کرناٹک میں شکست، اندرون خلفشار سے تلنگانہ بی جے پی کو مشکل صورتحال کا سامنا
سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ کرناٹک میں بی جے پی کی شکست اور کانگریس کے برسر اقتدار آنے کے بعد تلنگانہ میں پورا مومنٹم (رفتار، توانائی) کانگریس کی جانب سے منتقل ہوگئی ہے۔
حیدرآباد: چند ہفتوں تک حکمراں جماعت بھارت راشٹرا سمیتی (بی آر ایس) کے اہم چیلنجر (سخت حریف) سے ایسا لگتا ہے کہ کرناٹک میں شکست کے بعد تلنگانہ میں اسمبلی انتخابات کی دوڑ میں بی جے پی اب تیسرے مقام پر آگئی ہے۔ اس کی اہم وجہ پارٹی میں اندرونی خلفشار بتایا گیا ہے۔
زعفرانی پارٹی خود کو تلنگانہ میں حکمراں جماعت بی آر ایس کا حقیقی متبادل قرار دیتی تھی اور بھگوا پارٹی کے قائدین پرُ امید تھے کہ کرناٹک میں کامیابی کے بعد وہ تلنگانہ کا قلعہ بھی فتح کرلیا جائے گا اور تلنگانہ، بھگوا پارٹی کیلئے جنوبی ہند میں دوسرا گیٹ وے بن جائے گی۔مگر آج بھگوا جماعت تلنگانہ میں مشکل صورتحال سے دوچار دکھائی دے رہی ہے۔
سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ کرناٹک میں بی جے پی کی شکست اور کانگریس کے برسر اقتدار آنے کے بعد تلنگانہ میں پورا مومنٹم (رفتار، توانائی) کانگریس کی جانب سے منتقل ہوگئی ہے۔
بی آر ایس کے ناراض قائدین، بی جے پی کے بجائے کانگریس کو ترجیح دے رہے ہیں۔ بی جے پی کی ریاستی قیادت کے خلاف آواز یں اٹھنے لگی ہیں۔ جس کے سبب تلنگانہ میں زعفرانی پارٹی کو مشکل صورتحال کا سامنا ہے۔
ایسی اطلاعات میں قبل ازیں دوسری ریاستوں سے بی جے پی میں شامل کئی قائدین، اپنی وفاداریاں تبدیل کرنے اور کانگریس میں شامل ہونے پر سنجیدگی سے غور کررہے ہیں۔ یہ اطلاعات یقینا بی جے پی کو مزید غیر مستحکم کرسکتی ہیں۔ تلنگانہ اسمبلی انتخابات کے لئے بمشکل4سے5 ماہ کا عرصہ ہے۔
ایسے میں بی جے پی کو ایک یونٹ کی طرح انتخابات کا سامنا مشکل ہوتا جارہا ہے۔ بی جے پی کے ایم ایل اے ایٹالہ راجندر اور سابق رکن اسمبلی کومٹ ریڈی راج گوپال ریڈی بی جے پی کا ساتھ چھوڑ کر کانگریس میں شامل ہونے کا ذہن بنا چکے ہیں۔
یہ بی جے پی کیلئے انتہائی شرمندگی کی بات ہوگی کیونکہ ایٹالہ راجندر، زعفرانی پارٹی کے جائننگ کمیٹی یا پیانل کے سربراہ ہیں جن کا کام دیگر سیاستی جماعتوں کے قائدین کو ترغیب دیتے ہوئے انہیں بی جے پی میں شامل کرانا ہے۔
چیف منسٹر کے سی آر کی جانب سے کابینہ سے خارج کرنے کے بعد ای راجندر نے 2021 میں بی آر ایس چھوڑ دیا تھا۔ انہوں نے بحیثیت ایم ایل اے حضور آباد سے بھی استعفیٰ دیتے ہوئے بی جے پی میں شمولیت اختیار کرلی تھی۔ اسی سال منعقدہ ضمنی الیکشن میں ای راجندر نے بی جے پی ٹکٹ پر بھاری اکثریت سے دوبارہ ایم ایل اے منتخب ہوئے تھے۔
ان کی اس کامیابی سے بی جے پی کو تقویت ملی تھی۔ حلقہ اسمبلی منوگوڑ کے کانگریس ایم ایل اے کو مٹ ریڈی راجگوپال ریڈی نے ای راجندر کی تقلید کرتے ہوئے اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دینے کے بعد بھگوا جماعت میں شامل ہوگئے۔
مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ، بزنس مین سیاست داں راج گوپال ریڈی کا پارٹی میں خیرمقدم کرنے کیلئے خود منوگوڑپہنچے تھے۔ راجگوپال ریڈی نے اس حلقہ کے ضمنی الیکشن میں دوبارہ مقابلہ کیا تاہم اس بار وہ، بی جے پی کے امیدوار تھے لیکن ای راجندر کی طرح انہیں کامیابی نہیں ملی۔ راجگوپال ریڈی ضمنی الیکشن ہار گئے۔
اس کے بعد بی جے پی کا جارحانہ موڈ کمزور ہونے لگا۔ سیاسی تجزیہ نگار پلواٹی رگھویندر ریڈی نے یہ بات کہی۔ اب جبکہ کانگریس کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کررہی ہے ایسے میں راجگوپال ریڈی ایک بار پھر گھرواپسی کے منتظر دکھائی دے رہے ہیں۔
ان کے بڑے بھائی وایم پی بھونگیر کومٹ ریڈی وینکٹ ریڈی، اپنے چھوٹے بھائی کو کانگریس میں دوبارہ شامل کرانے کی سعی کررہے ہیں۔دونوں قائدین، ایک دن میں 35 لاکھ خاندانوں تک رسائی کے بی جے پی کے پروگرام سے دور تھے۔ یہ پروگرام 22 جون کو تلنگانہ میں منعقد ہوا تھا۔ راجگوپال ریڈی کے ساتھ دیگر چند قائدین جیسے سابق ایم پی کونڈا ویشویشور ریڈی، جو کانگریس سے بی جے پی میں شامل ہوئے تھے۔
صدر ریاستی بی جے پی بنڈی سنجے کمار کے طریقہ کار سے ناخوش ہیں۔ بی جے پی ہائی کمان، تلنگانہ میں پارٹی کے اندر جو کچھ ہورہا ہے، اُس سے پریشان ہے۔
بنڈی سنجے، دکھاوے کیلئے بہت کچھ کہہ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ڈوبتی کشتی میں سوار ہونے والوں کو روکا
نہیں جائے گا۔ کئی ماہ سے بی جے پی میں اندرونی خلفشار جاری ہے۔ یہ اختلافات گذشتہ ماہ اس وقت منظر عام پر آئے جبکہ ایک ماہ قبل ای راجندر اور پارٹی کے دیگر قائدین سابق ایم پی کھمم پی سرینواس ریڈی اور سابق وزیر جوپلی کرشنا راؤ کو بی جے پی میں شامل ہونے کی دعوت دینے کیلئے کھمم روانہ ہوئے تھے۔
ان قائدین کا قصور یہ تھا کہ وہ بنڈی سنجے کی اجازت کے بغیر بی آر ایس کے ان دو ناراض قائدین سے ملاقات کی تھی۔بعدازاں ایٹالہ راجندر نے انکشاف کیا کہ ان دو قائدین نے الٹا ہمیں کانگریس میں شامل ہونے کا مشورہ دیا۔ کرناٹک میں کانگریس کی کامیابی کے بعد تلنگانہ میں کانگریس کو بی جے پی پر برتری حاصل ہوئی ہے۔
بی آر ایس اور دیگر جماعتوں کے قائدین کی کانگریس میں شمولیت کے بعد ایسا دکھائی دے رہا ہے کہ کانگریس اب بی آر ایس کی مین چیلنجر کے طور پر ابھر نے لگی ہے۔