مضامین

کام ہے میرا تغیر نام ہے میرا شباب۔میرا نعرہ انقلاب و انقلاب وانقلاب

حضرت علیؓ نے فرمایا جب رسی سخت ہوجائے تو سمجھ جائیں ٹوٹنے والی ہے۔ اس طرح جب حالات سخت ہوجائیں تو سمجھ لیجئے کہ آسانی آنے والی ہے اور بے شک ہر مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔ حضرت علیؓ کا یہ زرین قول ہمیں خوشخبری دے رہاہے کہ حالات ہمارے موافق ہونے والے ہیں۔

ڈاکٹر شجاعت علی صوفی آئی آئی ایس‘پی ایچ ڈی
ـCell : 9705170786

حضرت علیؓ نے فرمایا جب رسی سخت ہوجائے تو سمجھ جائیں ٹوٹنے والی ہے۔ اس طرح جب حالات سخت ہوجائیں تو سمجھ لیجئے کہ آسانی آنے والی ہے اور بے شک ہر مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔ حضرت علیؓ کا یہ زرین قول ہمیں خوشخبری دے رہاہے کہ حالات ہمارے موافق ہونے والے ہیں۔

ہندوستان کے حق پرست عوام کو آج وقف ترمیمی قانون کی پہلی جنگ میں زبردست کامیابی حاصل ہوگئی جبکہ سپریم کورٹ نے تین انتہائی اہم نکات پر اپنا حکم جاری کردیا جس کی رو سے وقف بورڈ اور سنٹرل وقف کونسل کے تمام ارکان مسلم ہوں گے۔ ہاں Ex-Officio ارکان غیرمسلم ہوسکتے ہیں۔ دوسرا جو اہم معاملہ ہے وہ یہ کہ Waqf By Users املاک کی صورت کو جوں کا توں برقرار رکھا جائے گا یعنی قدیم املاک پر کسی قسم کا کوئی ردو بدل نہیں ہوگا اور عدالتوں سے وقف قرار دیئے گئے اداروں کو غیر وقف نہیں کہا جاسکتا۔

کلکٹر کے موجودہ موقف کو جوں کا توں برقرار رکھا جائے گا یعنی اس عہدیدار کو وقف سے متعلق کسی بھی جائیداد کا فیصلہ کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہوگا۔ چیف جسٹس آف انڈیا سنجیو کھنہ کی زیر قیادت تین رکنی بنچ اس معاملہ کی دو دن تک سماعت کرنے کے بعد اس نتیجہ پر پہنچی۔ اس فیصلہ کی خصوصیت یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے بشمول تینوں جسٹس یعنی سنجیو کھنہ، سنجے کمار اور کے وشواناتھن نے یہ متفقہ فیصلہ دیا ہے یعنی عدالت العالیہ نے اس قانونی جنگ کو فریقوں کی جنگ نہیں بلکہ دستور کے تحفظ کا معاملہ بنا دیا ہے جو ہندوستان کی سا لمیت کے لئے اشد ضروری ہے۔

یہ عبوری فیصلہ کل ہی آجاتا اگر سالیسٹر جنرل تشار مہتا عدالت سے یہ التجا نہ کرتے کہ عدالت العالیہ جمعرات کو بھی سرکار کے نکتہ کی سماعت کرے۔ اور آج جب کمرۂ عدالت میں چیف جسٹس داخل ہوئے تو تشار مہتا نے سرکار کا submission پیش کیا تو عدالت نے اس کی سنوائی کرنے کے فوراً بعد یہ کہہ دیا کہ انہیں عبوری حکم dictate کرنے دیا جائے اور انہوں نے فوراً وہ کام کردیا۔ تینوں ججس 2 بجکر 4 منٹ پر کورٹ نمبر ایک میں داخل ہوئے کہنہ مشق وکیل کپل سبل ان کے سامنے موجود تھے جبکہ دوسری جانب سرکار کے وکلاء سالیسٹر جنرل تشار مہتا کی قیادت میں موجود تھے۔

جیسے ہی کاروائی شروع ہوئی کپل سبل نے درخواست گزاروں کی جانب سے کہا کہ یہ کوئی معمولی مقدمہ نہیں ہے اسے دستور کا ایک انتہائی اہم مقدمہ تصور کیا جائے کیونکہ یہ مقدمہ دستور کے بنیادی ڈھانچہ کے خلاف ہے۔ سبل یہ کہہ رہے تھے کہ وقف پر سرکار کا حملہ آرٹیکل 25 اور 26 کے مغائر ہے کیونکہ یہ املاک کی بات نہیں ہے بلکہ مذہبی حق کا سوال ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہم اس کو وقف ترمیمی قانون 2025 کے طورپر لیں گے۔ اور یقینا اس مقدمہ کو دستوری چیلنج کے طورپر سنا جائے گا۔ تعجب اس بات پر ہوتا ہے کہ اگر یہ قانون دستوری تقاضوں کو پورا کرتا ہوتا تو سرکار یہ کورٹ میں کیسے بتاتی کہ اب سنٹر وقف کونسل اور اسٹیٹ وقف بورڈس میں غیر مسلم نہیں رہیں گے۔ Waqf By User کے خلاف کوئی بھی کاروائی نہیں کی جائے گی وہ وقف کی پراپرٹی کے طورپر ہی برقرار رہیں گی اور جن املاک کو عدالتوں نے وقف قرار دیا ہے اس کی ہیئت کو نہیں بدلا جائے گا۔

مرکز کے ایک وکیل نے کورٹ سے کہا کہ ہم نے ترمیم اس لئے کی ہے کہ شفافیت کو برقرار رکھا جائے۔ عدالت نے ان سے فوراً یہ استفسار کیا شفافیت کا حق سرکار کو اس بات کی اجازت کیسے دے سکتا ہے کہ وہ مذہبی آزادی میں مداخلت کرے۔ اس سوال پر عدالت کے احاطہ میں سناٹا چھا گیا۔ ویسے عدالت میں بہت سے نکات کو اٹھایا گیا لیکن سب سے زیادہ اہمیت آرٹیکل 25 اور 26 کو دی گئی جو مذہبی آزادی اور ادارتی خودمختاری سے بحث کرتا ہے۔ دوسرا نکتہ یہ تھا کہ مملکت اور مذہب کو الگ کیا جائے۔ پھر یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیسے سرکار مذہبی اداروں پر قبضہ کرسکتی ہے۔ یعنی یہ مسئلہ مذہب اور جمہوریت کا نہیں ہے بلکہ دستور میں اعتقاد کی اہمیت سے بحث کرتا ہے۔

عدالت نے وقف بورڈ کے بشمول تمام درخواست گزاروں کو ہدایت دی کہ وہ اپنے حلف نامے سات دن کے اندر داخل کریں۔ منظم انداز میں مقدمہ کی سماعت کرنے کے لئے نوڈل کونسل کا تقرر کیا جائے۔ اب ہر طرف یہ بحث چھڑی ہے کہ کیا یہ فیصلہ مسلمانوں کے لئے اطمینان بخش ہے تو یقینا اس سے مسلمانوں کو جذباتی اطمینان ضرور حاصل ہوا ہے اور یہ دستور کے تحفظ کی پہلی سیڑھی سمجھا جائے گا۔ یہ پہلا موقع ہے کہ عدالت عظمیٰ نے مرکز کے کسی قانون کو عبوری حکم التوا دیا ہے اور کہا کہ ہم اس بات کی تحقیقات کریں گے کہ آیا یہ قانون دستور کے ڈھانچے کو زک پہنچا رہا ہے۔ بہرحال آج کے اس فیصلہ کے بعد مسلمانوں نے اطمینان کی سانس لی ہے کیونکہ یہ جذباتی لمحہ انہیں اس عدالت عظمیٰ سے حاصل ہوا ہے جہاں پر مدتوں سے سناٹا تھا۔

وقف قانون کے خلاف دائر کئے گئے مقدمات کے تمام پیرو کاروں نے اور خاص طورپر مسلم پرسنل لا بورڈ نے اعلان کردیا کہ وہ اپنے احتجاج کو اُس وقت تک جاری رکھیں گے جب تک کہ یہ گھناؤنہ قانون واپس نہیں لیا جاتا۔ قانونی ماہرین یہ کہہ رہے ہیں کہ دستور سے چھیڑ چھاڑ بھارتیہ جنتا پارٹی اور ان کے حواریوں کے لئے بہت مہنگی پڑے گی۔ مقدمہ کی اگلی سماعت 5؍مئی کو ہوگی۔ یہاں اس بات کا تذکرہ بیجانہ ہوگا کہ 70 سے زائد درخواستوں میں سے عدالت صرف 5 درخواست گزاروں کو مقدمہ میں حصہ لینے کی اجازت دے گی کیونکہ اتنی زیادہ تعداد میں حلف ناموں کو نمٹنا مشکل ہے جبکہ سبھی درخواستوں کا لب لباب ایک ہی ہے۔

فیصلہ پر مختلف تنظیموں نے محتاط ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس قانونی جنگ کا مشاہدہ کرنے کے بعد مستقبل کے لائحہ عمل کو قطعیت دیں گے لیکن اپنی جاریہ جدوجہد کو بلا توقف جاری رکھیں گے۔ سپریم کورٹ کے ان تاثرات سے ایک نیا تغیر واضح طورپر دکھائی دے رہاہے۔اسی پس منظر میں شاعر نے کیا خوب کہاہے کہ

کام ہے میرا تغیر نام ہے میرا شباب
میرا نعرہ انقلاب و انقلاب وانقلاب