وقف قانون پر سپریم کورٹ میں مباحث ،عدالت اس وقت تک مداخلت نہیں کرسکتی جب تک کہ کوئی واضح خلاف ورزی ثابت نہ ہو: چیف جسٹس
درخواست گزاروں کے وکیل کپل سبل اور ابھیشیک منو سنگھوی نے اس پر اعتراض کیا۔ سنگھوی نے کہا کہ اس وقت کے چیف جسٹس سنجیو کھنہ نے کہا تھا کہ عدالت معاملہ سنے گی اور دیکھے گی کہ کوئی عبوری ریلیف دینا ہے یا نہیں، اس لیے اب یہ کہنا کہ بات صرف تین نکات تک محدود رہے، درست نہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس معاملے کو ٹکڑوں میں سنا نہیں جا سکتا۔

نئی دہلی: چیف جسٹس آف انڈیا بی آر گوائی نے وقف ترمیمی ایکٹ کو چیلنج کرنے والے درخواست گزاروں سے کہا ہے کہ پارلیمنٹ سے منظور شدہ قانون کے آئینی ہونے کا ایک فطری مفروضہ ہوتا ہے اور عدالت اس وقت تک مداخلت نہیں کر سکتی جب تک کہ کوئی نمایاں اور واضح خلاف ورزی ثابت نہ ہو۔
چیف جسٹس گوائی اور جسٹس اے جی مسیح کی بنچ ان درخواستوں کی سماعت کر رہی تھی جو گزشتہ ماہ قانون بننے والے وقف ترمیمی ایکٹ کے خلاف دائر کی گئی ہیں۔ عدالت نے پہلے ہی تین نکات کو زیر بحث لانے کا فیصلہ کیا تھا: وقف بایوزر، غیر مسلم افراد کی وقف کونسل اور ریاستی وقف بورڈز میں نامزدگی، اور سرکاری زمین کی وقف حیثیت کی شناخت۔ مرکز نے یقین دہانی کرائی تھی کہ ان نکات پر کارروائی کی جائے گی جب تک معاملہ حل نہ ہو جائے۔
سماعت کے دوران سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے عدالت کو بتایا کہ مرکز نے ان تین نکات پر اپنا تحریری جواب جمع کروا دیا ہے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ درخواست گزاروں کی تحریری گزارشات ان تین نکات سے آگے بڑھ چکی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ معاملہ انہی تین نکات تک محدود رکھا جائے۔
درخواست گزاروں کے وکیل کپل سبل اور ابھیشیک منو سنگھوی نے اس پر اعتراض کیا۔ سنگھوی نے کہا کہ اس وقت کے چیف جسٹس سنجیو کھنہ نے کہا تھا کہ عدالت معاملہ سنے گی اور دیکھے گی کہ کوئی عبوری ریلیف دینا ہے یا نہیں، اس لیے اب یہ کہنا کہ بات صرف تین نکات تک محدود رہے، درست نہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس معاملے کو ٹکڑوں میں سنا نہیں جا سکتا۔
کپل سبل نے کہا کہ یہ قانون وقف زمینوں پر قبضے کے لیے بنایا گیا ہے اور اس میں کسی قانونی طریقہ کار پر عمل نہیں کیا گیا۔ انہوں نے اعتراض کیا کہ قانون میں صرف وہی شخص وقف بنا سکتا ہے جو کم از کم پانچ سال سے اسلام پر عمل پیرا ہو۔ اگر کوئی شخص مرنے کے قریب ہو اور وقف کرنا چاہے، تو اسے یہ ثابت کرنا ہوگا کہ وہ پانچ سال سے مسلمان ہے، جو کہ غیر آئینی ہے۔
چیف جسٹس نے جواب دیا کہ پارلیمنٹ سے منظور شدہ قانون کے آئینی ہونے کا ایک مفروضہ ہوتا ہے اور جب تک کوئی نمایاں خلاف ورزی نہ ہو، عدالت مداخلت نہیں کرے گی، خاص طور پر موجودہ حالات میں۔
کپل سبل نے کہا کہ نئے قانون کے مطابق کوئی بھی گاؤں پنچایت یا نجی فرد شکایت کرے تو جائیداد وقف کی حیثیت کھو سکتی ہے، اور فیصلہ کرنے والا افسر خود سرکاری نمائندہ ہوگا جو اپنے ہی معاملے میں جج بن جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ وقف ایک نجی جائیداد ہوتی ہے، یہ ریاست کی ملکیت نہیں ہو سکتی۔ اب وہی جائیداد ریاست لے رہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ آئین کے تحت ریاست کسی مذہبی ادارے کی مالی معاونت نہیں کر سکتی۔ مسجد کی مرمت کے لیے سرکاری فنڈ نہیں دیا جا سکتا، اور قبرستان کے لیے زمین نجی افراد کو ہی دینی پڑتی ہے۔ اسی لیے لوگ اپنی زندگی کے آخری حصے میں جائیداد وقف کرتے ہیں۔ مسجدوں میں مندروں کی طرح چندہ نہیں آتا، اور نہ ہی ان کے پاس اربوں روپے کا کارپس ہوتا ہے۔
جب چیف جسٹس نے کہا کہ درگاہوں کو بھی گرانٹس ملتی ہیں، تو سبل نے وضاحت کی کہ وہ صرف مسجدوں کی بات کر رہے ہیں۔
وقفے کے بعد، کپل سبل نے کہا کہ اگر کسی یادگار کو محکمہ آثارِ قدیمہ کی جانب سے "محفوظ” قرار دیا جائے، تو وہ فوراً اپنی وقف حیثیت کھو دے گی۔ اس میں جامع مسجد، سنبھل بھی شامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ بہت ہی تشویش ناک ہے۔ انہوں نے یہ بھی نشاندہی کی کہ قانون کے کچھ سیکشن ایسے ہیں جو پارلیمانی کمیٹی کے مسودے میں شامل نہیں تھے، اس لیے ان پر پارلیمنٹ میں کوئی بحث نہیں ہوئی۔