یوروپ

ٹائیٹانک جہاز کے ملبے کی پہلی بار تھری ڈی تصاویر جاری

بحراوقیانوس کے گہرے پانیوں میں ڈوبنے والے بحری جہاز ’ٹائٹینک‘ کا پہلی بار فُل سائز ڈیجیٹل اسکین کیا گیا ہے جس کی مدد سے تھری ڈی تصاویر جاری کی گئیں۔

لندن: بحراوقیانوس کے گہرے پانیوں میں ڈوبنے والے بحری جہاز ’ٹائٹینک‘ کا پہلی بار فُل سائز ڈیجیٹل اسکین کیا گیا ہے جس کی مدد سے تھری ڈی تصاویر جاری کی گئیں۔

یہ تصاویر پہلی بار جاری کی گئیں ہیں، اور ان تصاویر میں دیکھے جانے والے منظر پہلے کبھی نہیں دیکھے گئے۔

برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق بحر اوقیانوس کی 3800 میٹر گہرائی میں موجود ٹائٹینک کا پہلا بار فُل سائز ڈیجیٹل اسکین ڈیپ سی میپنگ ٹیکنالوجی (deep-sea mapping) کی مدد سے کیا گیا۔اسکین کی مدد جاری کی جانے تصاویر سے ایسا لگتا ہے کہ جہاز کے اردگرد پانی موجود نہیں ہے۔

رپورٹ کے مطابق جہاز کی تصاویر جاری کرنے کے بعد امید ظاہر کی جارہی ہے کہ ان تصاویر سے معلوم ہوسکے گا کہ 1912 میں آخر جہاز کے ساتھ ایسا کیا ہوا تھا جس کی وجہ سے وہ ڈوب گیا۔

واضح رہے کہ 111 سال قبل دنیا کی بحری جہازوں کی تاریخ کا ایک مشہور ترین اور بڑا حادثہ اس وقت پیش آیا جب 15 اپریل 1912 کو رات کے 2 بج کر 20 منٹ پر ’ٹائٹینک‘ نامی جہاز ایک برفانی تودے یا آئس برگ سے ٹکرا کر نیو فاؤنڈ لینڈ کے ساحل کے قریب ڈوب گیا تھا، جس میں ایک ہزار 500 کے قریب افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

اس بحری جہاز کو اس وقت کا پرتعیش ترین اور محفوظ ترین جہاز بلکہ کبھی نہ ڈوبنے والا جہاز قرار دیا گیا تھا مگر اس کے ڈوبنے سے ڈیڑھ ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔یہ جہاز 882 فٹ لمبا اور 90 فٹ سے زیادہ اونچا تھا اور اس کا وزن 53 ہزار ٹن تھا۔اب یہ جہاز 111 سال سے شمالی بحر اوقیانوس میں 2.4 میل گہرائی میں پڑا ہوا ہے۔

ٹائٹینک کے ماہر تجزیہ کار پارکس اسٹیفنسن نے بی بی سی نیوز کو بتایا کہ ’جہاز سے متعلق اب بھی لاتعداد بنیادی سوالات ہیں جن کے جواب معلوم کرنے کی ضرورت ہے‘۔انہوں نے بتایا کہ تھری ڈی ماڈل شواہد پر مبنی اصل کہانی سامنے لانے کی جانب پہلا بڑا قدم ہے جس میں قیاس آرائیوں کی کوئی گنجائش نہیں ہوگی’۔

1985 میں جہاز کے ملبے کی دریافت کے بعد ٹائٹینک کی بڑے پیمانے پر تحقیق اور تصاویر لینے کی کوشش کی گئی لیکن یہ جہاز اتنا بڑا ہے کہ گہرے اندھیرے میں ملبے کی تصاویر غیر واضح دکھائی دیں گی۔حال ہی میں جاری ہونے والی تصاویر میں ملبے کو پہلی بار واضح طور پر دکھایا گیا ہے، جو نئی ٹیکنالوجی کی مدد سے ممکن ہوسکا ہے، یہ جہاز دو حصوں میں تقسیم ہوکر ایک دوسرے سے 800 میٹر دور سمندر میں موجود ہیں۔

ڈیپ سی میپنگ کمپنی اور اٹلانٹک پروڈکشنز ’میگیلن لمیٹڈ‘ نے 2022 میں جہاز کے اسکرین پر کام شروع کیا تھا، وہ اس حوالے سے ایک دستاویزی فلم بھی بنا رہے ہیں۔

جہاز کا اسکین کرنے کے لیے ریموٹ کنٹرول آبدوزوں کی مدد لی گئی جسے خصوصی جہاز پر سوال ماہرین کنٹرول کررہے تھے، آبدوز کی مدد سے جہاز کی لمبائی اور چوڑائی کا سروے کیا گیا، اس تمام عمل میں 200گھنٹوں سے زائد کا وقت لگا تھا۔

ماہرین نے جہاز کے ہر اینگل سے 7 لاکھ سے زائد تصاویر لیں تاکہ تھری ڈی ماڈل تیار کیا جاسکے۔

اس پروجیکٹ کی منصوبہ بندی کرنے والے ماہر گیرہارڈ سیفرٹ نےکہا کہ یہ پانی کے اندر اسکیننگ کا سب سے بڑا منصوبہ تھا۔اس دوران سب سے بڑا چیلنج یہ تھا کہ ہمیں کسی چیز کو چھونے کی اجازت نہیں تھی تاکہ ملبے کو نقصان نہ پہنچے۔اسکین میں جہاز کے حجم کے ساتھ ساتھ اس کی باریک تفصیلات جیسے پروپلر میں موجود سیریل نمبر تک و دکھایا گیا۔

اس کے علاوہ ایک اور چیلنج یہ تھا کہ ہمیں جہاز کی ہر چھوٹی بڑی تمام تفصیلات بھی اسکین کرنی تھیں، مثال کے طور پر پروپلر میں موجود سیریل نمبر بھی ہم نے اسکین کیا۔انہوں نے بتایا کہ جہاز کے اگلے حصے پر زنگ چڑھ چکا ہے مگر 100 سال بعد بھی اسے شناخت کیا جا سکتا ہے۔