دہلیسوشیل میڈیا

پاکستانی ہندو پناہ گزین دہلی میں بنیادی سہولتوں سے محروم

پاکستانی ہندو پناہ گزین جنہوں نے اپنی زندگیوں کو بچانے کی امید کے ساتھ بھارت کا رخ کیا تھا، دہلی کے منجو کا ٹیلہ میں بنیادی سہولتوں جیسے پینے کا پانی اور بجلی کی رسائی کے بغیر شامیانوں اور کچے مکانات میں الگ تھلگ رہنے پر مجبور ہیں۔

نئی دہلی: پاکستانی ہندو پناہ گزین جنہوں نے اپنی زندگیوں کو بچانے کی امید کے ساتھ بھارت کا رخ کیا تھا، دہلی کے مجنوں کا ٹیلہ میں بنیادی سہولتوں جیسے پینے کا پانی اور بجلی کی رسائی کے بغیر شامیانوں اور کچے مکانات میں الگ تھلگ رہنے پر مجبور ہیں۔

52 سالہ پناہ گزیں رادھا سولنکی جنہوں نے 9 برس قبل پاکستان سے بھارت کو نقل مکانی کی تھی، کہا کہ مرکز کی جانب سے قانون مرممہ شہریت پر عمل آوری کو مؤخر کرنے کے بعد ان کی امیدیں اور خواب پاش پاش ہوگئے ہیں۔

یہ قانون جو بنگلہ دیش، پاکستان اور افغانستان کی مظلوم غیر مسلم برادریوں ہندو، سکھ، جین، بدھسٹ، عیسائی اور پارسی کو بھارتی شہریت فراہم کرتا ہے، پارلیمنٹ کی جانب سے منظور کیا گیا تھا مگر اس پر عمل درآمد نہیں کیا جاسکا چونکہ ہنوز اس قانون کے تحت قواعد مدون نہیں کئے گئے۔

سولنکی نے پی ٹی آئی سے کہا ”ہمیں کوئی مدد نہیں ملی، حتیٰ کہ پانی اور بجلی بھی نہیں۔ ہمیں لگتا ہے کہ دھوکہ کیا گیا ہے۔ ہم پر اب کوئی ترس نہیں کھاتا، کیوں کہ یہاں کوئی بھی ہمارے ساتھ ہمدردی نہیں جتاتا۔ صرف پنجرہ میں بند پرندہ ہی پنجرہ کا درد محسوس کرسکتا ہے۔“

سولنکی اپنی مشکلات بیان کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ کورونا وائرس وباء کے بعد ان کی مالی صورت حال اس قدر بگڑ گئی ہے کہ ان کے بچوں نے اسکول چھوڑدیا ہے چونکہ وہ ڈیجیٹل کلاسس کے اخراجات برداشت کرنے کے متحمل نہیں ہیں۔ سولنکی نے استفسار کیا ”کورونا وباء کے دوران صورت حال اس قدر دگرگوں ہوگئی کہ جب ملک گیر سطح پر لاک ڈاؤن نافذ کیا گیا تھا اس وقت ہم کو اپنے بچوں کی تعلیم ترک کردینا پڑا تھا۔

ہمارے سارے خاندان میں صرف میرے شوہر ہی موبائیل فون استعمال کرتے ہیں، کس طرح ہم بچوں کے لئے ڈیجیٹل کلاسس کو برداشت کرپاتے۔“ 30 سالہ گنگا نے جن کے شوہر موبائیل کور شاپ چلاتے ہیں اور سارے خاندان کے واحد کفیل ہیں‘ کہا کہ مدد کے لئے ان کی تمام تر اپیلوں کو ان سنی کردیا گیا تھا۔

گنگا نے کہا ”ہم نہیں چاہتے کہ کوئی ہماری مالی مدد کرے مگر کم از کم وہ ہمیں شہریت اور ملازمت تو دلاسکتے ہیں۔ ہم نے کئی مرتبہ مدد کی اپیل کی مگر کوئی مدد یا جواب نہیں ملا۔“ مئی 2022ء میں مغربی بنگال میں ایک ریالی سے خطاب کرتے ہوئے مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ نے کہا تھا کہ کوویڈ وباء ختم ہوتے ہی قانون مرممہ شہریت پر عمل درآمد کیا جائے گا۔

حقوق انسانی کی جہد کار کویتا کرشنن نے پناہ گزینوں کی شہریت کے مسئلہ پر بات کرتے ہوئے کہا کہ پناہ گزینوں کو شہری کا مؤقف عطا کرنے کے لئے قانون مرممہ شہریت کی ضرورت نہیں ہے۔ کرشنن نے پی ٹی آئی سے کہا ”پناہ گزینوں کو سی اے اے پر عمل درآمد کئے بغیر بھی شہریت عطا کی جاسکتی ہے۔

ایسا حکومت کیوں نہیں کررہی ہے؟ میں ایک بار پھر اعادہ کرتی ہوں کہ پناہ گزینوں کو کم از کم بنیادی سہولتیں بہم پہنچائی جائیں اور پناہ گزین کا مؤقف عطا کیا جائے جس کے وہ مستحق ہیں۔“ انڈین ورلڈ فورم نے بھی افغانی ہندؤوں اور سکھوں کے لئے بھی اسی طرح کی فکرمندی کا اظہار کیا ہے جنہیں گزشتہ ایک برس میں افغانستان میں اقلیتوں پر حملوں کی اطلاعات کے بعد بھارت لایا گیا ہے۔