مضامین

”میرے نقشہ کے مطابق یہ زمین کچھ کم ہے“

رفعت بیگم

مکان کی تعمیر تو فقط تصور ہی میں ہو سکتی ہے
میرے نقشہ کے مطابق یہ زمین کچھ کم ہے
مندرجہ بالا شعر شاعر کی آپ بیتی پر مبنی نظر آتا ہے لیکن مجھے اس شعر میں نہ صرف شاعر کی آپ بیتی بلکہ غریب اوربے گھر افراد کی جگ بیتی بھی نظر آتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مکان انسان کی زند گی کا کُل سر ما یہ ہو تا ہے بلکہ انسان کی کل کا ئنات ہی مکان کی تعمیر ہوتی ہے۔ مکان کی تعمیر سے متعلق یوں تو بہت سے محاورے اور اشعار مشہور ہیں اور حیرت ناک بات یہ ہے کہ بے گھر افراد کو گھر دینے کا وعدہ کرتے ہوئے اب تک کئی سیاسی قائدین نے اپنی دُوکانیں چمکالی ہیں،لیکن بے گھر افراد ہنوز گھر کے لیے ترس رہے ہیں۔ اُردو کے گیان پیٹھ ایوارڈ یافتہ و مشہور شاعر فراق ؔگورکھپوری کی شاعری سے محظوظ ہو نے کے لیے کئی لوگوں نے اُردو زبان سیکھی۔ اس شاعر نے بھی ساری زندگی کر ائے کے گھر میں بسرکی۔ پنڈت جواہر لال نہرو کے دوست اور آہنی وزیراعظم اندرا گاندھی کے چچا کے رُتبہ کے حا مل فراقؔ گو رکھپوری نے تمام زندگی الہ آباد کی ایک معمولی سی کو ٹھری میں گزاردی اور آخری سانس بھی اسی کوٹھری میں لی۔ حالانکہ اس زمانے میں فراقؔ کا طو طی بو لتا تھا۔ فراق ؔاندرا گاندھی جیسی آہنی وزیراعظم کو اندو کہہ کر مخاطب کرتے تھے اور اندرا گاندھی انہیں چاچا کہہ کر بلاتی تھیں۔ اس کے باوجود بھی بے گھر رہے۔ ہندوستان کے کئی نا مور سیاسی قائدین بھی ایسے گزرے ہیں کہ جنہوں نے ساری زندگی کرائے کے گھر میں بسر کی۔ مغلیہ سلطنت کے آخری تاجدار بہادر شاہ ظفرؔ کے خاندان نے ہندوستان پر کئی صدیوں سے تک حکومت کی، لیکن اسی خاندان کے آخری چشم و چراغ کو اپنے وطن عزیز میں دوگز زمیں بھی نہ مل سکی اور وہ یہ شعر کہنے پر مجبور ہوگئے کہ
کتنا ہے بد نصیب ظفر دفن کے لیے
دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یارمیں
اس سے اندازہ لگا ئیے کہ زندگی میں گھر کی کیا اہمیت ہے۔ گھر بنانا اور بسانا دونوں الگ الگ باتیں ہیں۔ کئی لوگ گھر بنانہ سکے تو یہ سمجھ کر موت کا خوشی خوشی استقبال کیے کہ
شکریہ تیرااے موت تو نے مجھے زمیندار کر دیا
اس کے علاوہ گھر کی تعمیر کا خواب جن کا شر مندہ تعبیر نہ ہو سکا وہ یہ سمجھ کر اپنے آپ کو تسلی دیتے رہے کہ دنیا میں بیوقوف آدمی گھر بناتا ہے اور عقلمند آدمی کرائے سے رہتا ہے، لیکن میرا مو ضوع اس وقت مکان کی تعمیر ہے اور اس وعدہ پر اب تک ہندوستان میں جو اسکیمات روشناس کروائی گئی ہیں، ان کا اجمالی جائزہ لینا ہے۔
ملک کی آزادی کی ڈائمنڈ جوبلی تقر یب 15 / اگست 2022 کو بڑے تزک و احتشام سے منائی گئی لیکن آزادی کے 75 سال گزر جانے کے باوجود بھی ابھی تک ملک میں لاکھوں خاندان بے گھر ہیں۔ کئی لوگ فٹ پاتھ، ریلوے اسٹیشن اور فلائی اور بریجس کے نیچے اپنے شب وروز گزارنے پر مجبور ہیں۔ حالانکہ آزادی کے ان 75 سالوں کے دوران مر کزی وریاستی حکومتوں نے بے گھر افراد کو گھر کی فراہمی کے لیے متعدد اسکیمات کو روشناس کروایا ہے۔ اس کے با وجود بھی اس کے کو ئی مثبت نتائج بر آمد نہیں ہوسکے۔ آہنی وزیر اعظم اندرا گا ندھی نے تو انقلابی کار ناموں کے لیے مشہور ہیں۔ انہوں نے ’غر یبی ہٹاؤ‘ کا نعرہ دیتے ہو ئے اس کے عملی اقدامات کے طور پر جہاں بے روزگار افراد کو روزگار کی فراہمی کے اقدامات کیے وہیں انہوں نے بے گھر افراد کو گھر دینے کے لیے اندرا گاندھی آواس یوجنا اسکیم کو متعارف کروایا تھا۔ اٹل بہاری واچپائی نے والمیکی آواس یوجنا،نر یندر مودی نے پردھان منتری آواس یوجنا،اسکیم کو متعارف کروایا ہے۔ اس کے علاوہ ریاستی حکومتوں نے اپنے اپنے طور پر کئی ایک اسکیمات روشناس کروائی ہیں۔ آنجہانی چیف منسٹر ڈاکٹر وائی ایس راج شیکھر ریڈی نے متحدہ ریاست آندھراپردیش میں اندرما پتھکم کے نام سے، مو جودہ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے تلنگانہ میں ”ڈبل بیڈ روم“ اسکیم متعارف کرواتے ہوئے بے گھر افراد کو گھر فراہم کرنے کااعلان کیا۔ تاہم آج بھی قومی و ریاستی سطح پر لا کھوں خاندان کرائے کے گھروں میں اپنی زند گی گزار رہے ہیں بلکہ اپنی آمدنی کی ایک بڑی رقم گھر کے کرائے کے نام پر خرچ کر رہے ہیں۔ بے گھر افراد نے انتخابات میں سیاسی قائدین کو گھر دینے کے وعدوں پر انہیں ووٹ دے کر کامیاب کیا لیکن وہ اپنے ذاتی گھر کے مالک ہونے کے اپنے خواب کو شرمندہ تعبیر نہ کر سکے۔ ڈاکٹر وائی ایس راج شیکھر ریڈی کے دور میں بھی اندرما ہاؤسنگ اسکیم کے نام سے بے گھر افراد کو گھر دینے کا آغاز کیا گیا تھا۔ اس کے باوجود بھی بے گھر افراد کو گھر بار کے حامل نہ بنایا جا سکا۔
تاہم تشکیلِ تلنگانہ کے بعد چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے بھی غریب افراد کو ڈبل بیڈروم مکانات کی فراہمی کا اعلان کیا تھا۔ اسی مقصد سے تلنگانہ حکومت نے ڈبل بیڈروم اسکیم کو متعارف کروایاتھا۔ڈبل بیڈروم یا بے گھر افراد کو مکانات کی فراہمی کی اسکیم اپنی نوعیت کی ایک منفر د اسکیم ہے۔ ریاستی تلنگانہ حکومت نے ڈبل بیڈروم اسکیم کو نہ صرف روشناس کروایا بلکہ اس اسکیم پر عمل آوای کے لیے مالی سال 2021-22 کے بجٹ میں 11916 کروڑ روپئے مختص کئے گئے۔ جبکہ مالی سال2022-23 کے بجٹ میں شخصی (انفرادی)طور پر مکانات کی تعمیر کے لیے 12 ہزار کروڑ رو پئے کا بجٹ مختص کیا گیا کیوں کہ سال 2018 کے اسمبلی انتخابات میں ریاستی حکومت نے رہائشی پلاٹ کے حامل غریب افراد کے لیے مکانات کی تعمیر کے لیے فی کس پانچ لاکھ روپئے کا بجٹ مختص کیا تھا۔ اسی طرح اسی مالی سال 2022-23 میں ہر اسمبلی حلقہ کے لیے فی کس تین ہزار ڈبل بیڈروم مکانات کی تعمیر کا ہدف مقرر کیا گیا ہے، لیکن یہ ہدف بھی مکمل نہیں ہو سکا۔
ڈبل بیڈروم اسکیم اپنی نوعیت کی ایک منفرد اسکیم ہو نے کے باوجود اس میں کچھ نقائص بھی ہیں۔اس اسکیم میں شفافیت کا فقدان پایا جاتا ہے۔ ریاست کی تشکیل کے بعد سے حکومت نے ڈبل بیڈروم مکانات کے لیے جو بجٹ مختص کیا تھا۔ کسی بھی معاشی سال وہ بجٹ مکمل اس مد میں خرچ نہ ہو سکا۔سب سے بڑی خامی اس میں مستحق افراد کی نشاندہی ہے۔ مرکز اور ریاستی حکومتوں میں عدم تال میل کے سبب اس کئے لیے خا طر خواہ مر کزی بجٹ سے استفادہ نہیں کیا گیا اور ایک مسئلہ ان افراد نے بھی ڈبل بیڈروم اسکیم کے لیے درخواستیں داخل کی ہیں کہ جن کے ذاتی مکانوں میں بیسوں خاندان کرا ئے سے جی رہے ہیں۔ گاؤں سے شہروں کو جو خاندان نقل مکانی کرتے ہیں، وہ لوگ شہر میں اپنے آپ کو بے گھر ثا بت کر تے ہیں۔ جبکہ ان کے آبائی گا ؤں میں ان کا اپنا ذاتی مکان مو جود ہو تاہے۔ تاہم تلنگانہ کی اگر بات کر یں توریاست کی تشکیل کے ان 8 سالوں کے اندر ریاست میں ایک لاکھ مکانات بھی تعمیر نہیں کیے گئے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اب تک ریاست بھر میں تقر یباََ 2 لاکھ سے زائد ڈبل بیڈروم مکانات زیر تعمیر ہیں اور جن مکانات کی تعمیر مکمل ہوئی ہے، ابھی وہ استفادہ کنند گان میں تقسیم نہیں ہو ئے ہیں جبکہ سال 2017 میں ڈبل بیڈروم مکانات کے لیے اہل اور مستحق افراد سے در خواستیں طلب کی گئی تھیں تب ریاست بھر سے تقر یباََ 28 لاکھ در خواستیں مو صول ہوئی تھیں۔ بعض علاقوں میں یہ شکایات عام ہیں کہ جب استفادہ کنندگان کو مکان دے دیا جا تا ہے تو اس کو ملکیت کا مکمل حق اسے حا صل ہے یا نہیں اور اس کو فروخت کر نے کا حق حاصل ہو نے کا معاملہ مبہم ہے۔ گزشتہ جن حکومتوں میں جو لوگ رہائشی پلاٹ کی شکل میں استفادہ کیے تھے، آیا موجودہ حکومت اور نئی ریاست میں کیا وہ لوگ ڈبل بیڈروم مکان کے مستحق ہوں گے یا نہیں کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ ڈبل بیڈروم مکانات کے استفادہ کنندگان کے انتخاب میں سیاسی سفارش کی وجہ سے بھی مستحق استفادہ سے قاصر رہے ہیں۔ اس طرح اس میں اصل مستحق کی شناخت کے پیمانہ میں اصلاح کی ضرورت ہے۔تلنگانہ حکومت کی یہ بہتر ین اسکیم ہے، لیکن اس پر عمل آوری میں اگر پیش رفت کی جا ئے تو ریاست کے تقریباً بے گھر افراد گھر کے حامل بن جا ئیں گے۔
مر کزی حکومت نے بھی دسمبر 2022 تک ملک کے تمام بے گھر افراد کو مکانات کی فرا ہمی کے مقصد کے تحت پر دھان منتری آواس یوجنا اسکیم کے تحت بڑی مقدار میں ریاستوں کے لیے بجٹ مختص کیا تھا۔ مر کزی حکو مت نے ملک بھر میں دیہی اور شہری علاقوں کی حدود میں تقریباً 80 لاکھ مکانات کی تعمیر کا ہدف مقرر کیا تھا۔ تلنگانہ میں پر دھان منتری آواس یو جنا اسکیم کے تحت جو فنڈ موصول ہوئے ہیں، مر کزی حکومت سے موصول ان فنڈس کو ریاستی حکومت ڈبل بیڈروم اسکیم میں استعما ل کر رہی ہے۔ اس کے باوجود بھی ریاست بھر میں درکار تعداد میں ذبل بیڈروم مکانات کی تعمیر کا ابھی آغاز بھی نہ ہوسکا بلکہ اب تک ڈبل بیدڑوم مکانات کی زیادہ تعمیر حلقہ اسمبلی سر سلہ، گجویل، سدی پیٹ، ظہیرآباد کے بشمول کچھ وزراء کے حلقہ انتخاب میں ہی تعمیر ہوئی ہے۔ تلنگانہ کے ابھی کئی ایسے حلقہ اسمبلی جات ہیں کہ جہاں ڈبل بیڈروم مکانات منظور ہو ئے ہیں، لیکن ان کے تعمیراتی کا موں کا آغاز نہیں ہوسکا۔ بعض حلقوں میں ڈبل بیڈروم مکانات زیر تعمیر ہیں۔ کچھ حلقوں میں مکانات کی تعمیرتک ہو چکی ہے لیکن ابھی وزراء کی مصروفیت کے سبب ان کاافتتاح نہ ہو سکا اوروہ استفادہ کنند گان کے حوالے نہ ہو سکے۔ جومکانات تعمیر ہو رہے ہیں ان کے ناقص معیار کی شکایات بھی عام ہیں۔ بہرحال تلنگانہ ریاستی حکومت نے جن اسکیمات کو روشناس کر وایا ہے، ان میں ایک اہم اسکیم ڈبل بیڈروم اسکیم ہے۔ پڑو سی ریاست آندھرا پردیش میں بھی وزیر اعلیٰ ڈاکٹر جگن مو ہن ریڈی نے جگن انا اسکیم کے تحت بے گھر افراد کو مکانات کی تعمیر کا ہدف مقرر کیا ہے۔ جگن موہن ریڈی نے ریاست بھر میں جملہ 31 لاکھ مکانات کی تعمیر کا نشانہ مقرر کیا اور پہلے مر حلے کے طور پر تقر یباََ 10 لاکھ مکانات کی تعمیر کا آغاز کیا جو ان دنوں آخری مر حلے میں ہیں۔ ملک کی دیگر ریاستوں میں بھی بے گھر افراد کو مکانات کی فراہمی کی اسکیم پر مختلف ناموں سے عمل کیا جا رہا ہے۔ ریاست تلنگانہ چو نکہ آندھرا ئی قائدین کی جانب سے مسلسل نظر انداز کی گئی ریاست ہے، اس لیے یہاں تر قیاتی کام و اختراعی کام انجام دیے جا رہے ہیں۔ اب مر کز کی بی جے پی حکومت‘ تلنگانہ کو سیاسی انتقام کے طور پر مرکزی حکومت کی جانب سے جاری کیے جا نے والے بجٹ کو روکتے ہوئے یہاں کے ترقیاتی کاموں میں رخنہ ڈال رہی ہے۔ اب حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ عنقر یب منعقد ہو نے والے اسمبلی انتخابات سے قبل غر یبوں اور تمام مستحقین کو ڈبل بیڈروم مکانات کی فراہمی کو یقینی بنائے۔
٭٭٭