دہلی

ہم جنسوں کی شادی کا مسئلہ: مرکز کا سپریم کورٹ میں تازہ حلفنامہ

مرکز نے سپریم کورٹ سے درخواست کی کہ وہ ہم جنسوں کی شادی کی قانونی توثیق سے متعلق درخواستوں کی جاریہ سماعت میں تمام ریاستوں اور مرکزی زیر انتظام علاقوں کو فریق بنائے۔

نئی دہلی: مرکز نے سپریم کورٹ سے درخواست کی کہ وہ ہم جنسوں کی شادی کی قانونی توثیق سے متعلق درخواستوں کی جاریہ سماعت میں تمام ریاستوں اور مرکزی زیر انتظام علاقوں کو فریق بنائے۔

متعلقہ خبریں
عباس انصاری والدکی فاتحہ میں شرکت کے خواہاں
سی اے اے قواعد کا مقصد پڑوسی ملکوں کی اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ
صدر جمہوریہ کے خلاف حکومت ِ کیرالا کا سپریم کورٹ میں مقدمہ
الیکشن کمشنرس کے تقرر پر روک لگانے سے سپریم کورٹ کا انکار
مولانا کلیم صدیقی پر کیس کی سماعت میں تاخیر کا الزام

مرکز نے اپنے حلفنامے میں کہا کہ اگر یہ معاملہ اسپیشل میریج ایکٹ 1954 تک بھی محدود ہو‘ اس صورت میں بھی یہ موجودہ قانون کے تحت موجود نظام سے مختلف سماجی ادارہ ”شادی“ کی عدالتی تخلیق سے تعلق رکھتا ہے۔

دستور وضع کرنے والوں نے مشترکہ فہرست میں ایک علٰحدہ انٹری کی واضح گنجائش رکھی ہے جو دستور ہند کے ساتویں شیڈول کا حصہ ہے جس کے تحت شادی سے متعلق قانون سازی کو ایک دستوری عمل کا درجہ دیاگیا ہے۔

یو این آئی کے بموجب چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ، جسٹس سنجے کشن کول، جسٹس ایس۔ رویندر بھٹ، جسٹس پی ایس نرسمہا اور جسٹس ہیما کوہلی کی آئینی بنچ کے سامنے مرکزی حکومت نے ایک اور حلف نامہ داخل کیا ہے۔

حلف نامے میں کہا گیا ہے کہ ریاستوں کو فریق بنائے بغیر اور ان کے خیالات کو جانے بغیر موجودہ مسائل پر کوئی بھی فیصلہ نامکمل ہوگا اور موجودہ مخالفانہ قواعد کو مختصر کردے گا۔اس حقیقت کو مدنظر رکھتے ہوئے آئینی بنچ سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ مشاورتی عمل کو انجام دینے اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں اور ریاستوں کے خیالات کو ریکارڈ پر رکھنے کے لیے وقت دیں۔

نئے حلف نامہ میں کہا گیا ہے کہ مرکزی حکومت نے تمام ریاستوں کو 18 فروری 2023 کو ایک خط جاری کیا ہے، جس میں عرضیوں میں اٹھائے گئے بنیادی مسائل پر تبصرے اور خیالات پیش کرنے کے لئے کہا گیا ہے۔

مرکزی حکومت کے حلف نامہ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ موجودہ کیس اور سپریم کورٹ کے ذریعہ بیان کردہ مسئلہ، یہاں تک کہ جب اسپیشل میرج ایکٹ 1954 تک محدود تھاتو موجودہ قانون کے تحت جس پر غور کئے جانے کے مقابلے میں ایک مختلف طرح کی ’ویواہ‘ نامی ایک سماجی ادارے کے مبینہ تخلیق کی ضرورت تھی۔