Murshidabad communal violence: مرشدآباد میں فرقہ وارانہ تشدد برپا کرنے والے باہر کے لوگ ہیں: ترنمول کانگریس رکن پارلیمنٹ
حلقہ جنگی پور کے ترنمول کانگریس رکن پارلیمنٹ خلیل الرحمن نے اتوار کے دن کہاکہ ابتدائی تحقیقات سے اشارہ ملتا ہے کہ مغربی بنگال کے مسلم اکثریتی ضلع مرشد آباد کے بعض علاقوں میں فرقہ وارانہ تشدد برپا کرنے والے بنیادی طورپر باہر کے لوگ ہیں، یہ ضلع کے رہنے والے نہیں ہیں۔

Murshidabad communal violence: کولکتہ (آئی اے این ایس) حلقہ جنگی پور کے ترنمول کانگریس رکن پارلیمنٹ خلیل الرحمن نے اتوار کے دن کہاکہ ابتدائی تحقیقات سے اشارہ ملتا ہے کہ مغربی بنگال کے مسلم اکثریتی ضلع مرشد آباد کے بعض علاقوں میں فرقہ وارانہ تشدد برپا کرنے والے بنیادی طورپر باہر کے لوگ ہیں، یہ ضلع کے رہنے والے نہیں ہیں۔
وقف ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کی وجہ سے مرشد آباد میں حالیہ دنوں میں تناؤ رہا ہے۔ ضلع میں ہفتہ کی رات سنٹرل آرمی پولیس فورس(سی اے پی ایف) کی تعیناتی کے بعد متاثرین تشدد سامنے آرہے ہیں اور گزشتہ چند دن میں اُن پر جو بیتی اس کی داستاں سنانے لگے ہیں۔
انہوں نے سی اے پی ایف اور میڈیا کو بتایاکہ توڑ پھوڑ میں حصہ لیتے دیکھے گئے زیادہ تر لوگ غیر مقامی تھے جو اچانک بھیڑ کی شکل میں آئے اور توڑ پھوڑ کرکے چلے گئے۔ متاثرہ کنبوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ زیادہ تر خاطی کم عمر لڑکے تھے۔ اس دوران گرفتاریوں کی تعداد جو ہفتہ کی شام تک 118 تھی اتوار کی صبح بڑھ کر 150 ہوگئی۔
تشدد میں باہر کے لوگوں کا ہاتھ ہونے کی بات ضلع مرشد آباد کی ترنمول قیادت نے بھی مانی ہے۔ خلیل الرحمن نے کہاکہ حملہ آور، مرشد آباد کے باہر کے لوگ تھے۔ تاہم انہیں پتہ نہیں کہ وہ کہاں سے آئے تھے۔
اُنہوں نے کہاکہ ہوسکتا ہے کہ وہ متصل اضلاع مالدہ اور ناڈیہ کے ذریعہ سڑک یا دریائے گنگاوبھگیرتی سے کشتی میں بیٹھ کر آئے ہوں۔ ترنمول کانگریس رکن اسمبلی منیر الاسلام نے بھی باہر کے لوگوں کے حملہ آور ہونے کی بات مانی ہے۔ ان کامکان خود بھیڑ کے حملہ کی زد میں آیا۔
اُنہو ں نے کہاکہ اس علاقہ میں پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا۔ اس دوران علاقہ میں کشیدگی برقرارہے۔ ہائی کورٹ کی خصوصی ڈیویژن بنچ کی ہدایت پر ہفتہ کی شام سی اے پی ایف تعینات کی گئی۔
سی اے پی ایف نے پٹرولنگ شروع کردی ہے۔ پی ٹی آئی کے بموجب مزید 12 گرفتاریاں عمل میں آگئیں۔ مسلم اکثریتی ضلع میں کہیں سے بھی کسی ناخوشگوار واقعہ کی کوئی اطلاع نہیں۔ تحقیقات جاری ہیں۔ مزید گرفتاریوں کا امکان ہے۔