقدس کو یہ شرف بھی حاصل ہے کہ یہ مسلمانوں کا قبلہ اول رہا ہے۔
نماز کی فرضیت سے لیکرہجرت مدینہ تک اور ہجرت مدینہ کے بعد سولہ یا سترہ مہینے تک نبی کریم ﷺ اورتمام مسلمان مسجد اقصی کی طرف رخ کر کے نماز ادا کرتے رہے۔پھرآپ ﷺ کی مرضی کے مطابق تحویل قبلہ کا حکم آیا، اس حکم کے بعد کعبۃ اللہ تا قیامت مسلمانوں کا قبلہ متعین ہو گیا۔مسجداقصی اس اعتبار سے بھی مقدس ہے کہ اس سرزمین پر بنائی جانے والی اولین مساجد میں سے دوسری اورسب سے قدیم مسجد ہے۔بناء کعبہ کے صرف چالیس سال کے وقفہ کے بعدیہ بنائی گئی ہے۔ بعض تفاسیر میں اس بات کا ذکر ملتا ہے کہ بیت اللہ کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مسجد اقصی کی بنیاد بھی رکھی تھی۔
حضرت ابوذر غفاریؓ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں: میں نے رسول اللہ سے دریافت کیا اے اللہ کے رسول زمین پر سب سے پہلی کونسی مسجد بنائی گئی؟ رسول اللہ نے فرمایا: مسجد حرام ۔ میں نے پھر پوچھا اس کے بعد کونسی مسجد؟ آپ ؐ نے فرمایا مسجد اقصی۔ میں نے عرض کیا ان دونوں کے درمیان کتنا فاصلہ ہے؟ آپ نے فرمایا چالیس سال کا۔(بخاری شریف) اور ایک حدیث میں حضرت ابوسعید خدری ؓ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا۔ صرف تین مساجد ایسی ہیں جن کی طرف عبادت کی نیت سے سفر کیا جا سکتا ہے۔مسجد حرام ،مسجد نبوی اور مسجد اقصی۔(بخاری شریف)
قرآن کریم میںایسی بہت ساری آیات ہیں جہاں پراللہ نے اس مقام کو مبارک اور مقدس کہا ہے۔ قدیم زمانہ سے سر زمین فلسطین اور خاص کر ارض مقدس انبیاء کیلئے ہجرت، جائے پیدائش اور نزول وحی کا مرکز اورمنبع رہی ہے۔ حضرت ابراہیم اور حضرت لوط علیہما السلام کی ہجرت کے بارے میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ہم نے ابراہیم اور لوط( علیہما السلام) کو اس سرزمین کی طرف نجات دی، جس میں ہم نے دنیا جہاں والوں کیلئے برکتیں رکھی ہیں۔ (الانبیائ)
ارض فلسطین کی جانب موسی علیہ السلام اور ان کی قوم کی ہجرت کے بارے میں ارشاد ہے: اے میری قوم !اس مقدس سرزمین میں داخل ہوجاؤ جو اللہ نے تمہارے لئے مقدر کردی ہے، اور واپس مت لوٹنا ورنہ خسارہ اٹھانے والوں میںسے ہوجاؤ گے۔ ( المائدہ) موسی علیہ السلام کی قوم کے بارے میں دوسری جگہ ارشاد ہے: ان کی جگہ ہم نے ان لوگوں کوجو کمزور بناکر رکھے گئے تھے،اس زمین کے مشارق اور مغارب کا وارث بنادیا،جس میں ہم نے برکتیں رکھی تھیں۔ (الاعراف) حضرت سلیمان علیہ السلام کی بادشاہت کے بارے میں ارشاد ہے: سلیمان (علیہ السلام) کیلئے ہم نے ہواؤں کو مسخر کردیا تھاجو ان کے حکم سے اس سر زمین کی جانب چلتی تھیں جس میں ہم نے برکتیں رکھی ہیں۔اور ہم ہر چیز کا علم رکھنے والے ہیں۔ (الانبیا)
ارض فلسطین کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اس کو دور فتن اور آزمائشی مراحل میں جائے پناہ اور مرکز قرار دیا گیا ہے۔ پہلے زمانہ میں بھی انبیاء اور صلحاء نے مشکل مراحل میں اسی کی طرف رخ کیا تھا اور پھر اسی طرح آئندہ بھی اسی سر زمین کو جائے پناہ اور مرکز اسلام قرار دیا گیا ہے۔ حضرت ذوالاصابع ؓ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں: میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! اگر آپ کے بعد ہم زندہ رہیں اور ہم پر آزمائشی مراحل آئیں تو آپ ہمیں کس جانب ہجرت کا حکم فرماتے ہیں؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: بیت المقدس کو لازم پکڑلو۔ شایدکہ تمہیں ایسی اولاد نصیب ہوجائے جنہیں صبح وشام مسجد اقصی جانے کی سعادت ملے۔ (مسند احمد )
لیکن بڑے افسوس کے ساتھ کہناپڑتا ہیکہ ۱۹۱۷ء میں ترکوں کے پر امن تخلیہ کے بعد ۱۹۱۹ء میں فلسطین برطانوی اقتدار میں چلاگیا۔ پھر ۱۹۴۸ء میں یہودیوں کے قبضہ کے بعد وہ لوگ مسجد اقصی کی اسلامی شناخت ختم کرکے صیہونی رنگ میں رنگنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔مشرقی اور مغربی حدود کو فتح کر نے کے بعد ۱۹۸۰ء میںان کی طرف سے باقاعدہ یہ اعلان کردیا گیا کہ القدس ہمیشہ کیلئے اسرائیل کا دارا لحکومت رہے گا۔ انہوں نے اپنے اس عظیم القدس کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کیلئے بیسیوں یہودی محلے اور کالونیاں بنا ڈالیں، جن میں مختلف ممالک سے نقل مکانی کرکے لاکھوں یہودی یہاں آبادہوگئے۔ اسطرح آج القدس کے ۸۶ فیصد رقبہ پر یہودی قابض ہیں جبکہ عملا صرف ۱۴ فیصد حصہ فلسطینیوں کے پاس بچاہوا ہے۔
اس سے افسوسناک بات یہ ہیکہ زمین کا ۱۵ فیصد رقبہ ایسا ہے جہاں عربوں کو عبادت یا آمد و رفت کی اجازت تک نہیں ہے،صرف اتنا ہی نہیں بلکہ وہاں کے باشندوں پر غیر قانونی ٹیکس لاگو کرکے ان کو وطن چھوڑ نے پر مجبور کیا جارہا ہے۔اور جہاں تک مسجد اقصی کی بات ہے تواس کی داستان اور بھی زیادہ المناک اور دردناک ہے۔بیت المقدس کی ہزارہا سال کی تاریخ کو تبدیل کرکے صیہونی رنگ میں رنگنے کا کام تیزی کے ساتھ جاری وساری ہے۔ یہودیوں نے حائط البراق سے متصل ’’المغاربۃ‘‘ محلے کو مکمل طور پر زمین دوس کردیا ہے جس میں سینکڑوں گھر اور کئی مساجد شامل ہیں۔ مسجد اقصی کے نیچے اور آس پاس کی کھدائی نہایت رازداری کے ساتھ اور منظم انداز میں کی گئی اور اس عمل کو نہایت تیزی کے ساتھ مکمل بھی کیا گیا۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ مسجد کی بنیادوں سے مٹی کے تودوں کو ہٹاکر ان کو کھوکھلا کردیا جائے تاکہ موسمی تبویلیوں اور زلزلوں کی وجہ سے وہ از خود گرنے پرآمادہ ہوجائے۔
اس کے باوجود فلسطین اور بیت المقدس ہمارا ہے اور رہے گا، ہم ہی اس کے وارث اور حقدار ہیں۔ کیونکہ اس کا تذکرہ قرآن کریم میں بکثرت موجود ہے، اس کو مسلمانوں کا قبلہ اول ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ حرمین شریفین کے بعد اس کو سب سے زیادہ اہمیت دی گئی ، یہاں کی سر زمین کو مبارک اور مقدس کہا گیا، اس مسجد میں نماز پڑھنے کا ثواب دیگر مساجد کے مقابلہ میں زیادہ رکھا گیا، معراج کی رات رسول اللہ ؐ نے یہاں پر تمام انبیاء کی امامت کی، یہ انبیاء علیہم السلام کا مسکن اور مدفن ہے، اللہ نے کئی نبیوں کو اس جانب ہجرت کرنے کا حکم دیا، حضرت سلیمان ؑ اسی جگہ بیٹھ کر ساری دنیا پر حکومت کرتے تھے، حضرت لوط ؑکو اسی جگہ نجات ملی، حضرت عیسی ؑ کو ان کی قوم کے لوگوں نے قتل کرنا چاہا تو اللہ تعالی نے آپ کو اسی شہر سے آسمانوں پر اٹھالیا، اسی شہر با ب لد پر حضرت عیسی ؑ دجال کو قتل کریں گے،اسی شہر سے یاجوج اور ماجوج کا خروج ہوگا، اسی شہر میں وقوع پذیر ہونے والے بہت سارے قصوں میں سے ایک طالوت اور جالوت کا قصہ بھی ہے جس کو قرآن نے بالتفصیل بیان کیا، اس شہر میں کئی سارے معجزات وقوع پذیر ہوئے جن میں کنواری مریم ؑ نے حضرت عیسی ؑ کو جنم دیا، حضرت زکریا ؑ کا محراب بھی یہیں موجود ہے، حضرت موسیؑ نے اس شہر کو مقدس کہا ہے کیونکہ یہ شہر ہمیشہ شرک کی گندگی سے پاک رہا ہے۔ اس کی عظمت اور تقدس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اس کی آزاد ی کے لئے اب تک لاکھوں مسلمانوں نے جام شہادت نوش کیا اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ ڈاکٹر مشاہدؔ رضوی فرماتے ہیں:
ہمارے دین کی پہچان، مسجد اقصی
بچائیں گے تری ہم آن، مسجد اقصی
امام الانبیاء کی مسند امامت تو
ہے تجھ سے منسلک ایمان، مسجد اقصی
نہ جانے کتنے ہی نبیوں کا تو بنی مسکن
ہے تو ہی مرکز ایقان، مسجد اقصی
ہے تیرے گرد رکھا رب نے برکتوں کا ہجوم
ہے تو ہی رحمت رحمان، مسجد اقصی
ہے ارض مقدس پہ خوں ریزاں بپا ہر سو
اے کاش ہم سے ہو درمان، مسجد اقصی
کوئی کہیں سے مجاہد اٹھے زمانے میں
بنارہے ترا دربان ، مسجد اقصی
یہی ہے رضوی مشاہدؔ کے دل میں اک ارماں
یہ جان تجھ پہ ہو قربان، مسجد اقصی
یہ حقیقت ہے کہ فلسطین ہمارا ماضی بھی ہے حال اور مستقبل بھی ،اسے قومی یا ملکی مسئلہ سمجھ کر چھوڑا نہیںجاسکتا۔فلسطین اور بیت المقدس کی بازیابی کیلئے ہمیں ہر سطح پر ہر ممکن کو شش کرنی چاہئے۔انفرادی اور اجتماعی طور پر بھی، ملکی اور سیا سی طور پر بھی۔ اور ہم اس بات کو کبھی نہیں بھول سکتے کہ مسجد اقصی کی آزادی ہم پر فرض ہے اور یہ فرض اسی وقت ادا ہو سکتا ہے جب ہم اپنے تمام تروسائل کے ساتھ بیت المقدس اور اہل فلسطین کی پشت پناہی کریں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالی بیت المقدس کو صیہونی چنگل سے آزاد فرمائے۔ آمین۔
٭٭٭