جنوبی بھارت

بلاول بھٹو اور جے شنکر کا مصافحہ!

بھارتی ریاست گووا میں ہونے والے شنگھائی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ اجلاس کے موقع پر وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری اور ان کے بھارتی ہم منصب جے شنکر کے درمیان مصافحہ ہوا ہے۔

گوا: بھارتی ریاست گووا میں ہونے والے شنگھائی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ اجلاس کے موقع پر وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری اور ان کے بھارتی ہم منصب جے شنکر کے درمیان مصافحہ ہوا ہے۔

ذرائع کے مطابق وزیرخارجہ بلاول بھٹو زرداری عشائیے میں سب سے آخر میں پہنچے، بلاول بھٹو کے پہنچنے پر جے شنکر نے اپنی نشست پر کھڑے ہو کر ہاتھ ملایا، دونوں وزرائے خارجہ نے مصافحے کے دوران خیر مقدمی کلمات کا تبادلہ کیا، بلاول بھٹو زرداری سے پہلے روسی وزیر خارجہ عشائیہ کی تقریب میں پہنچے، بلاول بھٹو اور روسی وزیر خارجہ باہمی ملاقات کے باعث عشائیہ میں تاخیر سے پہنچے۔

وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری شنگھائی تعاون تنظیم کی سالانہ کانفرنس میں شرکت کے لیے بھارت کے ساحلی شہر گوا میں ہیں، جہاں کچھ دیر پہلے اْن کی اپنے روسی ہم منصب سے ملاقات ہوئی۔ترجمان دفترِ خارجہ کے مطابق دونوں رہنماوں کے درمیان پاک روس تعلقات، علاقائی و عالمی اْمور، فوڈ سکیورٹی اور توانائی کے شعبے میں تعاون بڑھانے پر اتفاق ہوا۔شنگھائی تعاون تنظیم کے بند کمرہ اجلاس میں رکن ملکوں میں سکیورٹی، دہشت گردی اور اشتراک جیسے معاملات پر بات چیت ہوگی۔

بلاول بھٹو زرداری 2011 کے بعد سے بھارت کا دورہ کرنے والے پہلے پاکستانی وزیر خارجہ ہیں۔ بلاول کی بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر کے ساتھ دو طرفہ ملاقات متوقع نہیں ہے۔بھارت کی ممتاز صحافی سوہا سنی حیدر نے بلاول بھٹو زرداری کے دورہ بھارت کو مثبت قرار دیا ہے۔

بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کا کہنا تھا کہ اجلاس کا میزبان ملک تمام رکن ممالک کو دعوت دینے کا پابند ہے، یہی سرکاری پروٹوکول ہے۔بھارتی میڈیا کا بھی ملاجلا ردِ عمل ہے تاہم عمومی رائے یہی ہے کہ بلاول بھٹو کی ایس سی او میں شرکت پاک بھارت تعلقات کی بحالی کی جانب بہتر قدم ہے۔

غیر ملکی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم ایسے خطے کا احاطہ کرتی ہے جو پاکستان کیلئے تجارت، رابطوں اور توانائی کے شعبوں میں بہت اہم ہے، پھر یہ کہ اس تنظیم کی قیادت چین کرتا ہے جو پاکستان کا اہم اتحادی ہے، روس بھی اس فورم میں سرکردہ ہے جس کا پاکستان کے ساتھ اشتراک گہرا ہو رہا ہے، اس لیے کانفرنس میں شرکت نہ کرنا پاکستان کے علاقائی مفاد میں نہیں ہے۔