سوشیل میڈیایوروپ

برطانوی مسلمانوں کو ’دوسرے درجہ کا شہری‘ بنانے قانون تنسیخ شہریت کا استعمال

ایک نئی رپورٹ میں انتباہ دیا گیا کہ بغیر نوٹس کے شہریت سے بے دخل کرنے حکومت کے اختیارات کے ذریعہ برطانیہ میں مسلمانوں کو ’دوسرے درجہ کا شہری‘ بنایا جارہا ہے۔

حیدرآباد: ایک نئی رپورٹ میں انتباہ دیا گیا کہ بغیر نوٹس کے شہریت سے بے دخل کرنے حکومت کے اختیارات کے ذریعہ برطانیہ میں مسلمانوں کو ’دوسرے درجہ کا شہری‘ بنایا جارہا ہے۔ انسٹی ٹیوٹ آف ریس ریلیشنس کی جانب سے اتوار کو شائع کردہ رپورٹ میں انتباہ دیا گیا کہ برطانوی مسلمانوں کو نشانہ بنانے قانون شہریت و سرحدات کو استعمال کیا گیا۔

نائب صدر اور رپورٹ کے مصنف فرانسس ویبّر نے کہا کہ جنوب ایشیائی ورثہ کے حامل برطانوی مسلمانوں کے خلاف 2002 سے شہریت کے سلب کئے جانے کی قانون سازی اور اس پر عمل درآمد کے ذریعہ یہ پیغام دیا گیا کہ اپنے پاسپورٹس رکھنے کے باوجود یہ لوگ مقامی لوگوں کی طرح نہیں ہیں اور کبھی سچے شہری نہیں ہوسکتے۔

انہوں نے کہا ”’ایک وطنی برطانوی شہری‘ جو کوئی دوسری شہریت نہیں رکھتا، اپنے برطانوی باقی رہنے کے حق کو جوکھم میں ڈالے بغیر انتہائی سنگین جرائم کا ارتکاب کرسکتا ہے، تخمیناً 60 لاکھ برطانوی شہریوں میں جو دوسری شہریت تک رسائی رکھتے ہیں کوئی بھی اپنی شہریت کی دوام کے بارے میں پراعتماد نہیں ہوسکتا۔“

ویبّر نے کہا کہ 2003 سے قبل جب داعی ابو حمزہ کے خلاف محرومی شہریت کا استعمال کیا گیا تھا، 30 برسوں تک اس حکمت عملی کو استعمال نہیں کیا گیا، لیکن حمزہ کے کیس کے بعد محرومی شہریت کے تقریباً 217 واقعات پیش آئے ہیں جس میں داعش کے کمزور پڑجانے کے بعد قابل لحاظ اضافہ ہوا ہے۔ ویبّر نے کہا کہ شہریت کی یہ درجہ بندیاں جنوب ایشیائی اور شرق وسطیٰ ورثہ کے حامل برطانوی مسلمانوں کو نشانہ بنانے کی گئیں۔

انہوں نے کہا ”اس طرح کی قانونی تفریق اقلیتی نسلی شہریوں کو مستقل یہ یاددہانی کرواتی ہے کہ انہیں اپنے اقدام کے بارے میں غور کرنا ہوگا اور نسلی امتیاز کے سزاء وار حامل گروپ برطانوی ہونے کے لئے لائق نہیں ہوسکتے کے نسلی پیغام کو تقویت پہنچاتی ہے۔

رپورٹ کے مصنف نے مبہم اور غیر مصرحہ نوعیت کے حکومتی اختیارات پر تنقید کے لئے شمیمہ بیگم کے کیس کو اٹھایا۔ اس الزام کے بعد کہ کینیڈا کے ایک جاسوس نے بیگم کو ملک شام منتقل کیا تھا برطانوی حکومت نے حال ہی میں تنقیح کا سامنا کیا تھا۔ ویبّر نے کہا کہ یہ کارروائی سوال کھڑا کرتی ہے کہ آیا مجروح قاچاق لڑکیوں کے تحفظ پر انٹلی جنس معلومات اکٹھا کرنے مغربی ایجنسیوں کی ترجیحات سے توجہ ہٹانے بیگم کی شہریت چھین لی گئی؟

برطانیہ اور بیرون ملک گزشتہ دو دہوں میں شہریت کا چھین لینا مسلم برادریوں کو نشانہ بنانے کے اقدامات کا صرف ایک پہلو ہے جو برطانوی مسلمانوں کو ایک مشتبہ برادری بنادینے میں کارگر ثابت ہوا ہے۔ وزارت داخلہ کے ایک ترجمان کی اس ضمن میں ایک وضاحت سامنے آئی ہے جس میں انہوں نے کہا کہ ہماری ترجیح برطانیہ کی سلامتی اور سیکیوریٹی ہے۔ شہریت کی محرومی حقائق پر محتاط غور کرنے کے بعد ہی عمل میں آتی ہے اور عالمی قانون کی مطابعت میں ہی کی جاتی ہے۔