مہاراشٹرا

مہاراشٹرا الیکشن: مسلمان تذبذب کاشکار،مولانا سجاد نعمانی کی اپیل مسلمانوں سے زیادہ اکثریتی طبقہ  میں زیر بحث

ریاست مہاراشٹر کی اہم مسلم شخصیات نے مولانا نعمانی کی اس اپیل کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ مولانا موصوف کی شخصیت قابل احترام ہے مگر ان کی یہ اپیل موجودہ حالات کے تناظر میں مناسب نہیں-

ممبئی: نامور عالم دین اور آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے رکن مولانا سجا دنعمانی گذشتہ دنوں ریاست کے اسمبلی انتخابات کے تعلق سے مہا ویکاس آگھاڑی سمیت مراٹھا،ایس سی او بی سی ،ایس ٹی اور مسلم امیدواروں کی تائید و حمایت کا اعلان کیا ہے ان کے اعلان سے مسلم ووٹوں کی تقسیم یقینی مانی جا رہی ہے کیونکہ اس اپیل کا اثر مسلمانوں سے زیادہ اکثریتی طبقے میں زیر بحث ہوتا نظر آ رہا ہے۔

متعلقہ خبریں
رانچی میں مسلم پرسنل لابورڈ کی وقف کانفرنس
اسلام کیخلاف سازشیں قدیم طریقہ کار‘ ناامید نہ ہونے مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کا مشورہ

 اور ایک طرح سے اس الیکشن کو پولرائز کرنے کی مذموم کوشش کی جا رہی ہے نیز اس سے مسلمان جہاں تذبذب کا شکار ہے وہیں فرہ پرست طاقتیں اسے ووٹ جہاد قرار دے رہی ہیں۔ریاست مہاراشٹر کی اہم مسلم شخصیات نے مولانا نعمانی کی اس اپیل کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ مولانا موصوف کی شخصیت قابل احترام ہے مگر ان کی یہ اپیل موجودہ حالات کے تناظر میں مناسب نہیں-

اس تعلق سے ریڈ کریسینٹ سوسائٹی آف انڈیا کے صدر ارشد صدیقی نے کہا کہ مولانا کی اپیل کا فائدہ سنگھ پریوار کو ہوا ہے کیونکہ یہ اپیل فرقہ پرست طاقتوں کو متحد کرے گی نیز مولانا نے مہا ویکاس ااگھاڑی کے امیدواروں کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔

 اس تعلق سے انہوں نے وضاحت نہیں کی کہ انکی حمایت کس بنیاد پر کی اور دیگر امیدواروں کی کس بنیاد پر مخالفت کی۔انہوںنے کہا کہ مولانا سجاد نعمانی کی نیت مشکوک نہیں ہے لیکن تمام مکاتب فکر کے علمائے کرام مشترکہ طور سے کوئی اپیل کرتے تو مسلمانوں کے لئے کارگر ثابت ہوتی-

اسی طرح مسلم ووٹرس کاؤنسل آف انڈیا کے کنوینر عبدالباری خان نےکہا کہ مہاراشٹرا کے جاری اسمبلی الیکشن کے دوران مولانا سجاد نعمانی کی پریس کانفرنس اور ان کے حمایت کردہ امیدواروں کے نام سامنے آنے پر کہا کہ مولانا سجاد نعمانی صاحب ملت کے بزرگ مذہبی رہنما ہیں آپ کی علمی قدر و منزلت کا ہر طبقہ قائل ہے مگر مولانا صاحب کے اس اقدام نے ان کی شخصیت کو فطری طور پر مشکوک کردیا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ حمایت کردہ امیدواروں کی فہرست بڑی طویل ہے ایسا محسوس ہوا بظاہر فہرست نعمانی صاحب نے دی ہے اور اسکرپٹ کہی اور سے لکھی گئی ہے۔عبدالباری نے کہا کہ اب مہاراشٹرا کو بھی ہریانہ بنانے کی تیاری ہے جس کا احساس مہاراشٹرا کے مسلمانوں کو ہو چکا ہے۔

اسی طرح مسلم ویلفئر ایسوسی ایشن کے سربراہ سلیم سارنگ نے کہا کہ مولانا سجاد نعمانی نے انصاف سے کام نہیں لیا ہے جو مسلم امیدوار مہا یوتی کے امیدواروں کو ٹکر دے رہے ہیں اور جن کے کامیاب ہونے کے امکانات زیادہ ہیں انہیں چھوڑ دیا گیا ہے انکی حمایت کیوں نہیں کی گئی ؟

انہوں نے یہ بھی کہا کہ تائید وحمایت کی جو فہرست تیار کی گئی ہے وہ جیسے کسی خاص ذہنیت کو ملحوظ رکھ کر کی گئی ہے ورنہ اہم ترین امیدوار کو نظر انداز نہیں کیا جاتا ان میں این سی پی کے پانچ امیدوار بھی شامل ہیں ۔

انہوں نے مزید کہا کہ سماج وادی پارٹی اپوزیشن اتحاد انڈیا الائنس میں شامل ہے اور وہ صرف ریاست کی دو سیٹوں پر اپنا حق جما کر قسمت آزمائی کر رہی ہے نیز دیگر نشستوں پر پارٹی کے باغی امیدوار ہیں دوستانہ مقابلہ کر رہے ہیں لیکن مولانا سجاد نعمانی نے اورنگ آباد سے قد آور لیڈر امتیاز جلیل کی حمایت کے بجائے سماج وادی پارٹی کے کمزور امیدوار کی حمایت کر کےمسلمانوں کے سامنے بڑ اسوال کھڑا کر دیا ہے

،اورنگ آباد سے تعلق رکھنے والے عالم دین مولانا عبد القیوم ندوی نے کہا کہ مولانا سجاد نعمانی نے وسیع تحقیقی زمینی سروے اور گہرائی سے تجزیہ کے بعد امیدواروں کی تائید و حمایت کے اعلان کا دعویٰ پریس کانفرنس میں کیا تھا لیکن انہوں نے اس بات کی وضاحت نہیں کی کہ زمینی سروے میں شامل ٹیم کے ممبران کون تھے او رکس بنیا دپر انہوں نے تائید و حمایت کا اعلان کیا

۔واضح رہے کہ گذشتہ دنوں بی جے پی لیڈر کرٹ سومیا نے اپنے ایک ویڈیو پوسٹ میں مولانا کی اس اپیل کو ووٹ جہاد قرار دیا تھا اس کے خلاف انہوں نے الیکشن کمیشن آف انڈیا سے بھی شکایت کی ہے ۔