یہ ایشیا کی صدی ہے!
منور مرزا
جب نئی صدی کا آغاز ہوا، تو ہر طرف یہی شور تھا کہ”یہ صدی، ایشیا کی صدی ہے۔“سوال یہ ہے کہ کیا23 سال گزرنے کے بعد یہ بات اب بھی اْسی وثوق سے کہی جاسکتی ہے؟ایشیا کے تین بڑے خطّے ہیں، جو اِس کی ترقّی میں بنیادی کردار ادا کر رہے ہیں اور اہم بات یہ ہے کہ ان کی ترقّی کی رفتار میں کوئی ایسی کمی نہیں دیکھی گئی، جس سے کہا جاسکے کہ حالات ٹھیک نہیں ہیں۔ان میں پہلا خطّہ جنوب مشرقی ایشیا ہے، جہاں جاپان، جنوبی کوریا، تائیوان، سنگاپور، ویت نام، ملائیشیا، انڈونیشیا اور ہانگ کانگ وغیرہ واقع ہیں۔ جنوب مشرقی ایشیائی ماڈل پر ہم آگے چل کر تفصیل سے بات کریں گے کہ اِسی ماڈل نے درحقیقت ایشیا کی صدی کا نظریہ پیش کیا اور اسے مضبوط بھی بنایا۔
چین، ایشیا کے ہر حصّے میں موجود ہے اور اس کے ”چائنا رائیز“ نے ایشیا کے اقتصادی نظام کو نہ صرف تقویت دی بلکہ اس کے پہلے عالمی ٹریڈ کوریڈور نے اسے دنیا کے نقشے پر امر کر دیا۔اس کے بعد ہندوستان اور بنگلہ دیش ہیں، جو بڑی تیزی سے اپنا مقام مستحکم کر رہے ہیں۔ان دونوں کا تعلق جنوبی ایشیا سے ہے۔ ایشیا، آج دنیا کے مال کی فیکٹری بنا ہوا ہے۔ یہ فیکٹری60 ء کی دہائی میں جاپان سے شروع ہوئی، پھر جنوبی کوریا اور ایشین ٹائیگرز سے ہوتی ہوئی، اب چین اور ہندوستان تک آپہنچی ہے۔ اِس دوڑ میں اب مشرقِ وسطیٰ کے تیل پیدا کرنے والے ممالک بھی شامل ہو گئے ہیں، جنہوں نے اپنے خام مال، یعنی تیل کی جگہ ٹیکنالوجی استعمال کرنے کا عزم کیا ہے۔
دل چسپ بات یہ ہے کہ دوسرا عالمی کوریڈور، جو حالیہ جی۔20 کانفرنس میں سامنے آیا، اِسی خطّے میں واقع ہے۔دوسرے الفاظ میں ایشیائی ممالک نے اپنی ترجیحات میں معاشی ترقّی کو اولیت دی ہے۔ امریکہ، یوروپ اور دیگر ترقّی یافتہ مغربی ممالک بھی اب تسلیم کر رہے ہیں کہ ایشیا کے پاس وہ خام اور تیار وسائل ہیں، جو عالمی معیشت کا اہم حصّہ ہیں۔
ایشیائی صدی کا آغاز اْس وقت ہوا، جب پہلے جاپان اور جنوبی کوریا نے اور پھر چین نے وسیع پیمانے پر سستا مال تیار کرنا شروع کیا۔یہ مال جدید ٹیکنالوجی کی بدولت بہترین مشینز پر تیار کیا گیا۔لیبر سستی اور اِسکلڈ تھی۔ یہ مال غریب ممالک کے عوام کی پہنچ میں ہے، جب کہ امیر اور ترقّی یافتہ مغربی ممالک بھی اسے پسند کرتے ہیں۔نئی صدی کے دوسرے عشرے کے وسط تک یہ تیار مال دنیا کے کْل مال کے ساٹھ فی صد تک جا پہنچا۔وہ ایشیائی ممالک،جو اس سے قبل غریب ممالک کی فہرست میں شامل تھے، اب ترقّی پذیر معیشتوں کی فہرست میں آگئے ہیں۔ اْن کے عوام کا معیارِ زندگی دیکھتے ہی دیکھتے بلند ہونے لگا اور آج اْن میں سے کئی ممالک، جیسے جاپان، چین، جنوبی کوریا، سنگاپور اور تائیوان، کسی طرح یوروپی ممالک سے کم نہیں۔ یہاں خوش حالی اور اطمینان کا عکس عام آدمی کے چہرے پر دیکھا جاسکتا ہے۔اور اس کا اثر اْن کے سیاسی اور انتظامی نظام پر بھی ہوا، جو مسلسل مستحکم ہوتے جا رہے ہیں۔ جاپان، جہاں ہر سال وزیرِ اعظم بدلتے تھے، اب وہ اپنی مدّت پوری کر رہے ہیں۔ ویت نام جیسا مْلک انقلاب سے نکل کر معاشی استحکام کی طرف بڑھ رہا ہے۔چین کی چالیس فی صد آبادی متوسّط طبقے میں شامل ہوچْکی ہے۔
ہندوستان دنیا کی تیز رفتار معیشتوں میں مقام بنا رہا ہے۔اس ترقّی کا راز دو چیزوں میں مضمر ہے۔اچھے، سستے مال کی تیاری اور اسے خریدار تک پہنچانا، خواہ وہ دنیا کے کسی بھی کونے میں ہو۔کروڑوں ایشیائی باشندے آج مغرب کے مقابل کھڑے ہوچْکے ہیں اور اْن کی آواز دنیا میں اہمیت اختیار کرگئی ہے۔اْن کے پاسپورٹ کو خوش آمدید کہا جا رہا ہے۔ایشیا کا یہ تجارتی ماڈل ماہرین اور ترقّی کے خواہش مند ممالک کے لیے کشش کا باعث ہے۔جہاں اِن ممالک نے برآمدات سے قیمتی زرِ مبادلہ کے ذخائر بڑھائے، وہیں ان کی باہمی تجارت میں بھی غیر معمولی اضافہ ہوا۔گویا علاقائی تجارت اوّلیت اختیار کر چْکی ہے۔ سنگاپور کے زرِ مبادلہ کے ذخائر500 ارب ڈالرز تک جا پہنچے ہیں، جب کہ اْس کا رقبہ اِتنا چھوٹا ہے کہ جہاز محض پانچ منٹ میں اْس کے اوپر سے گزر جاتا ہے۔ اس کی آبادی بھی صرف پچپن لاکھ ہے۔ تیس سال پہلے تک ان ممالک کی باہمی تجارت46 فی صد تھی، جو آج تقریباً 60 فی صد ہے۔یوروپ کے بعد ایشیا تجارتی رابطوں کے ذریعے ایک دوسرے سے جْڑا ہوا ہے اور اِس حوالے سے یہ سب سے اہم برّاعظم بن چْکا ہے۔ باہمی تجارت جہاں بہت سے امکانات پیدا کرتی ہے، وہیں ایک دوسرے کی معیشت کو سہارا دینے میں بھی مدد گار بن جاتی ہے۔ مال کی ترسیل جلد ممکن ہوتی ہے اور اِسی لیے تجارتی تعاون ہر سطح پر جلد اور دیرپا ثابت ہوتا ہے۔نیز، بیرونی برّاعظموں پر انحصار کم ہوتا جاتا ہے، جس سے سیاسی اور فوجی برتری کے امکانات کم تر ہو جاتے ہیں۔جو جس نظام میں خوش ہے، وہ دوسرے ممالک کے لیے قابلِ قبول ہوتا ہے کہ اْنھیں اصل غرض اپنے اپنے فائدے سے ہوتی ہے۔اِسی لیے آج ایشیا، خاص طور پر جنوب مشرقی ایشیا میں جنگوں سے تنازعات کے حل کا سلسلہ ختم ہوچْکا ہے۔یہ اقوام اور ممالک جنگوں، غلامی اور فوجی برتری کے بدترین ادوار سے گزرے ہیں۔اب اقتصادی ترقّی نے اْنھیں جو خود مختاری دی ہے، وہ اْسے کسی طور گنوانے کا تصوّر نہیں کر سکتے۔اِسی لیے ایشیائی ماڈل میں امن کی بنیادی اہمیت ہے۔ تنازعات خواہ کتنے ہی گمبھیر کیوں نہ ہوں، اْنہیں پسِ پْشت ڈال کر معاشی رابطوں میں خلل پیدا نہیں ہونے دیا جاتا۔جاپان اور چین کے عرصہ دراز پر پھیلے اختلافات منجمد ہیں۔تائیوان میں امریکی مداخلت کے باوجود چین صبر سے کام لیتا ہے۔ ہندوستان اور چین کے ہمالیائی مسائل جنگ میں تبدیل نہیں ہوتے، بلکہ دونوں کے درمیان 150 ارب ڈالرز کی دو طرفہ تجارت ہو رہی ہے۔ برکس، شنگھائی فورم اور جی۔20 میں ایک دوسرے کے ساتھ ہیں۔ ان کا میڈیا تندوتیز ہونے کی بجائے معاشی نزاکتوں کی سمجھ بوجھ رکھتا ہے۔ان ممالک کو بھیک مانگنے کی ضرورت اِس لیے نہیں پڑتی کہ وہ آپس میں معاشی تعاون کی راہیں نکال لیتے ہیں۔جنوب مشرقی ایشیا میں جاپان بھی موجود ہے، چین بھی اور امریکہ بھی، سب کے اپنے اپنے ماضی اور نظریات ہیں، ان کی سوچ اور معاشرت میں فرق ہے، لیکن ایک چیز مشترک ہے اور وہ ہے، عوام کی بھلائی کے اقدامات۔
اِس ماڈل کو جنوبی، مغربی اور وسط ایشیا میں پوری طرح نہیں اپنایا جاسکا، اِسی لیے ان علاقوں میں ترقّی کی وہ لہر نہیں آرہی، جو اس برّ ِاعظم کے مشرقی حصّے میں نظر آتی ہے۔البتہ یوں لگتا ہے کہ اب مشرقِ وسطیٰ نے عقل سے کام لینا شروع کردیا ہے اور وہ تنازعات، انقلابات کو خیرباد کہہ رہے ہیں۔ امن معاہدوں اور تجارتی راہ داریوں پر توجّہ دی جارہی ہے۔آج قوموں کو انقلابی نہیں، معاشی ادراک رکھنے والے لیڈر چاہیے۔ ایسے لیڈر نہیں، جن کی زبان پر تو آزادی، آزادی کے نعرے ہوں، لیکن عوام کو بھکاری بنادیں۔ لیڈر بھکاری نہیں ہوتے، قومیں کم زور ہوکر ہاتھ پھیلاتی ہیں۔ایک مثبت تبدیلی یہ بھی آئی ہے کہ ایشیائی ممالک ایک دوسرے ممالک میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔پہلے یہ کام عموماً مغربی ممالک اور امریکہ کرتے تھے۔اِس ضمن میں جاپان نے اْس وقت پہل کی، جب اْس کی معیشت، عالمی معیشت بن گئی۔ جنوبی کوریا اور پھر چین نے اِسے آگے بڑھایا۔ چین کے سی پیک میں 68 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری اِس کی ایک واضح مثال ہے۔ اسی کے سبب مغرب اور امریکہ دوسرے عالمی ٹریڈ کوریڈور کا منصوبہ سامنے لائے اور اْس کا تعلق بھی ایشیا ہی سے ہے۔ یہ ہندوستان، مشرقِ وسطیٰ، یوروپ سے ہوتا ہوا امریکہ تک جائے گا۔
دوسری طرف، مغربی ترقّی یافتہ ممالک کی سرمایہ کاری کم ہوتی جارہی ہے۔ اس کی مثالیں ایشیائی کمرشل بینکس کے قرضوں میں دیکھی جاسکتی ہیں۔اب چین، جاپان، سنگاپور اور ہانگ کانگ کے بینکس ایشیائی ترقّیاتی منصوبوں میں بڑھ چڑھ کر سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ گزشتہ آٹھ سال کے دَوران زیادہ تر سرمایہ کاری چین سے آئی، جو چھ ارب ڈالرز کے قریب ہے، جب کہ جاپان سے4.4 اور جنوبی کوریا سے 2.9 ارب ڈالر سرمایہ کاری ہوئی۔یاد رہے کہ اس میں کورونا کا زمانہ بھی شامل ہے۔اس سرمایہ کاری کے ساتھ ٹیکنالوجی سپورٹ اور ماہرانہ امداد بھی شامل ہے، جس کی ایک مثال ویت نام کے دارالحکومت میں نو تعمیر شدہ میٹرو ریلوے ہے، جو جاپان کی سرمایہ کاری اور مہارت سے تیار کی گئی۔اِس طرح یہ مْلک نہ صرف معاشی تعاون میں ایک دوسرے کے قریب آرہے ہیں بلکہ علاقے کی مجموعی ترقّی میں بھی کردار ادا کر رہے ہیں کہ ایشیا کو جدید شکل دینے کے یہی راستے ہیں۔ خطّے میں نئے نئے تجارتی معاہدے ہو رہے ہیں، جن کے ذریعے سپلائی چین کی پیچیدگیوں کے حل تلاش کیے جارہے ہیں تاکہ صارف تک مال با آسانی پہنچ سکے۔ ایشیا کی کنزیومر مارکیٹس مضبوط ہورہی ہیں۔آئی ایم ایف کے اندازوں کے مطابق ایشیائی معیشتیں آئندہ برسوں میں 4.5 فی صد کی رفتار سے آگے بڑھیں گی، جو ترقّی یافتہ ممالک کے مقابلے میں تین گْنا تیز رفتار ہے۔ پھر جیسے جیسے خوش حالی آئے گی، صارف زیادہ مال خریدیں گے اور تجارتی حجم میں اضافہ ہوگا اور روز گار کے مواقع بڑھیں گے۔ جیسے جیسے مال کی طلب بڑھ رہی ہے، قیمتوں میں کمی دیکھی جارہی ہے۔یوکرین جنگ کا فیز عارضی ہے اور اس کے اثرات دیرپا نہیں ہوں گے۔ اگر روس نے اسے جلد ختم کرنے کی کوشش نہ کی، تو یہ جنگ نہ صرف اْس کی معیشت کے لیے تباہ کْن ہوگی بلکہ یوروپ کو بھی نقصان پہنچائے گی۔
ایشیا کے سیاسی نظام اِس طرح جمہوریت سے جْڑے ہوئے نہیں کہ اْن کا یوروپی یونین کی طرح کا کوئی نظام بن سکے۔ یہاں جمہوریت، آمریت، بادشاہت سب ہی چل رہی ہیں۔ البتہ ان کے درمیان معاہدے اور رابطے، باہمی فوائد و مفادات کی بنیاد پر آگے بڑھیں گے۔ نظریاتی ہم آہنگی اور ایشین یونین کے قیام کی کوششیں فضول مشق ہی ہوگی۔ اِس سے پہلے غیر جانب دار تنظیم ناکام ہوئی، سارک بھی کام یاب نہیں، عرب لیگ موثر نہیں اور اسلامی تعاون تنظیم کا حال بھی سب کے سامنے ہے۔٭٭